جمعرات، 24 مارچ، 2011

نئی (نیوز)اور نئی(نیوز) میکر

لو جی
بڑے بڑے چھاڈو دیکھے ہیں لیکن ان مرزا صاحب یا صاحبہ نے جو چھوڑی ہے ناں جی!!!!۰
میرا تو ہاسا ہی نکل گیا ہے
http://www.jang.com.pk/jang/mar2011-daily/23-03-2011/col5.htm
آپ بھی پڑھو جی
جس کا ہاسا ناں نکلا ناں جی!!۰
اس



کا


تراھ نکلے گا

16 تبصرے:

عثمان کہا...

میرا تو جناب رونے کو دل کررہا ہے۔ حقیقت سے حیرت انگیز نفرت اور ہر چھوٹی بڑی بات کو کسی نہ کسی "عظیم سازش" کے سر مونڈھ دینے کا جو انتہا درجہ کا جاہلانہ رواج مسلمان ممالک بالخصوص پاکستان میں پروان چڑھا ہے اس کے پیش نظر ایسے ہی شاخسانے سامنے آئیں گے جن کی طرف آپ کا اشارہ ہے۔ سائنس تو ان کے لئے خیر "ماورائے عقل" بئو ہے ... عقل کو بطور طعنہ استعمال کرنے والے یہ گنوار اپنے سامنے ہردم پیش آنے والے واقعات اور ان کے حقائق تک کے یکسر منکر ہیں۔ دہشت گردی ہو سیاست ہو ، معیشت ہو .. ہر واقعہ ہر ایشو کو کوئی سازش قرار دے کر امریکہ مغرب ، یہود ہنود اسرائیل کے سر تھوپ کر ہاتھ جھاڑ لیں گے۔ پاکستان کے ایک معاصر اردو روزنامے کے ایڈیٹر عباس اطہر کا یہ حال ہےکہ ابھی تک سپاٹ فکسنگ سکینڈل کو آئی سی سی اور بھارتی میڈیا کی مشترکہ سازش قرار دے رہا ہے۔ ہارپ نامی اس مزاحیہ بونگی کا ایک اور معترف ڈاکٹر عطاالرحمن ہے۔ واضح رہے یہ کوئی عام آدمی نہیں بلکہ پاکستان کا ایک سو کالڈ نامور سائنسدان ہے۔ جہاں سائنسدان اور تجربہ کار صحافیوں کا یہ حال ہو وہاں عام آدمی کو کہاں تک الزام دیا جاسکتا ہے؟ ملک کے موثر اخبارات سے لے کر اس بلاگستان تک آپ کو ایسے اہل ایمان مل جائیں گے جو ان لغویات پر من و عن ایمان لائیں گے۔ ان کے نزدیک گویا کائنات کا اگر ایک پتہ بھی ہلتا ہے تو کسی غیر اللہ کی سازش سے ہی ہلتا ہے۔
جہالت کی اس سے آگے اور کوئی حد نہیں۔ لاحول ولا قوة الا بالله

یاسر خوامخواہ جاپانی کہا...

پاکستانیوں میں تو چند ہی ایسے ہیں۔جنہیں واجب گردن زنی کہا جا سکتا ہے۔
جاپانیوں کی بلاگ اور جاپانی زبان میں ہارپ کے متعلقہ کتابوں کی بھرمار ہے۔
اور اس دفعہ کے زلزلہ کے بارے میں جاپانی ثابت کررہے ہیں کہ یہ ہارپ کا شاخسانہ ہو سکتا ہے۔
لیکن انہیں کوئی جاہل نہیں کہہ رہا یہ بھی ایک نقطہ نظر ہو سکتا ہے۔
اگر یہ آپ کی نظر میں سراسر لغوات ہیں تو انہیں جھوٹا ثابت کریں۔
نہ کہ کاپی پیسٹ کرکے دوسرے کو جاہل ہونے کا فتوی ہمنواوں سے دلوائیں۔
ایک طرف تو آپ سائینس کی ترقی میں اہل جاپان ،امریکہ و یورپ کے گن گناتے ہیں۔
اور جو شے سمجھ نہ آئے اسے بنیاد بنا کر ایک دوسرے رخ سے کوئی اگر سوچے تو اسے جاہل ہونے کا فتوی دے دیں؟
آسان سی بات ہے آپ مختلف مواد جو انٹر نیٹ پر انگلش میں موجود ہے۔اس سے ثابت کرنے کی کوشش کریں کہ ہارپ نامی پتھیار صرف بکواس ہے۔
پاکستانیوں یا مسلمانوں کو رگڑ نے کیلئے کسی بات کو بھی اٹھا لینا کچھ نا انصافی نہیں؟

عثمان کہا...

جدید اسلحہ سے لیس خلائی مخلوق جو کسی عظیم سازش کے تحت انسانوں کو اغوا کررہی ہے اس کے متعلق بھی بہت سے "حقائق" انٹرنیٹ سائٹس پر بھرے پڑے ہیں۔ ہارپ ہو یا خلائی مخلوق اس کے حق میں مختلف چسکے دار سائٹس اور کتب بھی مل جائیں گی۔ اور اس جہالت کو حرف غلط ثابت کرنے کے ماہرین کا لکھا ہوا علمی انبار بھی اپنی جگہ موجود ہے۔
پاکستانیوں اور دوسروں میں فرق یہ ہے کہ پاکستان میں اس قسم کی لغویات پر ایمان رکھنے والے جاہل "دانشور" کہلاتے ہیں .. نامور سائنسدان اور صحافی کہلاتے ہیں۔ جبکہ دوسری قوموں میں ان چیزوں کو دیوانے کی بڑ قرار دے کر مسترد کردیا جاتا ہے۔
ایمان لانا ہے تو خلائی مخلوق پر لے آؤ۔ چاند پر قدم کی امریکی سازش پر لے آؤ۔ زمین کے گول نہ ہونے کی حقیقت پر لے آو۔ ہر قسم کی سائٹس اور کتب ہر قسم کے سامان بیوقوفی کے ساتھ موجود ہیں۔ سائنس چھوڑیے .. جو اپنے ارگرد پیش آنے والے روزمرہ واقعات کو بین الاقوامی سازش کے تحت مونڈھ دیں ان سے کیا گلہ ؟
جو چاہے حماقت آپ کا کرشمہ ساز کرے۔

عثمان کہا...

اردو بلاگستان اور اردو محفل کے ہی ایک جانباز محمد سعد نے ہارپ ہر ایک مضمون لکھا تھا۔ اہل ایمان اس پر نظر ڈال لیں۔ اور بھی بہت کچھ دستیاب ہے اپنی ذہنی حالت کوئی بدلنا چاہے تو۔۔۔
http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?31386-%DA%A9%DB%8C%D8%A7-%DB%81%D8%A7%D8%B1%D9%BE-%28haarp%29-%D9%88%D8%A7%D9%82%D8%B9%DB%8C-%D9%85%D9%88%D8%B3%D9%85-%DA%A9%D9%88-%D8%A8%D8%AF%D9%84-%D8%B3%DA%A9%D8%AA%D8%A7-%DB%81%DB%92%D8%9F&highlight=%DB%81%D8%A7%D8%B1%D9%BE

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین کہا...

پاکستانی بھائیوں اور دیگر کو یہ علم رہے کہ تابکاری سے متاثر غذائی اجناس اور انسانی زندگی کس بری طرح متاثر ہوتی ہے اور اسکے اثرات کتنے جان لیوا اور دیرپا ہوتے ہیں۔ غذا اور کھانے پینے کی اشیاء کے بارے میں صخت احتیاط برتی جائے اور پیکٹ بند وہ خوراک جو جاپان سے باہر سے برآمد کی گئی ہو وہ استعمال کریں ۔ اگر یوں ممکن نہ ہو تو متاثرہ علاقے کی غذائی اجناس کسی صورت ہر گز ہر گز استعمال نہ کریں۔ اور یہ بھی یاد رکھیں کہ حکومتوں کی اپنا مجبوریاں ہوتی ہیں اور لازمی نہیں کہ وہ ہر بات درست بیان کریں۔انیس سو اناسی میں امریکہ کے تھری مایل آئس لینڈ اٹمی ری ایکٹر حادثے میں امریکی صدر کی کمیٹی نے تب یہ رپورٹ دی تھی کہ اس حادثے سے ہونے والی تابکاری سے انسانی جانوں کو نقصان نہیں ہوا ۔ پھر کہا گیا کہ اگر انسانی جانوں کو نقصان ہوا تو بہت کم ہوگا، اور اس "بہت کم" کی کوئی وضاحت یا حد بیان نہیں کی گئی تھی کہ کہاں سے شروع ہو کر کہاں تک ہوگا۔مگر بعد میں ہزاروں لوگ کینسر میں مبتلا ء ہوئے۔ یاد رہے کہ انسانی جسم پہ کتنی مقدار میں تابکاری جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے یا اگلے پانچ دس سال یا اس سے بھی لمبے عرصے میں انسانی جسم میں کون کون سے مہلک قسم کے کینسر اور انکی رسولیاں اور دیگر بیماریاں پیدا ہوسکتی ہیں اس بارے سائنسدان تابکاری کی مقدار کے بارے متفق نہیں۔
لیکن جس شخص کو دیگر مسائل الرجی وغیرہ لاحق ہونگے تابکاری اس پہ عام آدمی کی نسبت بہت زیادہ اثر کرے گی۔ مثال کے طور پہ جیسا کہ سبھی جانتے ہیں کہ ایکس رے بھی تابکاری شعائیں ہیں تو جونارمل بچہ رحم مادر میں ہو یعنی ابھی پیدا نہ ہوا ہو اور اسکی ماں کا ایکس رے کیا جائے تو اس بچے میں دوسرے اس بچے کی نسبت جو نارمل صحتمند ہو مگر جب وہ پیت میں ہو تو اسکی ماں نے ایکسرے نہ کروایا ہو تو ایکسرے کروائی گئی ماں کے پیٹ میں بچے کو آئیندہ لیوکیما ہونے کے خطرات نارمل صحتمند بچے سے پچاس فیصد زیادہ ہوتے ہیں۔جبکہ اگر ماں کے پیٹ میں اکسرے سے گزرنے والا بچہ الرجی کا مریض ہے تو اسے صحتمند بچے کے مقابلے میں پچاس گنا زیادہ لیوکیمیا یعنی کینسر ہونے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ ایک اہم بات جو قابل توجہ ہے کہ کچھ لوگ تابکاری سےقدرے کم متاثر ہوتے ہیں اور کچھ لوگ انکی نسبت بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے ۔ ابھی اس بارے یقننی طور پہ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
جسطرح دائیں ، بائیں، آمنے ، سامنے ، آگے ، پیچھے، اوپر۔ نیچے سے گولیاں برسائی جارہی ہوں ۔ مشین گن کے برسٹ پہ برسٹ لگاتار برسائے جارہے ہوں اور انکی گولیاں انسانی جسم کے آر پار ہورہی ہوں ۔ اسی طرح تابکاری ذرات جسم کے جسیموں (سیلز) کو چھید ڈالتے ہیں ۔ ہر طرف اور ہر سمت کو چھید دالتے ہیں۔یہ تابکاری ذارات بہت مختلف قسم کے ہوتے ہیں ۔ جیسے نیوٹران ، پروٹران۔ الفا وغیرہ ہیں۔ یہ نہایت چھوٹے نطر نہ آنے والا ذرات ہیں۔۔ جو جسم کے جسیموں (سیلز) میں اپنی توانائی خارج کرتے ہیں جس سے جسم کے سیلز سکڑتے سمٹتے ، ٹوٹتے پھوٹتے ، اورمردہ ہوجاتے ہیں۔ کچھ صورتوں میں سیلز کے بننے کا عمل جسم کی مرکزی کمان سے آزاد ہوجاتا ہے اور جسم میں کینسر اور رسولیاں بننا شروع ہوجاتی ہیں۔ یہ ایک بہت پیچیدہ اور لمبا موضوع ہے بس آپ یہ سمجھ لیں کہ تابکاری نہائت خطرناک ہے ۔ اگر نیوٹران، پروٹران کو اگر گولیوں سے مثال دی جاسکتی ہے تو الفا کو توپ کے گولے کہا جاسکتا ہے۔ کسی ایٹمی حادثے کی صورت میں عموما یہ ذرات ایک ہی ساتھ پائے جاتے ہیں ۔ یہ نظر نہیں آتے مگر انتہائی مہلک اور جان لیوا ہوتے ہیں ۔ ان سے کینسر ، لیوکیمیا، عورت اور مرد کے جنسی گلینڈز مثانہ ، رحم وغیرہ اور دماغ میں رسولیاں بچے پیدا کرنے کی صلاحیت۔ یا معذور یا زائد اور کم اعضاء کے بچے یا عجیب الخلقت بچوں کا پیدا ہونا۔ اور اسطرح کی بہت سی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ ہوا، غذا، گوشت، مچھلی، پانی، دودھ، سبزی، ساگ پات، تابکاری کی ذد میں آئی اشیاء کا ستعمال۔ جیسے بجلی کیا اشیاء۔ ایئرکنڈیشنز ، پےکھ ، گاڑیاں، ہوائی جہاز،گاڑیوں یا ہوائی جاسزوں وغیرہ کے قاضل پرزہ جات ، یا انکی ترسیل، ٹرانسپورٹ ، پکینگ وغیرہ کے دوران انکو چھونا۔ یا تابکاری کی اشیاء کے اسٹورز یا گوداموں میں سانس وغیرہ لینا۔ ایک نہائت اہم بات یاد رہے کہ تابکاری سے متاثر ایک انسان سے دوسرے انسان کو تابکاری نہیں ہوتی یعنی یہ متعدی نہیں۔

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین کہا...

گزشتہ سے ہیوستہ
سترہ مارچ دوہزار گیارہ کو ایک سیمنار
سے خطاب کرتے ہوئےعالمی ادرہ برائے صحت(ڈبلیو ۔ایچ۔او۔) کے ایگزیکٹو کمیشن کے نائب صدر ڈاکٹرپاؤلو ایم بُوس Paulo M. Buss کے خطاب کا حوالہ لکھ رہا ہوں جو انہوں نے جاپان کے فوکوشیما نمبر ایک کے نیوکلئیر حادثے کے بعد وہاں سے حاصل کی گئی غذا اور تابکاری پہ کیاہے۔ تانکہ آپ کو علم رہے ۔ کہ یہ ایک ذمہ دار اور ایک ماہر کا حوالہ ہے۔عالمی ادرہ برائے صحت(ڈبلیو ۔ایچ۔او۔) کے ایگزیکٹو کمیشن کے نائب صدر ڈاکٹر پاؤلو ایم بُوس Paulo M. Buss کا کہنا ہے کہ فوکوشیما کا حادثہ نہ صرف انسانوں کو متاثر کرے گا بلکہ اس سے غذائی آفت آسکتی ہے۔ انھوں نے تنبیہ کی کہ فوکوشیما کا واقعہ اس بات کا تقاضہ کرتا ہےکہ ایسی کسی صورتحال کے لئیے پہلے سے تیار کی گئیں تمام حفاظتی تدابیرکا نئے سرے سے جائزہ لیا جانا بہت ضروری ہے۔
انھوں نے اپنی ماہرانہ رائےدیتے ہوئے سفارش کی ان تمام جانوروں کو ہلاک کردیا جانا چاہئیے جن کے بارے شبہ ہو کہ وہ تابکاری سے متاثر ہوئے ہیں۔تمام پودے اور نباتات جو تابکاری جذب کر چکے ہیں اور اس علاقے کی مچھلی وغیرہ بھی اسی زمرے میں آتی ہے۔ تابکاری کی پیمائش کی جائے اور جہاں تک تابکاری صفر ہوجائے وہاں سے اس پورے علاقے کے گرد ایک حصار قائم کر دیا جائے ۔ تانکہ تابکاری زدہ علاقے کے جانوروں کا گوشت ، دودھ مچھلی ، پھل اور سبزیاں وغیرہ ہر قسم کی کھانے پینے سے متعلقہ اشیاء کسی بھی صورت میں انسانی غذاءمیں شامل نہ ہوسکیں ۔
عالمی ادرہ برائے صحت(ڈبلیو ۔ایچ۔او۔) کے ایگزیکٹو کمشنہ کے نائب صدر ڈاکٹر پاؤلو ایم بُوس Paulo M. Buss نے مزید فرمایا اور وہ لوگ جو تابکاری سے کسی طور متاثر ہو چکے ہوں انھیں اگلے پانچ سے دس سال تک اور بعض صورتوں میں اس سے بھی زیادہ سالوں تک ڈاکٹروں کی متواتر دیکھ بھال میں رہنا ہوگا ۔ جس سے بے شک ان کی زندگی متاثر ہوگی۔ڈاکٹر موصوف کا کہنا تھا کہ فوکوشیما پلانٹ کے حادثے کے بارے میں ابھی سے یہ نہیں بتایا جاسکتا کہ اس کے اثرات کس حد تک خطرناک ہونگے ۔ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ اس بارے جاپانی حکومت نے کسی غفلت سے کام لیا ہوگا مگر جاپانی حکومت نے شروع نے فوکوشیما حادثے کو عام سی اہمیت دی جبکہ درحقیقت اس خطرے کے بارے میں شروع ہی سے جاپانی حکومت کی طرف سے واضح طور پہ بتایا جانا چاہئیے تھا۔جبکہ امریکن ایجنسی آف اٹامک انرجی American Agency of Atomic Energy اور انٹر نیشنل اٹامک انرجی ایجینسی ویاناInternational Atomic Energy Agency in Vienna نے اس علاقے میں یہ تشخیص کیا کہ تابکاری بیان کی گئی شرح سے کہیں بڑھ کر ہے اور اسکا دائرہ بھی بیان کئیے گئے کلومیٹرز سے زیادہ ہے۔ جاپان سے تابکاری کے جو کوائف ہمیں ملے ہیں ۔ اسکے مطابق ممکن ہے کم مقدار تابکاری کے فوری اثر کے تحت فوری موت تو نہ ہو مگر یہ تابکاری متاثرہ لوگوں کے لئیے یہ درمیانی اور طویل مدت تک انتہائی خطرناک مسائل پیدا کرے گی۔مختلف قسم کے کینسر oncological disease ، لیوکیمیا leukemia ، brain tumors دماغ میں کینسر کی رسولیاں۔مردو خواتین میں the gonads tumors جیسے مثانے اور رحم کے کینسر۔ sterility مردو خواتین میں بانجھ پن۔ یا معذور بچوں کا جما ۔ یا ایک سے زائد یا کم اعضاء کے بچوں کا جمگ ہونا وغیرہ خطرات ہیں۔
جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین

عنیقہ ناز کہا...

یہ صاحبہ نہیں صاحب ہیں۔ پاکستانی صاحباءووں میں اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ صحیح بات پہ اتنے وثوق سے چیزیں لکھ ڈالیں۔ غلط بات پہ کیا لکھیں۔
ہارپ آج کے پاکستان کا دلچسپ لطیفہ ہے۔ اگرچہ اسکا مقصد موسمی تبدیلیاں لانا ہیں۔ لیکن موسم میں بارش وغیرہ ہوتے ہیں۔ تا دم تحریر ایسا کوئ ثبوت نہیں کہ ہارپ زلزلہ لا سکے۔ بارش لانے کا تجربہ پاکستان میں بھی کیا جا چکا ہے۔ انکے نتائج عام طور پہ کار آمد نہیں رہے
پماراتو یہ عالم ہے کہ ہم جسے چھو نہ سکیں اسکو خدا کہتے ہیں۔ جو چیز سمجھ میں نہ آئے اس میں بھی ایک طلسم پیدا ہو جاتا ہے۔
نصرت مرزا کا پاکستانی سیلاب کے وقت بھی ایک مضمون آیا آیا تھا کہ اب جب کہ ثابت ہو چکا ہے کہ پاکستانی زلزلہ اور سیلاب ہارپ کی وجہ سے آئے ہیں امریکہ کو پاکستان سے معافی مانگنی چاہئیے۔ کسی نے ان سے نہیں پوچھا کہ کیا رات کو خواب میں یہی دیکھا تھا۔
ڈاکٹرعطالرحن اور ہود بھائ کے درمیان اس بات پہ خاصی گرما گرمی ہوئ۔ ڈاکٹر صاحب نے دعوی کیا کہ انہوں نے بھی ایسا نہیں کہا تھآ کہ ہارپ یہ سب کچھ کر سکتا ہے۔ انہوں نے تو مختلف خبروں کو حوالے دئیے تھے۔
چلیں وہ تو یہ کہہ کر خاموش ہو گئے۔ نصرت مرزا نے دوبارہ ایسا لکھ ڈالا۔ وہ بھی پاکستان کے جید اردو اخبار میں۔ انکو میرا خیال ہے ڈاکٹر عطالارحمن اور ہود بھائ کے درمیان ہونے والی خط و کتانت کا اردو ترجمہ بھجوا دیں۔

راشد کامران کہا...

ہاہاہا۔۔ ایک ساتھ دو لطیفے ہیں جی۔۔ ایک تو یہ مرزا صاحب کا آرٹیکل اور دوسرا وہ تبصرے جو کچھ گھنٹوں پہلے زلزلے کو قدرتی عذاب اور انسان کی بے بسی سے تعبیر کررہے تھے اب انہیں اسی زلزلے کو سائنس کا کرشمہ قرار دینا پڑے گا۔۔

یاسر خوامخواہ جاپانی کہا...

وڑ گئے بھئی۔
پاکستانیوں کی جہا لت پڑھے لکھوں کی ہو یا انپڑھوں کی۔
سب کو معلوم ہے۔
عالم ہونے کی دعوی دار احسن طریقے سے لکھ دیں۔تو ایک عدد پاکستانی جہالین پر احسان ہو گا۔
ویسے میں بھی ہارپ ایک تیار شدہ ہتھیار کے موجود ہونے کو شک کی نگا ہ سے دیکھتا ہوں۔وجہ بہت آسان سی ہے۔اگر ایسا ہتھیار موجود ہوتو امریکہ ہر حال میں وائٹ ہاوس میں بیٹھ کر بٹن دبا کے استعمالے گا۔
خلائی مخلوق تو موجود ہے جی جنات وغیرہ ۔ہمارے مولوی صاحب وغیرہ نکالتے بھی رہتے ہیں۔۔عموماً دوشیزاوں میں سے۔

یاسر خوامخواہ جاپانی کہا...

یہاں سے معلومات خریدو تے پڑھو۔
USD$14.95 plus postage and handling (USD$1.50; USD$4.00 international) from
Earthpulse Press, c/o Dr Nick Begich, PO Box 201393, Anchorage, Alaska
99520, USA.

عنیقہ ناز کہا...

لیجئیے اب جب کہ لوگ دھڑا دھڑ ادھر ادھر کے حوالے دے رہے ہیں۔ میں بھی دو حوالے ڈال دوں۔ ان سے منسلکہ باقی حوالوں کو دلچسپی رکھنے والے لوگ خود تلاش کر لیں۔
http://www.dawn.com/2010/10/17/column-the-wondrous-world-of-science-6.html
http://www.dawn.com/2010/11/16/case-of-bogus-science.html
http://www.dawn.com/2010/11/20/haarp-a-us-weapon-of-mass-destruction.html

عنیقہ ناز کہا...

Literally world-class bogus science

The High Frequency Active Auroral Research Program (HAARP) operates an ionospheric research facility in Gakona, Alaska.

What do you do if you're a prominent physicist in Pakistan, and your famous countryman Atta-ur-Rahman—a fellow of the Royal Society, no less—writes that "it has been alleged" that this American program "aims to control the weather by manipulating the ions in the ionosphere, and thereby control the world"?

What do you do if this countryman adds that HAARP "may also affect plate tectonics causing earthquakes, floods through torrential rains and trigger tsunamis"? What if he asks his readers, "Is the HAARP then, a harmless research tool—or a weapon of mass destruction far more lethal than nuclear weapons?"

Dr. Rahman wrote all of this in a commentary this fall in Dawn, Pakistan's leading English-language newspaper.

What do you do? If you're Pervez Hoodbhoy, you publish a counter-commentary under the headline "A case of bogus science."

Professor Hoodbhoy teaches physics at Quaid-i-Azam University in Islamabad. Among his scientific colleagues around the world are the editors at Physics Today who published his 2007 feature article "Science and the Islamic World—The Quest for Rapprochement." He has often criticized Dr. Rahman in the past, though usually on science policy, not bogus science.

Hoodbhoy's counter-commentary begins by pointing out that Rahman heads Comstech, "the Organization of Islamic Countries' highest scientific body," which "has received millions of dollars from OIC countries" and has an "opulent headquarters" in Islamabad. Although Comstech's performance "has been consistently mediocre," Hoodbhoy charges, "the organization has now descended to an all-time low."

To substantiate that charge, Hoodbhoy must treat Rahman's effusions as if they are serious and possibly credible:

Given Dr. Rahman's prominent place in Pakistani science, and that he is Fellow of the Royal Society, one must consider seriously his claim that HAARP can cause earthquakes and floods. But even the briefest examination makes clear his claims make no scientific sense.

Methodically, Hoodbhoy disposes of the notion that HAARP could be "a secret military project conceived by evil and diabolical minds" and debunks the idea that any conceivable transmitter power in Alaska could affect weather or plate tectonics. An excerpt:

عنیقہ ناز کہا...

Does the good doctor believe in magic and demons? How else can massive tectonic plates be moved by radio waves? Will HAARP tickle a sleeping subterranean monster that awakes and sets off earthquakes? This kind of thinking was what irate and ignorant village mullahs used after the 2005 Pakistani earthquake. They blamed cable television, after which followers smashed thousands of television sets.

Weather change simply cannot be caused by HAARP's radio waves. The effects of a puny 3.6 MW radio transmitter on the ionosphere can only be detected with sensitive instruments. Even these are almost completely washed out by a constant stream of charged particles from the sun that hit the earth during daytime. To see HAARP's effects would be like trying to see a candle a mile away in blazing sunlight.

Hoodbhoy also methodically disposes of Rahman's bogus sources. For example:

Yet another quoted "authority" is the arch conspiracy theorist, Michel Chossudovsky, a retired professor of economics in Ottawa. In Dr. Rahman's pantheon of "experts", none has published a scientific paper in a reputable science journal that demonstrates a connection between ionospheric physics and any weather or subterranean phenomenon. In short, Dr. Rahman's claims about HAARP are based on pseudo-science promoted by conspiracy theorists who blame America for all grief in the world.

Professor Hoodbhoy's conclusion requires quoting too:

Once science loses its objectivity and becomes enslaved to any kind of ideology or political opinion, it becomes useless. Quack science does not just cost money. It also confuses people, engages them in bizarre conspiracy theories, and decreases society's collective ability to make sensible decisions. One must therefore seriously question whether a pseudoscience organization like Comstech deserves lavish funding from poor Pakistanis. We have better things to spend our money on. As for the world of science: it will not even notice Comstech's demise.
America's "green energy chief"

The front page of the Sunday, 14 November, Washington Post business section carried a fairly lengthy article on the efforts of Secretary of Energy—and physics Nobel laureate—Steven Chu.

The piece paints him as America's "green energy chief," an energetic advocate for energy progress. Though the reporter, Steven Mufson, dutifully shows hints of journalistic distance from his subject, he seems mainly sympathetic to the Chu agenda.

The headlines reinforce the tone. Online, the key word is sprint: "Energy Secretary Chu in sprint to put stimulus to work on renewable innovations." On paper, the key word is race: "For energy chief, race is on to find fuel alternatives." Photos contribute to the tone. One on the front page and another after the jump show Chu on his way to work in shorts, T-shirt and bike helmet, and pedaling—sorry, can't avoid this adverb—energetically.

عنیقہ ناز کہا...

A sentence from the opening paragraph: "Then it's a 20-minute sprint—breaking the [Capital Crescent Trail's] speed limit—to downtown Washington."

Mufson goes on to describe Chu's tenure as energy secretary as "a sprint of sorts," reporting that the stimulus bill gave his agency "an extra $36 billion for grants and low-interest loans to jump-start new technologies and greater energy efficiency. "

He follows Chu on a day trip involving three site visits: to a small entrepreneur planning to manufacture thin-film solar cells for embedding in construction materials, to Princeton Plasma Physics Laboratory and to the Philadelphia Navy Yard, where the Energy Department is investing $122 million over five years to make an energy hub.

Mufson calls the hub concept "dear to Chu, who seems to pine for his years at Bell Labs, where scientists have won a total of seven Nobel Prizes and one team invented the transistor."

He also describes Chu's participation in the Gulf oil-spill crisis. And he focuses on Chu's continuing campaign against human-caused climate disruption:

"We may not currently understand all the bumps and wiggles, but we understand the overall trend," [Chu] says. "What's going to happen is it's going to warm up." Chu points to a study about Greenland's climate and glaciers. "This is remarkable data," he says. "The world is changing." Concern about global climate change helped bring Chu out of the physics lab and classroom and into public policy.

Mufson continues:

At Princeton, [Chu] projects photos of scientists—such as Enrico Fermi and J. Robert Oppenheimer—who were among the fathers of the atom bomb during World War II. He says climate change poses a new threat to rally against. "Scientists have come to the service of our country in times of national need," he says. ... His biggest disappointment, he says, is that "two or three years ago I thought America and the world [were] really going to break forward and recognize that climate change is important, and now they are backtracking on that. The world economic recession has something to do with that, but the people who are against [climate action] have also tried to muddy the waters."

In this article about energetic techno-advocacy, Mufson emphasizes that Chu's

sense of urgency is something he has tried to infuse in others. One day in 2009, after biking to the office, he met with a handful of top officials awaiting their swearing-in ceremony. "Be nice, but don't be patient," he told them.
یہ حوالہ اس لنک سے لیا گیا ہے۔
http://blogs.physicstoday.org/politics/2010/11/

عنیقہ ناز کہا...

ان سب حوالوں کے بعد آخیر میں یہ کہ ڈاکٹر عطاالرحمن کو آخیر میں کہنا پڑا کہ دراصل ان کا مطلب یہ نہیں تھا کہ ہارپ سے زلزلے لائے جا سکتے ہیں یا لائے گئے ہیں۔ وہ تو صرف مختلف ذرائع کیا کہتے ہیں وہ بیان کر رہے تھے۔

گمنام کہا...

یاسر جانی۔دنیا چا ند پر چلی گئ اور یہ لوگ ابھی تک کہتے ھیں یا اللہ خیر دا چا ڑی۔تم عقلمند آدمی ھو ان لوگوں سجھانے کا کو ئی فائیدہ نہیں۔یہاں لوگ گھر کا بجٹ بنا نہیں سکتے ملکی بجٹ پر لکھنا شروع کر دیتے ھیں۔اپنے گھر کی حفاظت کر نہیں سکتے ملک کے محافظوں پر لکھنا شروع کر ديتے ھیں۔کیمسڑی کے چار فارمولے یاد کر کے ایٹم بم پر لکھنا شروع کر دیتے ھیں۔اتنے جدید علوم پر بات ھا-ھا-ھا

Popular Posts