بدھ، 4 ستمبر، 2019

مملکت خدا داد

ایک کسان نئی زمین آباد کر رہا تھا کہ وہاں سے کسی پادری کا گزر ہوا ، پادری نے پوچھا کیا کر رہے ہو ؟
زمین کی جھاڑ جنگاڑ اور بنجر نکال کر آباد کر رہا ہوں ،۔
پادری نے دعا دی ،۔
رب تمہاری مدد کرئے !،۔
کچھ سال بعد جب پادری کا وہاں سے گزر ہوا تو کسان کا بہترین گھر ، گھر کے سامنے کارپٹ گھاس کا لان ، پھلوں کے درخت لگے تھے اور کھیتوں میں فصلیں لہلہا رہی تھیں ،۔
کسان نے پادری کو سلام کیا ،۔
پادری نے فرمایا ، تم نے اپنے رب کی مدد سے اس زمین کو بہت خوبصورت بنا لیا ہے ، مبارک ہو !،۔
تو کسان نے کہاں
ہاں فادر دیکھ لیں ، جب میں نے رب کی مدد کی تو نتیجہ آپکے سامنے ہے ، جب تک رب اکیلا لگا تھا اس وقت کے حالات بھی تو آپ نے دیکھے ہی ہوئے ہیں ،۔
کیا جھاڑ جھنگاڑ تھی ؟؟

وہ کہنا یہ تھا کہ
پاکستان کو بس اللہ ہی چلا رہا ہے ،۔
کیونکہ یہ مملکت خدا داد ہے !،۔

جمعہ، 12 جولائی، 2019

آؤ حمد کریں



یہ گولا جس کو زمین کہتے ہیں پل صراط ہے ، بال سے باریک اور تلوار سے تیز ،خوارک ہی پر منحصر نہیں ہر چیز انتہائی توازن کا تقاضا کرتی ہے ،۔

ایک ٹھیک توازن سے زہر بھی دوائی ہوتا ہے اور غیر متوازن گلوکوز بھی زہر بن جاتا ہے ،۔
موسم ہوں کہ کہ رشتہ داریاں  ہر چیز ایک پل صراط ہے ،۔
انسان اس سیارے پر اجنبی ہے ،۔
 اس کو کسی سزا کے طور پر یہاں اتارا گیا ہے ،۔
انسان ایک بڑے جسم کی بنیادی اکائی کی طرح ہے جس کے جین کوڈ میں ڈالا گیا ہے کہ 
چلو ، اور چلتے چلو اس چلنے میں ویڈیو گیم کی طرح بلائیں ہوں گی جن سے نپٹنا ہو گا ، یا مر جانا ہو گا ،۔
ساتھ ساتھ جنسی ملاپ سے اپنے جسم کے اگلی نسل پیدا کرتے جاؤ ۔
اور اگر اگر نہ چلو گے تو ؟ سستی کی اخیر بھی موت ہی ہے ،۔ 
ایسے یا وہسے تمہیں اپنے حصے کے کرب جھیل کر اپنی اگلی نسل پیدا کر کے مر جانا ہے ،۔
کسی مردہ جسم پر گلتے ہوئے گوشت میں کلبلاتے کیڑے ، ہر کیڑا اپنی اپنی جگہ حرکت میں ہوتا ہے ، ان کے اپنی دنیا ہے ،۔
چند ساعتوں سے لے کر چند دن کی زندگی میں ہر ہر کیڑا اپنے اندر ایک پورا جنم  جی کر مرتا ہے ،۔
انسان اس سیارے پر اجنبی ہے ،۔
اپنی سزا بھگت کر ایک دن مکت ہو جاے گا ،  جب سارا جسم اپنی ایک ایک روئیں ایک ایک اکائی پورے کرب اور دکھوں کو بھوگ کر اس پل صراط سے گزر جائے گا تو ، اس کے بعد وہ گمگشدہ جنت ہے ،۔ 
جس سے انسان کو نکال پھینکا گیا تھا ،۔
بے شک بہے مہان ہے وہ طاقت ، جس نے یہ سارا کھیل بنایا ہے ،۔
جو بہت عقل والا ہے جو بہت بڑا ہے ، جو جانتا ہے ، دیکھتا ہے ، اور سنتا ہے ،۔
منت ترلا کرنے سے کرب اور دکھ کم کرتا ہے ،۔
بے وہ بہت مہربان ہے ،۔
بابا جی نانک سرکار اس کو  نام کہا کرتے تھے ، یہودی اس کو اہورا کہتے ہیں ، ہندو اس کو بگھوان اور عیسائی اس کو  خداوند خدا کہتے ہیں ،۔
میں اسکو  اللہ کے پاک نام سے پکارتا ہوں ،۔
بے شک میرا رب بہت ہی اعلی اور طاقتور ہے ،۔
بہت مہان ہے ، بہت مہربان ہے ،۔
اک تو کہ صدیوں سے میرے ہمراھ بھی ہم راز بھی 
اک میں ترے نام سے ناآشنا ہائے بے چارگی 
آؤ حمد کریں ، اس پاک ذات کی  جس کے بہت نام ہے ،۔
کہ حمد  دعا ہے ، ذہن میں بننے والی دکھ ، کرب ، اور پریشانیوں بیماریون کی ،۔
آؤ حمد کریں ، ،۔
خاور کھوکھر

جمعہ، 28 جون، 2019

اللہ خیر کرئے


میرے حالات  بھی بہت ٹائٹ چل رہے ہیں ، پیسے کی آمد نہیں ہے اور خرچے منہ کھولے کھڑے ، سیکوڑتی پر ہونے والے خرچوں  اور ٹینسن نے حالات بہت خراب کر دئے ہیں ،۔


میرا بھی ایک امریکہ تھا ، بلکہ ہے ، جس کی مدد سے میں نے یارڈ بنائے ، کاروبار میں کمائی کے ذرائع بنائے ،۔
میں اپنے امریکہ کی آواز پر اس کے کام کرنے جایا کرتا تھا ، کبھی کہیں کسی یارڈ کی صفائی ، کبھی کسی مکان کے پودوں کی جھاڑ جھانٹ  ،اور میرا امریکہ مجھے کئ طرح سے امداد دیا کرتا تھا ، کبھی کسی گاری کی فروخت کے منافع سے کچھ دے دیتا تھا کبھی لوہے وغیره کی صورت میں منافع کمانے کا موقع مل جاتا تھا ،۔ 
مال کی خرید فروخت کے لئے کئی ملین نقدی کا قرض بھی دیا ، جو کہ سالہا سال سے میں اس کو واپس نہیں کر سکا ، میرا امریکہ ہلکا ہلکا تقاضا کرتا رہتا ہے ،۔
میں بھی واپس کرنے کے وعدے پر اس کو ٹرخاتا رہا ہوں ،۔
میرے امریکہ کے ساتھ بھی ایک کیری لوگر بل ہو گا 
کہ ایک حاقانی ٹاپب بندہ  میرے امریکہ کے قریب ہوتا چلا گیا جس نے میرے امریکہ کو پٹیاں پڑھانی شروع کر دیں کہ  خاور بہت کمائی کر رہا ہے ، خاور کی بڑی اڑان ہے ، اس کی مدد کرنا تو اپنے کو بیوقوف سا محسوس کرنا ہے 
وغیرہ وغیرہ
اس دوران میرے امریکہ جس کو میں ساچو کہتا ہوں اس کی کچھ چیزیں میرے پاس پڑی ہوئی تھیں وہ چوری ہو گئیں ،۔
اصل میں کچھ افغانی مدد مانگنے کے لئے آئے ہوئے تھے جن کی مدد کرتا تھا لیکن وہ افغانی چور تھے  جنہوں نے میری چیزیں چوری کرنا شروع کر دیں ،۔
ہر چوری کے بعد میں سیکورٹی پر خرچ شروع کر دیتا تھا ۔
کبھی دیواریں اونچی کر رہا ہوں تو کہیں دیواروں کی تعمیر  کر رہا ہوں جس پر خرچے آ رہے ہیں اور چوری ہونے والے مال کی وجہ سے سرمایہ بھی سرکتا چلا جا رہا ہے ،۔
ایک یارڈ کے پڑوسیون نے حد بندی کا مسئلہ کھڑا کردیا ہوا ہے ،۔
ان کی طرف سے پاس پڑوس (عالمی برادری) کو یہ پٹیاں پڑھائی جا رہی ہیں کہ 
یہ بندہ ہمارے پڑوس میں ہے تو کچرا وغیرہ چھوڑ کر بھاگ جائے گا ،۔
اس کے کاروبار سے رسنے والے تیل سے ہماری فصلیں اور زیر زمیں پانی خراب ہو جائے گا ،۔
جس کے لئے مجھے اپنی پروپگینڈا مشنری بھی بنانی پڑی ہے اور کچھ لوگوں کو پانی صفائی وغیری کے لئے وضحتوں کے لئے بھی ٹائم نکالنا پڑتا ہے م،
اب یہ حال ہے کہ سیکورٹی کمپنیوں کے ماہانہ بل ہیں ،۔
رات کو سونے سے پہلے قیمتی چیزوں کے سامنے روکاوٹیں گھڑی کرنے کی ٹینشن اور وقت کا ضیاں ہے ۔
سیکورٹی کی ٹینشن میں منافع بخش کام پسِ پشت چلے گئے ہیں اور سیکورٹی بڑی ٹائٹ ہو چکی ،۔
اور ساچو نے امداد بلکل بند کر دی ہوئی ہے 
اب مال خریدنے کے لئے بھی پیشے نہیں ہیں ،۔
سیکورٹی کو میں کم نہیں کر سکتا 
کہ پھر چوری ہو جائے گی ،۔
لیکن آہستہ آہستہ حال یہ ہونے کو ہے کہ 
چوری کے قابل مال فروخت کر کرکے سیکورٹی کے بل  تو بھر لوں گا 
لیکن 
جب یہ مال بھی ختم ہو گیا تو ؟
سیکورٹی کس چیز کی ؟
لیکن بل تو پھر بھی دینے ہون گے کہ سیکوڑتی کمپنیوں معاہدے کو پانچ سال سے پہلے ختم کرنے پر ہرجانے کا معاہدہ بھی لکھوایا ہوا ہے ،۔
اس لئے میں تو سنجیدگی سے کچھ ہارڈ یا کہ زمینیں بیچنے پر غور کر رہا ہوں ،۔
تاکہ نہ ہو گا مال 
نہ ہو گی سیکورٹی 
جیسا کہ ماضی قریب کی ہسٹری میں سویت یونین نے کیا تھا ،۔
سیکورٹی کی ذمہ داری سے جان چھڑانے کے لئے کچھ ممالک چھوڑ دئے تھے ،۔
میری تحریر پر یہ نہ کہہ دینا 
کہ ذات دی کوڑہ کرلی تے چھتیراں نوں جپھے ،۔
اپنے چھوٹے سے کاروبار کو ملکوں کی سیاست سے  مثالیں دے کر بتا رہا ہے ،۔
بس جی دعا کرو 
اللہ خیر کرئے اور میرے کاروبار میں منافع آئے ، یا کہ چکھ اچانک کہیں سے بڑی کرنسی مل جائے مفت میں !،۔
ورنہ حالات بہت تنگ ہیں ،۔
میں بھی ہوں تو کم عقل ہی 
لیکن
کیری لوگر بل اور سیکورٹی کے خرچوں کی وجوح زیادہ بڑی ہیں  ،۔

جمعرات، 20 جون، 2019

پنجاب کی جاتیاں


دادے کی زمین داری تھی ، چوہڑا لوگ  سیپی کر کے زمینوں پر رکھے ہوئے تھے ،۔
چوہڑا لوگوں کا کھانا پینا علیحدہ ہوتا تھا ،۔
مجھے یاد ہے کہ ہمارے شادی بیاھ پر چوہڑوں کے خاندان کے بچے بوڑھے اور خواتین کھانا کھانے آتے تھے ، ان کو بھی انہی برتنوں میں کھانا دیا جاتا تھا ، جیسا کہ سب لوگوں کو ،۔
میں نے دادی سے پوچھا کہ ان کے برتن علیحدہ کیوں نہیں ہیں  ؟
 تو مجھے بتایا گیا کہ کرائے کے برتن ہیں سب کے سانجھے ہیں !،۔
دلچسپ سوال اس دن پیدا ہوا جس دن  ایلس اور یونس مسیح کے بیٹے کی شادی تھی 
اور اگلے دن ولیمے پر دادا جی کو بھی بمعہ اہل عیال بلایا ہوا تھا  ،۔
میں نے پوچھا کہ 
ہم چوہڑوں کے گھر کا کھانا کھائیں گے ؟
تو مجھے بتایا گیا کہ رسم پوری کرنے کے لئے دادا جی چوہڑوں کے گھر میں جائیں گے ، اور وہاں سے کچا کھانا ملے گا جو ہم خود پکا کر کھائیں گے 
کہ
پنجاب کی یہی رسم ہے ،۔
اپنی جاتی سے اعلی جاتی کے گھر جا کر کھایا جا سکتا ہے لیکن اپنے سے کمتر جاتی سے تعلق تو رکھنا ہے اس لئے کمتر جاتی کے گھر سے کچا کھانا سوجی گھی چینی وغیرہ آ جائے گا م،۔
پنجاب میں  سکھ جاٹوں کے کئی ایسے گاؤں تھے جو تقسیم سے پہلے ایک ہی برادری کے لوگ سکھ دھرم کے بھی تھے اور مسلمان بھی تھے ،۔
تحصیل ڈسکہ کے دو مشہور گاؤں آدمکے چیمہ اور آدمکے ناگرہ 
ہر دو گاؤں میں چیمے اور ناگرے سکھ بھی تھے اور مسلمان بھی ، ان کے کھروں میں شادی بیاھ پر نیوندرے کا بھی لین دین ہوتا تھا ، کھانے کی دعوتیں بھی ،۔
ایک ہی گوت کے جاٹوں میں سکھ جاٹ اعلی جاتی کے ہوتے تھے اور مسلمان ، نیچ جاتی کے ۔
اس لئے مسلمان چیمے ناگرے تو سکھ چیمے ناگروں کے شادی بیاھ پر کھانا کھانے چلے جاتے تھے 
لیکن 
خود ان کے گھروں میں ہونے والی شادیوں میں سکھ چیمے اور ناگروں کے گھر کچا اناج بھیجا جایا کرتا تھا،۔
پاکستان بننے کے بعد عظمت اسلام کے شور میں پاکستان کی پچھلی چار نسلوں کو اس بات کا علم ہی نہیں کہ پاکستان بننے سے پہلے ہماری معاشرتی حثیت کیا تھا ؟


مہاراجہ رنجیت سنگھ اور مغل شہزادے  ؟
پاکستان میں تعلیم دی جاتی ہے کہ انگریزوں نے  مغلوں سے ہندوستان  چھین لیا تھا ،۔
لیکن
ستائیس جون  1839ء  کا دن مہاراجہ رنجیت سنگھ کا مرن دن ہے !،۔
رنجیت سنگھ  کہ حکومت  ملتان کشمیر  سے لے کر توخم تک پبھیلی ہوئی تھی ، یعنی کہ تقریباً  اج کا پاکستان  اور ہندوستان کا پنجاب اور ہریانہ  راجہ رنجیت سنگھ کی قلم رو تھا ،۔

سن 1857ء کا غدر المعروف جنگ آزادی   سے کوئی اٹھارہ سال پہلے موجودہ پاکستان پر کا حکمران حکومت کر کے گزر بھی چکا تھا ،۔
تو اس کا مطلب ہوا کہ موجودہ پاکستان کا علاقہ انگریز نے راجہ رنجیت سنگھ سے  یا کہ اس کی اولاد سے سازشیں کر کے حاصل کیا تھا ؟
تو یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے 
کہ
پاکستان میں رہنے والے مغل شہزادے  المروف لوہاراں ترکھاناں دے منڈے   سکھا شاہی کے دور کو بائی پاس کر کے اپنا شجرہ بہادر شاھ ظفر سے کس طرح ملاتے ہیں ؟
موجودہ پاکستان کے مغلوں کی سلطنت مغلیہ کے دور کی جاگیریں کیا ہوئیں ؟
شیر سوری نے تھوڈل مل سے مل کر پٹوار کا نظام بنایا تھا ، اس نظام کے تحت مغلوں کی زمینوں کی ملکیت کی طرح کا شجرہ ہونا چاہئے ہے جیسا کہ جاٹوں کا ہوتا ہے ،۔

ہفتہ، 15 جون، 2019

ایک کا خرچا دوسرے کی کمائی



ایک تحریر ، ان کے لئے جو تھوڑی سی عقل ، تھوڑا سا درد دل  رکھتے ہیں یا کہ کم از کم بے عقل نہیں ہیں ،۔
کہ
پاکستان میں رویہ بن چکا ہے کہ ایوان صدر کے خرچے ہوں کہ وزیر اعظم ہاؤس کے خرچے  ! سوشل میڈیا پر لوگ لٹھ لے کر چڑھ دوڑتے ہیں ،۔
عید ہو کہ شبِ برات  ، کوئی میلا ہو کہ بسنت ، بلکہ اب تو لوگ کسی کی شادی پر کے بھی خرچوں پر کوسنے دے دے کر  کوس رہے ہوتے ہیں ،۔
میں جانتا ہوں یہ فلسفہ کہاں سے آیا 
لیکن اس کی نشاندہی نہیں کروں گا کہ بات کسی  اور طرف چلی جائے گی اور جو بات میں کہنا چاہتا ہو پسِ پشت چلے جائے گی ،۔
یہ جو خرچے ہوتے ہیں 
مثال کے طور پر  ایوان صدر کے لئے طوطے کا پنجرہ بنوانا ہے م،۔
اس پر جو بھی رقم مختص ہو گی ، وہ کہاں جائے گی ؟
وہ پاکستان کے کسی شہری ٹھیکدار کی اکاؤنٹ میں جائے گی ،  وہ ٹھیکدار اس رقم میں سے کچھ رقم کسی مستری کو دے گا کہ پنجرہ بنوا دو ، وہ مستری بھی پاکستان کا شہری ہے ،۔
مستری اس پنجرے کے لئے بازار سے لوہا خریدے گا ، جس پر لوہے کا دوکان دار منافع کمائے گا ، وہ دوکاندار بھی پاکستانی شہری ہے ،۔
ہر بندہ ایوان صدر سے ملنے والی اس رقم میں سے کچھ نہ کچھ منافع کما رہا ہے ،۔
یہ منافع وہ بندہ کسی ریسٹورینٹ میں جا کر خرچ کرئے گا ، اس ریسٹورینٹ میں کام کرنے والے کک اور بیرے  بھی ایوان صدر سے ملنے والی رقم سے مستفید ہوں گے  ؟
اس طرح ایک سلسلہ چلے کا جو دولت کو گراس روٹ لیول تک لے کر جائے گا م،۔
اور یہ سارے فائدے عام پاکستانی اٹھا رہے ہوں گے ،۔
اسی طرح ٹھیکدار نے ایوان صدر سے ملنے والی رقم سے لمبی ہی دیہاڑی لگائی ہو گی ؟
اس بکر عید پر وہ ٹھیکیدار منڈی سے بیس لاکھ کا بیل خرید کر قربانی کرئے گا ،۔
وہ بیل کہاں سے آیا ہو گا ؟
چیچوکی ملیاں کے کسی آرائیں نے پالا ہو گا ،۔
گوجرانوالہ کے کسی مہر  کے گھر کا بچھڑا ہو ؟
ایک سال کی محنت سے پال پوس کر  بیس لکھ کا بیل بیچنے والا بھی ایک پاکستانی ہی ہو گا ،۔
جب بیس لاکھ اس مہر یا آرائیں کے گھر پنچے کا تو َ
ہو سکتا ہے اس نے بیٹی کی شادی کرنی ہو  ؟
مہر کی بیٹی بھی پاکستانی ہے اور اس کی شادی پر ہونے والے خرچے ، کپڑوں کی خرید داری ، زیور بنوانے ، کھانا پکوانا ، یہ سب خرچے جو ہو رہے ہیں وہ سب خرچے کسی نہ کسی کی کمائی کا باعث بن رہے ہیں  ؟
اور میری نظر میں یہ ساری کمائی کرنے والے میرے اپنے لوگ ہیں پاکستانی  !،۔
اے اے عقل رکھنے والو !۔
یہ ایک طریقہ کار ہے،  اکنامک کا، دولت کو معاشرے میں بانٹنے کا ،۔
لیکن  پسماندہ ممالک میں دولت بانٹنے کے اس طرقہ کار کو سب سے بڑی روکاٹ لگاتی ہیں ان ممالک کی فوجیں ،۔
اگر فوج کی وردیاں ، فوج کے بوٹ ، فوج کا دلیہ ، فوج کی بالٹیاں ، بیلچے  بیلٹس اور دیگر سامان ، ٹھیکے پر سول سوسائیٹی سے بنوایا جائے ، جیسا کہ امریکہ فرانس  جرمنی برطانیہ وغیرہ کرتے ہیں تو  ؟
اوپر دی گئی ایوان صدر کے پنجرے کی مثال کی طرح دولت  معاشرے میں بکھر کر اپنے ثمرات بانٹتی ہے ،۔
لیکن پس ماندہ ممالک کی افواج یہ سارے ٹھیکے  اپنے ہی جنریلوں کو دے کر ڈیفینس کے علاقوں میں فیکٹریاں اور گودام بنا کر دولت کو ڈفینس تک محدود کر دیتے ہیں جس سے ڈیفینس کی زندگی اور سول معاشرے کی زندگیوں میں طبقاتی فرق در آتا ہے ،۔
جاپان میں کاروباری لوگ ٹیکس بچانے کے لئے ایک ٹیکٹ استعمال کر تے ہیں ،۔
دو سو ملین کی انکم پر چالیس فیصد (اندازاً ) انکم ٹیکس دینا پڑتا ہے ،۔
لیکن 
ایک سو ملین کی انکم پر دس فیصد(اندازاً ) ٹیکس ہوتا ہے ،۔
کاروباری لوگ جب دیکھتے ہیں کہ اس سال انکم دوسو ملین سے تجاوز کر رہی ہے تو ؟
جاپانی   لوگ ٹیکٹ استعمال کرتے ہیں کہ
نئی مشینیں خرید کر ، اور اپنے ورکروں کو بونس کے نام پر  نقد رقم دے پر ایک ڈیڑھ سو ملین خرچ کر کے دیکھا دیتے ہیں ،۔
جس سے انکم ٹیکس صرف دس فیصد رہ جاتا ہے ،۔
جاپان کی حکومت کی نظر میں ان کا یہ ٹیکٹ کوئی جرم نہیں ہے 
کیونکہ بونس کی مد میں دی گئی رقم جاپانی شہریوں کی انکم بنے گی اور نئی مشنری خریدی گئی رقم جاپان کی صنعت  کی کمائی بنے گی ،۔
بونس میں ملنے والی رقم ایوان صدر کے پنجرے والی مثال کی طرح ،  قوم کے پاس بکھر کر ایک کا خرچا دوسرے کی کمائی بنے گی ،۔
تحریر خاور کھوکھر

منگل، 21 مئی، 2019

پاء منّو


آج مجھے  اسّی کی دہائی کا گوجرانوالہ کا ایک کردار یاد آ گیا ،۔
کیا دلچسپ انسان تھا  ،۔
پاء منّو !،۔
اصلی نام مجھے یاد نہیں ، اس کی بسیں چلتی تھی  گجرات سے لاہور ،۔
گوجرانوالہ کے لاری اڈے پر سارا دن سفید کپڑے پہنے مختلف مکینکوں کے پاس پھرتا رہتا تھا ،۔
پہس مکھ ، یار باش  اور حاضر جواب ،۔
 پا منّو نے گوجرانوالہ کے ریجنٹ سیمنا میں منور ظریف کی فلم چکر باز لگا لی ،۔
سارے لاری اڈے پر مشہور ہو گیا کہ پاء منّو نے فلم لگائی ہے اور اج کل پاء منو سیمنا میں ہی ہوتا ہے ،۔
گوجرانوالہ کے لاری اڈے  کے مکینکوں کے سارے شاگرد لوگ  پاء منو کے پاس فلم دیکھنے کے لئے گئے ، کئی تو کئی کئی دفعہ گئے ،۔
ہر دفعہ مفت فلم اور  کھانا کھا کر واپس آتے تھے ،۔
مجھے خود تو جانے کا اتفاق نہیں ہوا ۔
لیکن آس پاس کے سارے منڈے پا منو سے کھانا کھا کر آئے تھے ،۔
تین ہفتے بعد جب فلم اتری تو پاء منو  پھر لاری اڈے پر نظر آیا ،۔
مجھے پوچھتا ہے ،۔
اوئے توں نئیں آیا فلم ویکھن ؟
تو میں نے اس سے پوچھا 
پاء منو فلم لگانے پر کمائی تو بہت ہوتی ہو گی ؟
کتنے پیسے کمائے ہیں تین ہفتے میں ؟
پاء منو نے  بڑے فخر سے بتایا : پچہتر روپے (تقریباً دس امریکی ڈالر)!،۔
میں نے بڑی حیرانی سے پوچھا صرف پچہتر روپے ؟ کیا یہ بہت کم نہیں ہیں ؟
پاء منو نے تاریخی جواب دیا ، ان الفاظ کی بازکشت اج بھی میرے ذہن میں  گھونجتی ہے ،۔
لے ، سارے شہر دے یار خوش کر کے فیر وی کجھ پیسے بچ گئے نے ، تینوں اے تھوڑے لغدے نے پئے !!،۔
یعنی سارے شہر کے دوستوں کو خوشیاں دے کر پیسے بھی بچ گئے ہیں یہ تھوڑی بات ہے م۔
اس سوچ کے اس بندے سے وابستہ کچھ اور یادیں بھی ہیں کہ
لاری اڈے پر برقعہ پہنے بچہ اٹھائے بھیک مانگنے والی جب آتی تھیں تو سب کو بھائی کہہ کر پکارتی تھیں ،۔
تاش کھیلتے ہوئے  پاء منو کو جب ایک بی بی نے بھائی کہہ کر مخاطب کر بھیک کا سوال کیا تو پاء منو بدک گیا 
اور اس بی بی کو کہتا ہے ،۔
بیٹھ جا پہن میری ، اور بتا کہاں ہے میرا بہنوئی  پئین چ۰۰ !، کیا کرتا ہے وہ کتی کا ب۰ ۰، جس نے میری بہن کو بھیک مانگنے کے لئے چھوڑ رکھا ہے،۔
ابھی بتا یا پھر مجھے ساتھ لے کر چل کہیں اس کو نوکری دیتا ہوں ، اگر معذور ہے تو اس کا علاج کرواتا ہوں ۔
مجھے اس عورت کا جان چھڑا کر بھاگنا اب تک یاد ہے ،۔
اُس زمانے میں سفید پوش بھکاری ہوتے تھے جو ٹولے میں ہوتے تھے ایک عورت ایک بزرگ اور ایک جوان کے ساتھ ایک بچہ !،۔
ان کا کہنا ہوتا تھا کہ فیصل آباد سے آئے ہیں 
یہان گوجرانوالہ میں جیب کٹ گئی ہے ،۔
واپسی کا کرایہ نہیں ہے ،۔
مستعار پیسوں کے نام پر بھیک نما کام کرتے تھے ،۔
ان لوگون کا کہنا ہوتا تھا کہ اپ ہمیں مستعار پیسے دیں ہم گھر پہنچ کر آپ کے پیسے اپ کو منی آڈر کر دیں گے ،۔
ایک دن  پاء منو اس خاندان کو ٹانگے پر بٹھا کر لاری اڈے لے آیا 
اور فیصل آباد جانے والی  بس کے پاس جا کر کنڈکٹر اور ڈائیور سے پوچھتا ہے کیا تم مجھے جانتے ہو ؟
ڈائیور اور کلینڈر نے بیک زبان کہا  ، ہاں پاء منو  کیوں نہیں !،۔
تو پھر یہ میرے عزیز ہیں ان کو فیصل آباد تک لے کر جانا ہے ،۔
اور خبردار اگر ان سے کرایہ لیا یا کہ ان کو فیصل آباد سے پہلے کہیں اترنے دیا ،۔
اب پتہ نہیں کہ اس خاندان پر کیا بیتی لیکن پاء منو نے ان کو فیصل آباد روانہ کر دیا تھا ،۔
اور مجھے یقین ہے کہ وہ لوگ یہیں کہیں گوجرانوالہ کے نوحی گاؤں کے تھے 
اور بس کے عملے نے بڑی ذمہ داری سے ان کو فیصل آباد پہنچا دیا ہو گا ،۔
اب واپسی کا کرایہ فصل آبادیوں سے مانگیں گے ،۔

پاء منو کا ایک بہنوئی بھی تھا حاجی بشیر ،۔
یہ بندہ بھی اپنی  جگہ ایک کریکٹر تھا ،۔
اس پر پھر کبھی لکھوں گا ،۔
بس اتنا سمجھ لیں کہ حاجی بشیر پاء منو کے بچوں کا پھپھڑ تھا ،۔

منگل، 30 اپریل، 2019

بزدل لوگ



وہ بندہ جو فوراً کسی کی بھی مدد کرنے کو تیار ہو جائے ، ہر کسی کی مدد کرئے  یا کہ خود سے لوگوں کو تعاون کی  مدد کی پیشکش کرئے !!،۔
ایسے بندے کے متعلق سائیکی کے ماہرین بتاتے ہیں کہ
ایسا بندہ بزدل ہوتا ہے !!،۔
اس کے ذہن میں یہ خوف ہوتا ہے کہ اگر میں کہیں کمزور پڑ گیا تو ؟ لوگ میری بھی مدد کریں گے !،۔
سائیکی کے ماہرین کا یہ تجزیہ سن کر جب میں نے اپنے اندر جھانکا ، تو ؟
مجھے بڑی شدّت سے احسا ہوا کہ
ہاں میں ایک بزدل ہوں !!،۔
مجھے اپنے بزدل ہونے کا علم بڑی دیر بعد ہوا  تھا ، ورنہ  میرے اردگرد کے لوگ تو بہت پہلے سے جانتے تھے ،۔

اب یہاں مزے کی بات یہ کہ 
ایسے بزدل لوگوں کے ساتھ زندگی ایک بڑا دلچسپ مذاق کر جاتی ہے ،۔
وہ مذاق کیا ہے ؟
اس کا تب لکھوں گا جب لوگ تقاضا کریں گے ،۔
کومنٹ کریں ، اگر اپ جاننا چاہتے ہیں ،۔

خاور کھوکھر


گزشتہ سے پیوستہ 

سائیکی کے ماہرین کے مطابق جو بزدل بندہ فوراً دوسروں کی مدد کرتا ہے ،۔
اس کے ساتھ زندگی ایک دلچسپ مذاق کرتی ہے ،۔
ہوتا یہ ہے کہ اپنی کمزروی کے احساس سے بندہ دوسروں کی مدد کرتا ہے ، زندگی کی تگ ودو میں پورا زور لگا لگا کر کوشش کرتا رہتا ہے ،۔
تو مذاق یہ ہو جاتا ہے 
کہ
اس بندے کو کبھی دوسروں کی مدد کی ضرورت ہی پڑتی ،۔

اپ نے شائد دیکھا ہو کہ  جب چڑیا اپنے بچوں کے لئے  چوگا لے کر آتی ہے تو ؟
وہ سب سے  پہلے چوگا اس بچے کے منہ میں ڈالتی ہے جس نے زیادہ منہ کھولا ہو ۔
جس کے منہ کے والی پیلی لکیر گہری ہو ،۔
کوئے جیسے چالاک جانور کے ساتھ بھی کوئل  ہینڈ کر جاتی ہے کہ اپنے انڈے اس کے گھونسلے میں دے جاتی ہے ،۔
کوئل کے بچوں کے منہ پر  باچھوں کی پیلی لکیر ، جو کہ ہر پرندے کے بچوں کے منہ پر ہوتی ہے ،۔
اس کا رنگ کوئے کے بچوں  کی نسبت گہرا ہوتا ہے ،۔
کوئل کے بچے کا منہ کوئے کی اپنے بچوں کے منہ سے بڑا نظر آتا ہے 
اور کوّی بی بی کوئل کے بچوں کو زیادہ چوگا  دیتی ہے ،۔
اور کوئے کو رب نے لمبی عمر اور اولاد میں وسعت دی ہے ،۔ کوئل کے مقابلے میں!،۔

بڑا سا منہ کھولے مدد کے طلب گار یا کہ ہاتھ پھلائے مانگنے والے  جس بندے کے پاس جتنے زیادہ آتے ہیں ،۔
وہ بندہ اتنی ہی زیادہ تگ و دو کر کے زیادہ کماتا ہے زیادہ اوزار ، استعمال کی چیزیں بناتا ہے 
کہ 
پتہ نئیں کب کون آئے اور کون سی چیز مستعار مانگ لے !،۔
اخری عمر میں جا کر جب ایسا بندہ پلٹ کر دیکھتا ہے ، تو  ؟
اس کا ہاسا نکل جاتا ہے کہ 
یہ زندگی کیا مذاق کر گئی ،۔
مال کے ، دولت کے ڈھیر لگے ہیں ،۔
رزق کی فراوانی ہے ، مشقت کر کرکے صحت بھی ٹحیک ٹھاک ہے ،۔
اور مدد مانگتے  کمزور لوگ   کچھ مر کھپ گئے کچھ اب  بھی سسکٹی سانسیں جی رہے ہیں م،۔
اور  زندگی کے دلچسپ مذاق سے لطف لینے والے ایسے  لوگ ایک اور بیاھ کھڑکا کر  زندگی کے اور بھی مزے لیتے ہیں ،۔
میں اپنے گاؤں میں چار گھروں  کی تاریخ کا شاہد ہوں ،۔
دو گھورں کے پانچ پانچ بیٹے  تھے اور ایک گھر کے ساتھ بیٹے ،۔
چوتھا گھر 
کہ
جس کے بڑے بیٹے پر پانچ بہنوں کا بوجھ تھا ، اور چھوٹے بھائیوں کا بھی ،۔
مندرجہ بالا تین گھروں کے ٹوٹل پندرہ  مردوں کی ٹوٹل کمائی  اور بنائے ہوئے  مکانات زمییں  اور اثر رسوخ ، پانچ بہنوں کے  بھائی  کی کمائی کا تین فیصد بھی نہیں بنتا ہے ،۔
ہاں جی !۔
یہ بات ہے بڑی باریک  اور سمجھ رکھنے والی 
کہ 
برکت اور خدا کے فضل کو انجوائے کرتے ہیں وہ لوگ ، جو دوسروں کی مدد کرتے ہیں ،۔
ہاں کچھ ایسے کم قسمت لوگ بھی ہوتے ہیں ، جن پر ان کے اپنے ، آکاس بیل کی طرح چڑھ کر ان کی ساری توانائیاں چوس کر رکھ دیتے ہیں ،۔
لیکن 
فرق ہے انسان اور درخت کا کہ 
آکاس بیلوں جیسے لوگوں کے نچوڑے ہوئے انسان بوڑھے وقت میں بڑے چمک دار چہرے اور مسکراہٹ سے سرفراز ہوتے ہیں ،۔
حاصل مطالعہ 
کہ جس کنوئیں سے لوگ پانی نکالتے رہیں وہ خشک نہیں ہوتے اور جو انسان برتے جاتے ہیں استعمال ہو جاتے ہیں ،
 انکو رب سائیں  کچھ اور ہی لذتوں سے سرفراز کرتا ہے ،۔
bz

پیر، 29 اپریل، 2019

ہے سے ، آریگاتو


شکریہ ہے سے ،۔ 
ہے سے آریگاتو گوزائماشتا!،۔
平成、ありがとうございました。
مہربانی ہے سے !،۔
جاپان کا ایک دور مکمل ہوا ،۔ اس دور کی مہربانیاں ہیں جن کا شکریہ ادا کرنا بنتا ہے ،۔
پرانے زمانے میں پاکستان میں  ایک بندہ تھا جس کا نام تھا  عالم چنا ،۔
لمبے قد کے اس انسان کو اس وقت دنیا کا طویل ترین  انسان مانا جاتا تھا ،۔
عالم چنا جاپان آیا تھا اور اس کی ملاقات اس دور کے جاپانی شہنشاھ  ہیرو ہیٹو صاحؓ سے ہوئی تھی ،۔
میں خود ہیرو ہیٹو صاحب کو ایک طرح سے ہیرو سمجھتا ہوں ا، اس ملاقات سے بہت ایکسائیٹڈ ہوا تھا کہ
کاش میں بھی ہیرو ہیٹو صاحب سے مل سکوں ،۔
شائد اسی بات  نے مجھے جاپان آنے پر بھی اکسایا تھا ،۔
کچھ اپنے گھر کی غریبی تھی  ، جو دور کرنی تھی ،۔
اس لئے بھی پاکستان سے باہر جانا  ہی میرا مقدر تھا ،۔
میں ہیرو ہیٹو صاحب کی زندگی میں ہی جاہان میں داخل ہو چکا تھا ، اور بغیر ویزے کے جاپان میں کام پر لگ چکا تھا ،۔
میں سن اٹھاسی کے ستمبر میں جاپان میں داخل ہوا 
اور اگلے سال کی جنوری میں ہیرو ہیٹو صاحب انتقال کر گئے ،۔
یعنی چند ہی ماھ بعد  جاپان ہے سے کے دور یعنی شہنشاھ اکی ہیٹو کے دور میں داخل ہو گیا ،۔
انسان ایک تو اپنی جنم بھامی سے جڑی یادوں سے ساری زندگی جان نہیں چھڑا سکتا  اور دوسرا اس پر وہ ماحول بہت اثر انداز ہوتا ہے جب وہ پہلی بار اپنی جنم بھومی سے باہر دور دیس کو نکلتا ہے ،۔
بس یہی کچھ میرے ساتھ ہوا کہ
اپنی عمر کی دوسری دہائی کے شروع میں جاپان میں بس چکا تھا ،۔
اس دور کے جاپان میں دولت کی ریل پیل تھی ،۔
میں اپنے ابا جی کی قرض اتارے ،۔
اپنے گھر کے لئے کمائی کر کرے پاکستان بھیجی ،۔
اسی ہے سے کے دور میں جاپان سے ڈی پورٹ ہوا تو  رب نے اس طرح کا کام بنا دیا کہ میں دنیا کی سیاحت کے لئے نکل پڑا ،۔
دنیا بھر میں جہاں جہاں بھی گیا ، جاپانیون سے تعلق رہا ، جاپان سے تعلق رہا  اور پھر دوہزار سات میں جاپان آ گیا ،۔
اسی ہے سے  کے دور میں جاپان آ کر دوبارہ سے اپنی زندگی شروع کی ،۔
ہے سے کے دور جوانی اور جونی سے بھر پور جوانی اور پھر اب ادھیڑ عمری کے تھکن بھرے مزے چکھ رہا ہوں ،۔
انسان ہمیشہ اپنے دکھوں کا ہی رونا روتا ہے ،۔
دکھ بھی ملے ، بلکہ بہت دکھ ملے 
لیکن سُکھ بھی ملے اور ڈھیر سارے سُکھ ملے ،۔
پاکستان کا وہ گھر ، جس کو بنانے کے لئے جس کی ترقی کے لئے ، جس کی غربت دور کرنے کے لئے نکلے تھے ،۔
اس گھر میں اب جا کر بسنا ناممکن ہو چکا ہے ،۔
ہم زمانے میں کچھ ایسے بھٹکے 
اب تو ان کی بھی گلی یاد نہیں 
ہے سے آریگاتو !،۔
کہنا اس لئے بھی بنتا ہے کہ
اس دور کے اخری سالوں میں ہی سہی ،۔
جب مجھے اس بات کا احساس ہو گیا کہ میں پاکستان والے گھر کی غربت ختم کر ہی نہیں سکتا 
تو کیوں نہ یہیں جاپان میں کچھ بنا لوں تو؟
ہے سے کے دور میں میں نے جاپان میں اپنا نیا گھر تعمیر کر لیا ،۔
تین یارڈ بنا لئے 
جن میں سے دو گمناں کین میں اور ایک  توچیگی کین میں سانو فُجی اوکا والے ہائی وے کے پاس ہے ،۔
ایک گھر سائتاما کین میں تعمیر کیا تو دوسرا گھر بنا بنایا گنماں کین بھی بھی خرید لیا ،۔
کائی تائی  یعنی گاڑیاں کاٹے کے پرمیشن کے ساتھ ایک یارڈ پر میں کام کر رہا ہوں اور دوسرا تیاری کے اخری مراحل میں ہے ،۔
جو کہ انے والے دور رے وا میں مکمل ہو گا ،۔
اس لئے میں کہہ سکتا ہوں ،۔
ہے سے آریگاتو 
اور ، رے وا   اونے گایشیماس !!،۔
令和大願いします。

جمعہ، 26 اپریل، 2019

لبنانی نژاد فرانسیسی کارلوس گوسن ،۔



ایک دن ایک ٹی وی اینکر اس ریسٹورینٹ میں چلا گیا گیا جہان گوسن اکثر کھانا کھانے کے لئے چلا جایا کرتا تھا ،۔
سوال تھا 
کہ
اخر اتنی ذیادہ دولت  کا شوقین  بندہ کھاتا کیا ہے ؟
ریسٹورینٹ والے نے بتایا 
کہ
گوسن اکثر اپنی بیوی کے ساتھ  آتا تھا ، کبھی کبھی اس کی اولاد میں سے بھی کوئی اس کے ساتھ ہوا کرتا تھا ،۔
اینکر پوچھتا ہے کہ کھاتا کیا تھا ؟
ریسٹورینٹ والا ، سی فوڈ کی ایک دو ڈش کے نام بتاتا ہے 
اور کہتا ہے کہ
ہمارے ریسٹورنٹ کا سلاد ،گوسن صاحب کو بہت پسند تھا  ،۔
گوسن صاحب سلاد ضرور منگواتے تھے ،۔
اینکر پوچھتا ہے 
فی کس کھانے کا بل کتنا بن جاتا تھا ،۔
ریسٹورینٹ والا بتایا ہے کہ
آٹھ سو ین سے  تیرہ سو ین تک کا بل بنا کرتا ہے ،۔
یعنی کہ پاکستانی روپے میں ایک وقت کا کھانا ،اپنی پسند کے ریسٹورنٹ میں جا کر کھانے کا بل آٹھ سو روپے سے تیرہ سو روپے !!،۔
یہ ہے بندے کی اوقات ، جو وہ کھا کر  زندہ رہتا ہے ،۔

گوسن !۔
کیا آپ گوسن کو جانتے ہیں  ؟
ایک بہت ہی امیر لبنانی  جو کہ کل جاپانی عدالت سے ضمانت پر رہا ہوا ہے ،۔
اس کی تنخواہ کروڑوں میں تھی ،اس کو نسان کی چئیرمین بنایا گیا ،۔
فرانسیسی کار میکر کمپنی رینالٹ کا بھی چئیرمین تھا،۔

لیکن اس نے پیسے کی کرپشن کی  اربوں کے گھپلے کئے ، بیوی کے نام پر کمپنیان بنائیں ، بیٹوں ، دامادوں  اور کئی رشتہ داروں کے نام پر پیسے کی ہیرا پھری کی  ،۔
پکڑا گیا ، ضمانت ہوئی ، پھر پکڑا گیا ، دوبارہ ضمانت ہوئی ہے ،۔
جاپانی سسٹم اس کو عدالت میں لے کر جائے گا اور قرار واقعی سزا بھی ملے گی ،۔
باقی کا تو مجھے پتہ نہیں 
لیکن جاپانی عزت دار لوگ ہیں ، اس لئے کسی مجرم کو سخت شرمندہ کرنا بھی ایک سزا ہی سمجھتے ہیں ،۔

کسی گیت میں سنا ہوا ایک شعر ذہن میں اٹک گیا ۔
کھانے پینے کے لئے ، کتنا پیسہ چاہئے آخر جینے کے لئے ؟؟؟
خاور کھوکھر

بدھ، 24 اپریل، 2019

پُراسرار بدھو


بچپن میں ایک کہانی پڑہی تھی کہ 
کسی گاؤں میں ایک لڑکا تھا جس کا اصلی نام سارے بھول چکے تھے اور اس کو بدھو کے نام سے پکارا کرتے تھے ،۔
ایک دن اس نے سوچا کہ اگر میں اپنا گاؤں چھوڑ کر چلا جاؤں تو ۔ شائد دوسرے گاؤں کے لوگ مجھے میرے اصلی نام عمران سے پکارنے لگیں گے 
اور اجنبی گاأں میں کسی کو کون بتانے والا ہو گا کہ ، عمران کو لوگ بدھو کہہ کر بلایا کرتے تھے ،۔
دور دراز کے کسی گاؤں میں جا کر اس نے ایک گھر میں ملازمت کر لیں ،۔
گھر کی مالکن نے اس کو بچہ کھلانے کے لئے دیا تو ؟
عمران بچے کو لے کر ایک درخت کے نیچے لیٹا کر سوچنے لگا کہ یہاں سے کمائی کر کے کیسے اپنے گاؤں والوں کو کچھ بن کر دیکھا دے گا 
کہ
بچے کے رونے اور چیخنے کی آوازیں سن کر اس کی ماں دوڑی ہوئی آتی ہے تو بچے کے جسم پر چینٹیوں کا لشکر چڑھا ہوتا ہے ،۔
بچے کی ماں عمران کو سخت سست کہہ کر اس کو بتاتی ہے کہ بچے کو اپنی کمر پر ڈال کر رکھو ، بلکہ ایک پٹکے کو اپنی کمر سے باندھ لو جس سے بچہ تمہاری کمر پر اٹکا رہے ،۔
اور جا کر کنوئیں سے پانی بھر کر لاؤ !،۔
عمران کنوئیں سے پانی بھر نے کے لئے جاتا ہے ،۔ 
ڈول کو کنوئیں میں پھینک کر ڈول کو کھینچنے والی چرخی کو گما گما کر ڈول کو اوپر کھینچتا ہے ،۔
بچہ اس کی پشت پر ہوتا ہے ،۔
جب ڈول اس بلندی پر پہنچتا ہے کہ اس کو کھینچ کر کنوئیں کی رینج سے نکال کر پانی کو مٹکے میں ڈالا جا سکے
تو 
عمران چرخی چھوڑ کر ڈول کی طرف لپکتا ہے ،۔
ڈول کوئیں میں گرتا ہے ، گروم کی آواز آتی ہے ،۔
عمران لپک کر کنوئیں میں جھانکتا ہے 
کہ
پشت پر رکھا انسانی بچہ کنوئیں میں گر جاتا ہے ،۔
پاس کام کرتے دیہاتی مدد کو پہنچتے ہیں اور بچے کو باہر نکالتے ہیں ،۔
بچے کی ماں بھی وہیں پہنچ جاتی ہے بدحواس ماں !!،۔
عمران کا منہ دیکھ کر کہتے ہے ۔
تم تو بدھو ہو ، بلکل بدھو !!م،۔
عمران بدک کر اس عورت کا منہ دیکھتا ہے 
اور غصے سے چیخ چیخ کر کہتا ہے ،۔
یہ ضرور کسی شریک کام ہے جس نے تمہیں میرا چڑ والا نام بتایا ہے ،۔
ضرور تم میرے گاؤں کے کسی بندے سے تعلق رکھتی ہو ، جس نے تمہیں میرا نام بدھو بتایا ہے ،۔
عورت اپنی پریشانی میں ہوتی ہے ،۔اس کو کام سے نکال دیتی ہے ،۔
لیکن یہ راز کبھی بھی نہیں بتاتی کہ اس کو عمران کا نام بدھو کس نے بتایا تھا ،۔
کیا اپ اس کہانی سے واقف ہیں ؟
کیا اپ جانتے ہیں کہ اس عورت کو کس نے بتایا تھا کہ اس لڑکے کا نام بدھو ہے ؟

منگل، 23 اپریل، 2019

جاپان کے روشنی کے منارے




اس تصویر میں پھولوں کے ساتھ دو ٹانگوں پر کھڑی محراب کو جاپانی میں " تورو " کہتے ہیں ،۔
دوٹانگوں پر سر انسانی سر کی طرح رکھا ہوا مینارہ  جن میں کھڑکیاں بنی ہوئی ہیں اس کو  " ہی بوکورو " یعنی کہ آتش دان کہتے ہیں ،۔
جاپان میں اپ کو اس طرح کے تورو کئی جگہ رکھے ہوئے مل جائیں گے ،۔
لیکن اپ اس بات کو عام سا نہ لیں 
کہ
ہر تورو اپنی اپنی جگہ ایک تاریخ رکھتا ہے ،۔
ہر تورو کے جب قریب جائیں تو اس کے نیچے پتھر کو کرید کر لکھا ہوتا ہے کہ یہ تورو کس نے بنایا ، اور کس نے کس کو گفٹ کیا ، یعنی کہ پتھر پر لکیر تحریر ہوتی ہے ،۔

ہر ہر تورو اپنی اپنی ساخت میں یونیک چیز ہوتا ہے ،۔
پرانے زمانے میں ہزاروں سال پہلے جب ابھی لوہے کے اوزار کم استعمال ہوتے تھے اس وقت پتھر کو پتھر سے توڑ کر گھڑ کر تورو بنائے جاتے تھے ،۔.
پھر لوہے کی چھینیوں سے گھڑے جانے لگے ،۔
پرانے زمانے میں جب یہ تورو سورماؤں یعنی بشی سامرائے لوگوں کی طرف سے شاہی خاندان کے لوگوں کو تحفتہ دئے جاتے تھے ،۔
سامروائے لوگ ایک دوسرے کو تحفہ دیتے تھے ،۔
ان تحائف کے پیچھے اس بات کا اظہار پنہاں ہوتا تھا کہ 
ہمارے علاقے کے کاریگر لوگ کتنے ہنر مند اور نفیس ہیں یا کہ کتنی مہارت رکھتے ہیں ،۔
اور سامرائے جاگیر دار یہ تورو اپنی جاگیر میں رکھتے تھے ، جن میں اوپر آتش دان میں رات کو آگ جلائی جاتی تھی تاکہ اندہیرے میں چلتے ہوئے راہوں کا تعین کیا جا سکے ،۔
اپ اس کی مثال سمندر کے کناروں پر لگے ہوئے روشنی کی میناروں جیسی سمجھ لیں ،۔
یہ یہ تورو زمین پر جاگیر میں یا کہ آبادیوں کے درران میں روشنی کے میناروں کی طرح ہوا کرتے تھے ،۔
اس تصویر میں نظر آنے والا تورو ، ٹوکیو میں پاکستان کی ایمبیسی کے قریب والے قریب والے پارک میں رکھا ہوا ہے ،۔
میں نزدیک جا کر اس کی تاریخ وغیرہ کا مطالعہ نہیں کر سکتا ،۔
لیکن جیسے ہی میں نے یہ تصویر  فیس بک پر اپ لوڈ کی تو میرے ایک جاپانی محسن کا فون آیا کہ 
یہ تورو کہاں رکھا ہوا ہے ؟
اس قسم کے ایک تورو سے میں بھی واقف ہوں جو کہ یوکوما کے علاقے میں رکھا ہوا ہے 
اور مجھے علم نہیں تھا کہ اس ساخت کا کوئی دوسرا بھی ہو گا ،۔
اس جاپانی دوست کے فون کی وجہ سے تورو کے متعلق  یہ پوسٹ لکھنے کا خیال ہوا کہ
جاپان متعلق آگاہی کی ایک پوسٹ تورو پر بھی ہونی چاہئے ،۔

Popular Posts