اتوار، 30 ستمبر، 2007

خودپرفخر

نکلا ھوں کتنے زعم سے دنیا کے سامنے
پہنے ھوئے یہ چیتھڑے بے ڈھب سلے ھوئے

عرصه آٹھ سال سے امریکه میں مقیم
یاور صاحب نے یه شعر ارسال کیا ہے امریکه سے لکهتے هیں که میں پاکستان میں آپنے آپ کو کافی بلند سمجهتا تها
مگر امریکه آکراپنی بے مائیکی کا احساس هوا تو بے ساخته یه شعر لکها
یاور صاحب کو اپنے چیتھڑے بے ڈهب سلے هوئے لگے
مگر اپنا خیال هے که بس چیتھڑے هی چیتھڑے هیں
سلے ولے کچھ نہیں گانٹهیں لگا لگا کر گزارا کرتے هیں
ڈنگ ٹپاؤ پالیسیاں ، ڈنگ ٹپاؤ حکومت اور ڈنگ ٹپاؤ زندگی
اور اس بات پر بهی رب پر احسان کر رهے هیں
که جی ہم بڑے ترم خان هیں
ہماری سوچ کے پر جل جاتے هیں جہاں سے ترقی یافته اقوام کی سوچ شروع هوتی هے
اگرجمہوریت کو مسائل کا حل بتائیں تو بیچاروں کے سر پر سے گزرجاتی ہے یه بات
اور بعض تو الٹا مذاق اڑانے لگتے هیں ـ
اگر قران کی بات کریں تو
یه پته نہیں کس کس کتاب کے متعلق جذباتی هوجاتے هیں
الله کا حکم سنائیں تو ان کو آپنے پیر ،روحانی پیشوا ،قادری اور پادری یاد آنے لگتے هیں ـ

نه عقل و فہم سے معامله نه عشق مستی سے تعلق
یه اسیر اپنے شکم میں نه یقیں میں هیں نه گماں میں ہیں

پنجاب کے دیہاتی علاقوں میں ٹائم کو ماپنے کا پیمانه بهی عجیب ہے
یه چھ چھ مہینے کا ماپتے هیں
هاڑی اور ساونی
هاڑی یعنی گندم کی فصل
اور ساونی یعنی مونجی کو فصل
لوگ ایک ایک منٹ کے بهی ساٹھ سیکنڈ کہتے هیں اور پنجاب میں آپ کسی سے کسی چیز کا وعده لیں وه کہے گا
ساونی پر یه کام کردوں گا اور اگر ساونی چل رهی ہے تو پهر ہاڑی پر ـ
اسی طرح سال پورا
کرلوکام
تے کر لوباتاں
کسی تکیه یا دارے میں بیٹهے هوئے لوگ سالہاسال سے ایک هی جکه بیٹهے باتیں کیے جارهے هیں
پاشا کهیلا جارهاہے
اور کہیں تاش
سردیوں میں سردی سردی اور گرمیوں گرمی گرمی
کہتے کہتے بیکار میں سال پارـ
اگر کوئی پوچهے که کاروبار کیا ہے؟
تو فرماتے هیں منڈا(لڑکا) باہر هوتا ہےـ
ہم دنیا کی نیچ ترین قوم هیں اخلاقی طور پر بهی ، سماجی طور پر بهی تکنیکی طور پر بهی
اور تاریخی طور پر بهی
اور فخر ہم اتنا کرتے هیں جیسے ہمیں ڈهائی پسلیاں زیاده لگی هیں ـ
بلکه پاکستان میں تو کچھ لوگ تواس مغالطے ،میں مبتلا بهی هیں که ان کو ڈهائی پسلیاں زیاده هیں ـ

جے تہاڈا
جی چاہندا اے موت توں پہلاں
ایسا نگر میں ویکھاں
جس دے باسی اک دوجے نال
ذرا نہ نفرت کردے ہون
جس دے حاکم زر دے پچھے
کتّیاں وانگ نہ لڑ دے ہون
جتھے لوکی مرن توں پہلاں
روز روز نہ مردے ہون!

تو آؤ پهر جاپان دیکهو ـ
بقول ہمارےمولویوں کے
کفرستان

2 تبصرے:

Unknown کہا...

Please write me some time at abbasnohsin@gmail.com
we will have interesting chats.

Mohsin Abbas
Editor Online
thespec.com

Yawar Maajed - یاور ماجد کہا...

بہت خوب خاور صاحب۔۔۔۔
مجھے بھی اپنی کم مائیگی کا احساس تو رھتا ہے لیکن میرے خیال میں اپنی ھرچیز کو بے کار سمجھنا بھی میرے نزدیک انصاف کی بات نھیں۔
ایسے ھی جزبے کے تحت ۱۹۹۳ میں ایک نظم کہی تھی۔ پیش خدمت ھے

ھمیں مجرم نہیں کہنا

وہی ہیں فاصلے اور قافلے پھر بھی رواں ہیں
وہی ہیں سلسلے اور دائرے بھی تاکراں ہیں

یہ ہم جو ایک بوسیدہ عمارت کے کھنڈر سے پھول چننے جارہے تھے

ہمارا خواب تھا !
ہم دہر کو خوشبو سے بھرنا چاہتے تھے !
مگر ہم ہڈیوں کی راکھ لے کر آگئے ہیں

یہ ہم خوابوں کے دریاؤں سے اِک جھرنا۔۔۔
بس اِک چھوٹا سا جھرنا چاہتے تھے
جو ہمارے دشت کی بے آب مٹی کو ذرا نم آشنا کر دے
مگر جانے کہاں سے ہم چتا کی آ گ لے آئے

کبھی بھی ہم نے لمبے فاصلوں سے سر خیاں دیکھیں
تو ہم اس سمت کو لپکے
مگر رستوں کے پےچ و خم میں ہی اتنا سمے بیتا
کہ ہم زردی کو چہروں پرلپیٹے لوٹ آئے ۔۔۔۔۔

وہی ہیں سلسلے اور فاصلے اور اس پہ اپنے دِل میں چلنے کی تمنا بھی
مگر عمر ِ معین کی بچی پونجی تو بس چند ایک لمحے ہے

یہ سچ ہے ہم کبھی بھی عشق کے معیار پر پورے نہیں اترے
مگر ایسا نہیں کرنا
ہمیں مجرم نہیں کہنا
کہ ہم کوہ مصائب پار کرنے سے کبھی منکر نہیں ٹھہرے

خدایا
ہم کو اب تیری گواہی کی ضرورت ہے ۔۔۔۔
ہمیں پھر سے تباہی کی ضرورت ہے


جولائی ۱۹۹۳

Popular Posts