المسیار
اسلام میں داشته رکھنے کی چھٹی مل گئی ہے
نہیں اعتبار تو جی یه پڑھ لیں که کیا لکھا ہے
مادری زبان پنجابی قومی زبان اردو ، قومی ترانه فارسی ، آئین انگریزی ، مذھب عربی ـ هر چیز ایمپورٹڈ
اور اب المسیار کے نام پر داشته رکھ سکتے هیں اور خرچے کی بھی ذمه داری نهیں هے ـ
پیسے والوں کے تو مزے هو گئے جی
رند کے رند رهے ھاتھ سے جنت ناں گئی
5 تبصرے:
آپ لگتا ہے غلط سمجھے ہیں کیونکہ یہ بھی شادی ہی ہے اور بہت سے مسلم سکالرز نے اسے جائز قرار دیا ہے۔ اس میں کچھ شرائط ہوتی ہیں جیسے بیوی کو الگ گھر میں رکھنا اور اس کے نان نفقے کی ذمہ داری نہ لینا۔ لیکن نکاح ضروری ہے اور وہ بھی عام نکاح کی طرح یعنی سب کے سامنے۔
یہ وہی ملک ہے جہاں عورتوں کو ڈرائیونگ کی اجازت نہیں ہے۔ جب خواتین حج پر جاتی ہیں تو وہاں ہرو قت شرطے انکے سر کے دوپٹے چیک کرتے رہتے ہیں۔یہیں کے شیخ ہندوستان جا کر عیاشی کے لئے نکاح کیا کرتے تھے۔ ایک زمانے میں وہاں خاص طور پر حیدر آباد دکن میں اس چیز کا بڑا سلسلہ چلا ہوا تھا۔ اس موضوع پر فلمیں بھی بنیں۔ یہ نکاح بھی صرف اس مدت کے لئے ہوتا تھا۔ جب تک وہ اس ملک میں رہتے تھے۔ اسکے نتیجے میں مہر کی رقم مل جاتی۔ اس طرح سے عصمت فروشی کو قانونی پشت پنایہ حاصل ہو گئ۔ اسکے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد کے کوئ قانونی حق نہ تھے۔
سوال یہ ہے کہ محض کاغذ پر دستخط کرنا کیا نکاح کے لوازمات پورے کرنے کے برابر ہے۔ پھر گرل فرینڈ یا بوائے فرینڈ کلچر اور اس کلچر میں فرق صرف دستخطوں کا ہوا۔
جواب یہ ہے کہ نکاح صرف کاغذ پہ کئے گئے دستخطوں کا نام نہیں ہے۔ اسکے نتیجے میں ہم ایک انسٹی ٹیوٹ کی بنیاد رکھتے ہیں۔ جہاں ہمارے بچوں کو تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ اگر ایک معاہدہ ان ساری چیزوں کو پورا کرنے سے قاصر ہے تو اس میں اور بد کاری میں کیا فرق ہے۔ کوئ بھی شخص سب کے سامنے یہ کہہتا ہے کہ یہ میری گرل فرینڈ یا بوائے فرینڈ ہے۔ حتی کہ ایک خاص مدت تک ساتھ رہنے پر انہیں قانونی حق بھی حاصل ہوجاتے ہیں۔
میرا خیال ہے کہ نکاح کی اصظلاح خاصی مختلف بات ہے۔ اسی لئے خدا نے اس میں برکت رکھی ہے۔
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔
نا سمجھ میں آنے والے بات ہے کہ جن معاملات میں قران کریم بالکل واضح اور سنت رسول پوری طرح عیاں ہے کیوں کر سوال اٹھایا جارہا ہے اور کیوں فتاوی جاری کیے جارہے ہیں۔
یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ اگرمسلمانوں میں رنڈی بازی عام ہوگئی ہے تو کوٹھے جانے والوں لیے شرعی راہ نکالی جائے اور لوگوں کو گناہ سے بچالیا جائے۔ اور مکمل اتفاق اس بات سے کہ رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی والی بات ہے۔
یعنی ماڈرن اسلام ہر جگہ جگہیں پکڑ رہا ہے
خبر تو وہ ۲۰۰۶ کی ہے لیکن اس وقت تک ہمارا ماڈرن اسلام تو تناور درخت بن چکا تھا
کون سی نئی بات ہے مسلمانوں نے ہمیشہ اسلام کے نام پر ہی عورتوں کا استحصال کیا ہے،
ڈفر صاحب آپکی ڈفریاں بھی بغض معاویہ سے باہر نہیں نکل پاتی ہیں یہ جو ماڈرن اسلام سے پہلے والے مومن کرتے رہے ہیں ان کا کریڈٹ بھی اپ کسی کو دیں گے یا نہیں،کم عمر بچیوں کا نکاح بڈھوں کے ساتھ،عورتوں کو حق مہر سے محروم کرنا ،ان کو گھر کی باندی اور پیر کی جوتی بنا کر رکھنا اور انہیں یہودیوں کی طرح ہر برائی کی جڑ سمجھنا ،وٹے سٹے کی شادیاں ،آپسی دشمنیاں نکالنے کے لیئے عورتوں سے شادیاں کرنا اور انہین طلاقین دینا اور طلاق کے بعد پھر دوبارہ گھروں میں ڈال لینا،انہیں حق وراثت سے محروم کرنا ،جائدادیں بچانے کے لیئے بچوں اور بڈھوں یا پہلے سے کئی بار شادی شدہ سے شادیاں کروانا،اور کوئی نہ ملے تو قرآن لے کر اس سے شادی کردینا ،تعلیم کے زیور سے محروم رکھنا،ان کے حقوق غصب کرکے انہیں صرف فرائض کی پٹیاں پڑھانا ،کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں
ایک تبصرہ شائع کریں