پیر، 30 اگست، 2010

‎نسلیں گزر رہی ہیں میرے غم سے بے خبر

‎ایک دوست نے ذکر کیا تھا که ایک دفعه سندھ کے کسی علاقے میں ٹرین میں ایک وڈیرے
‎کے ساتھ کچھ مزارعے سفر کررهے تھے اور مزارعے سب کے سب نیچے بیٹھے تھے
‎اور زمین دار صاحب سیٹ پر پرجمان تھے
‎میں نے کہا که جی ساری سیٹیں خالی هیں ان کو بھی اوپر بٹھائیں
‎تو ان امیر ادمی صاحب کا جواب تھا که
‎کیسی بات کرتے هیں ؟
‎اپ نے قران نہیں پڑھا؟
‎عزت اور ذلت الله کے ہاتھ ہے
‎اور ان کو رب نے بے زمین بنا کرذلت دی هوئی هے اس لیے میں کون هوتا هوں ان کو عزت دینے والا؟
‎پاکستان بنے باسٹھ سال هو گئے ؟
‎نئیں جی
‎قائد اعظم نے فرمایا تھا که جس دن ہند کے پہلے ہندو نے اسلام قبول کیا تھا
‎اسی دن پاکستان بن گیا تھا
‎پہلے حکمران آئے
‎اور پھر ؟؟
‎او سر جی افغان لوگ تین هی پیشے رکھتے تھے
‎ایک
‎جو چار بندے اور تلواریں اکھٹے کرلیتا تھا ہند ميں جهاد کرنے اور مال غنیمت اور غلام لینے
‎آجاتا تھا
‎دوسرا
‎جو چار کتابیں پڑھ جاتا تھا
‎اسلام پھلانے آجاتا تھا
‎لیکن جهادیوں کی مدد کرتا تھا اور داء لگے تو غلاموں کی تجارت بھی فرمالیا کرتے تھے
‎جی اسلام کے ڈسٹری بیوٹر صاحب
‎تیسرا
‎جس کو کوئی کام نهیں آتا تھا، ایک بیچه لے کر آجاتا تھا
‎گارے کی دیواریں بنا کر پیسۓ لیتا تھا ، بھیک مانگ کر کھانا کھاتا تھا
‎افغانوں کی ان تین قسمیں نے بہت اسلام دیا جی هم کو
‎اور همارے بڑوں کے کتنے بھائی اور بہنیں غزنی اور بخارا بدخشاں کی منڈیوں میں بکے
‎ایک سرمے والی سرکار تھے جی اپنے جرنل ضیاع صاحب ان کی حکمرانی میں ، افغانوں نے هم کو کلانشکوف اور ہیرؤین دی
‎اور بقول قائد اعظم کے ان لوگوں نے ہند ميں پاکستان کی بنیادیں رکھیں
‎جتنے لوگ بھی جهاں جهاں سے اسلام لے کر آئے انہوں نے ایک کام بڑی ذمہ داری سے اور تسلسل سے کیا
‎که
‎ہند کے لوگوں کو مسلمان تو کردو لیکن اسلام نہیں دو
‎اسلام پڑھو (اقراء ) سے شروع هوتا ہے
‎اس لیے ان کو پڑھنے کے قابل نهیں هونے دینا
‎اسلام علم کو مومن کی میراث کہتا ہے اس لیے ان کو علم سے دور رکھنا ہے
‎اور پھر تاریخ نے لکھا ہے که بڑے بڑے بہادر حکمران گزرے انہوں نے محل بنائے ، باغات لگائے شراب پی ، افیم کھائی ، حرم بنائے
‎لیکن سکول نهیں بنائے که لوگ پڑھ ناں جائیں
‎اور هم نے دیکھا که انپڑھ ماں نے بچوں کی کیسی تربیت کی که
‎اج کا پاکستان بے علم هے اور اس کو حکمران ، عوام ،سب بھکاری بنے هوئے هیں
‎پڑھی لکھی قوموں کے
‎اور کسی کو میرے اس دکھ کا احساس نهیں هے که میری قوم جاہل هے
‎خاور کا یه دکھ نیا نهیں هے
‎احساس رکھنے والے پہلے بھی اس کو محسوس کرتے رهے هیں
‎جون ایلیا نے کہا تھا
‎نسلیں گزر رہی ہیں میرے غم سے بے خبر
‎صدیوں کی شاہراہ پہ تنہا کھڑا ہوں میں
‎اس غم میں که میری قوم جاہل هے اور اس کو احساس بھی نهیں هے که
‎جاہل هے

12 تبصرے:

پاکستانی کہا...

ہسپانوی درویش صاحب حاضر ھؤ ،،

محمد احمد کہا...

نسلیں گزر رہی ہیں میرے غم سے بے خبر
‎صدیوں کی شاہراہ پہ تنہا کھڑا ہوں میں

ٹھیک کہا آپ نے

افتخار اجمل بھوپال کہا...

خاور صاحب ۔ آپ نے کونسی تاريخ کی کتاب پڑھی ہے جس ميں يہ سب کچھ لکھا ہے ؟

Azhar Ul Haq کہا...

خاور آپ بہت اچھا اور سچا لکھتے ہو، مگر تاریخ لکھنے کے لئے شاید آپکو مزید مطالعے کی ضرورت ہے مہربانی فرم کر میری بات کا برا نہیں منانا ، افغان قوم کا شیر شاہ سوری ہو یا افغانی ولی اللہ سب کے اثرات ہیں اس خطہ ہند پر ، کچھ اچھے کچھ برے ، اصل میں زیادہ تر لوگ اسلام سے قبل یا بعد میں یہی راستہ اپناتے رہے ہیں ، چاہے وہ سکندر اعظم ہو یا آریہ دور کے حملہ آور ۔ ۔۔ اور اسلام کو پھیلانے والے تلوار والے نہیں تھے ، بلکہ اخلاق والے تھے ، ورنہ تاتاریوں کا تیمور ہو یا شیر شاہ سوری ۔ ۔۔ اسلام انکے حملوں سے نہیں پھیلا ۔ ۔ اور قابض ہونے والے منگول یا مغل تو ایران کے راستے سے بھی آئے تھے ۔ ۔ ۔

یاسر خوامخواہ جاپانی کہا...

اگر اس طرح سوچا جائے تو۔۔۔۔۔
یہ سر زمین بڑی زرخیز ھے۔
اس دور میں اگر غلام اور کنزیں ایکسپورٹ ہوتے تھے تو اس وقت نام نہاد دہشت گردی کے نام پر دیندار مسلمان فروخت ہوتے ہیں۔اس وقت اپنے مخالفین کیلئے اگر غیر ملکی حملہ آوروں کو دعوت دی جاتی تھی یا غیر ملکی حملہ آوروں کی معاونت کی جاتی تھی۔ تو اس وقت اپنا اقتدار قائم رکھنے کیلئے امریکی و طاغوتی طاقتوں کی پوجا کی جاتی ھے۔جب خطرہ چمڑی و حرام کی کمائی ہوتا ھے تو یہ ان طاغوتی طاقتوں کے بغل بچے ان طاغوتی طاقتوں کی گود میں جا بیٹھتے ہیں۔
تو جناب غلط اور برے کون ہوئے؟
امریکہ ؟ بر طانیہ؟
یا صدیوں سے ہائے لٹ گئے ہائے برباد کردیئے گے کا رونا رونے والے؟
ویسے ایسی دہائی دینے والے بہت ہی کم ہیں یا کبھی کھبا ر ملتے ہیں۔
تاریخ کے ورق الٹے جائیں تو اچھائی برائی ملتی ھے۔لیکن ایسا بھی نہیں ھے کہ اس خطہ کے لوگوں صرف مظلوم ظاہر کیا جائے۔
ان مسلمان حملہ آوروں سے پہلے کیا یہاں کے باسی بہت ہی آزاد اور عزت کی زندگی گذارتے تھے؟
اس وقت اس خطے کے اصلی باسی کتنے ہیں اور وہ بھی کیا اپنی اصلی جینز کے ساتھ ہیں؟

کاشف نصیر کہا...

خاور بھائی ا ٓپ ایک جید بلاگر ہیں پھر پچھلی کئی دنوں سے مسلسل ایسی تحاریر کیوں سامنے لارہے ہیں جن سے نفرت بڑھے اور دوریاں جنم لیں. کسی قوم میں اچھے برے دونوں طرح کے لوگ ہوتے ہیں، سندھیوں میں، پنجابیوں میں، پٹھانوں میں، مہاجروں میں اور افغانوں میں. لیکن آپ کھرے پن کے نام پر پوری کی پوری قوم کو لپیٹ دیتے ہیں اور پھر توقع یہ بھی رکھتے ہیں کہ آگےسے آپ کی تائید ہو اور اگر کوئی بارہ سنگھا ٹائپ پنجابیوں سے متعلق اسی طرح کی بات کردے تو آپ فورا جزباتی ہوجائیں. خاور بھاور تعصب، نسل پرستی اور عصبیت اور کسے کہتے ہیں. عصبیت بھی کیا زمانہ جاہلیت کی نشانی نہیں ہے.
افغانوں کی تاریخ بیان کرتے ہوئے آپ کے ذہن میں احمد شاہ ابدالی، شیر شاہ سوری، سید علی ہجویری اور امان اللہ خان جیسے کیوں نہ آئے اور ان لوگوں کے کردار نے آپ کی تحریر میں حد اعتدال کیوں نہ پیدا کیا.

پچھلے بلاگ میں ہمارے نام سے غلط تبصرے کئے گئے اور ہمیں اور وقار کو بلا بھلا کہا گیا تو ہم نے وضاحت اور آئی پی کی درخواست کی لیکن آپ خاموش رہے، آخر کیوں. اگر آپ نے وضاحت نہ کی تو ہم آپ کے بلاگ پر تبصرہ کرنا چھوڑ دیں گے.

میرا پاکستان کہا...

دراصل یہ صرف افغانوں کی غلطی نہیں پچھلی دو صدیوں سے تمام مسلمان ممالک کے سربراہ تعلیم کی طرف توجہ نہیں دے رہے۔ آپ کی بات درست ہے کہ تعلیم اگر عام ہو گئی تو موروثیت ختم ہو جائے گی اور بادشاہت کا نام و نشان مٹ جائے گا۔

Abdullah کہا...

خاور کھوکھر بڑے عرصے کے بعد آپ نے ایک جینوئن اشو کی طرف اشارہ کیا ہے مگر پھر بھی ایک دوسری قوم کو حسب عادت رگیدنے سے باز نہ آئے،اوراس بات پر میں جاوید افضل کا ہم خیال ہوں!!!!
باقی سندھ کا وڈیرہ ہو یا پنجاب کا جاگیر دار، بلوچستان کا سردار ہو یا سرحد کا ملک ،خان اوپر لکھا واقعہ سب کی ترجمانی کرتا ہے!
:(
کاشف نصیر کہیں تو تم اپنی جہالت پھیلانے سے باز آجایا کرو!

پاکسستانی کہا...

جارح کا ہاتھ روکنا واجب ہے ليکن جہالت اس سےبھي سنگين مسلہ ہے- بدقسمتي سے آج تک ان حضرات نے ہر وہ کام کيا ہے جس کا فائدہ ان کے اپنے دشمنوں کوگيا ہے- يہ لوگ اپنےمعاشرے کی بربادی کےعلاوہ مسلمانوں پردنيا بھر ميں علم و ہنر اور روزگار کے دروازے بند ہونے کے محرکات کے طور پر ياد رکھے جائیں گے-

پاکستانی کہا...

ظاہرشاہ کےدورتک کابل ايشيا کےجديدترين شہروں ميں شمار ہوتا تھا جو روس اور امريکہ سے زيادہ انہی لوگوں کے ہاتھوں برباد ہوا- اگريہ حضرات پيغمبر اسلام کي خوش خلقي، تحمل اور بردباري کوياد رکھتےتوبہترکردارادا کرسکتے تھے-اب يہ خود اپني ہی اصلاح کرليں توخلق خدا پر ايک احسان، اور افضل ترين جہاد ہو گا-

مولوی کہا...

جب پہلی کلاس سے ہی بچے کے ذہن ميں يہ بات ٹھونس دی جاتی ہو کہ عربی پڑھنے سے ’ثواب‘ ملتا ہے۔اور مغرب کی ہر چيز بری ہے تو جناب گاڑيوں و ہوائی جہازوں بجلی و ريڈيو ٹی وی پر کيوں اچھلتے ہو؟ ان کو بھی حرام قرار دو يہ بھی کفر؟ یہ اسلام پر بہت بڑا احسان ہوگا اگر ہم ملا کو اسلام سے الگ کر لیں۔ ۔جھالت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوجاؤ اور اخلاقی طور پر ڈوبتا ہوا معاشرہ بچاؤ۔ پاکستانی ملا اپنی بیٹئ تک کو تعليم کيلئے امريکہ بھيج رہے ہيں اور افغانيوں کو کہہ رہے ھيں کہ جھاد کرو۔ جہا د کہ نا م پر چندہ تو مولوی کھاتے ہیں ليکن نتيجہ غريب ا فغانی کو بھگتنا پڑتا ہے۔

Abdullah کہا...

اب سوال یہ ہے کہ اس غم کا علاج بھی ڈھونڈا ہے آپنے ؟؟؟؟؟؟؟
پیسہ تو آپکے پاس بہت ہے اپنے علاقے میں کوئی اسکول نہ کھلوا سکیں تو ایک دو بچوں کی تعلیم کے اخراجات تو اٹھاہی رہے ہوں گے آپ؟؟؟؟؟؟؟
یا بس باقی دوسروں کی طرح باتیں باتیں اور صرف باتیں،یااپنی جہالت کے لیئے دوسری قوموں کو قصور وار ٹھرانا!!!!!!!!!!

Popular Posts