خاور کی ادبی سرگرمیاں
تعلیمی یا ادبی سرگرمیوں کی بات هو تو جی کیا لکھیں که سب لوگ کالج یونورسٹی کا لکھیں گے هم نے ھائی سکول سـے اگے کچھ اکر دیکھا ہو تو جی لاری اڈا گوجرانواله جہاں میں حاجی یوسف آٹو الیکٹریشن گے پاس سلیف موٹر اور جنریٹر کا کام سیکھا کرتا تھا ـ
سکول کے زمانے میں بهت شعر یاد هوا کرتے تھے ، استاد شعرا کے علاوھ اپنے استاد مام دین کجراتی سے بھی واقفیت تھی ـ
ان کا ایک شعر لکھتا هوں اس کی معونیت پر غور کریں که کتنی گہری بات کہـ گئے هیں
ناں چھیڑ میری پنڈلیوں کو ناں چھیڑ
ان ميں ہے درد جگر امام دینا ـ
استاد امام دین صاحب کو کتاب بانگ دھل کا جو حرف اوّل استاد جی نے لکھا تھا وھ ناقابل تحریر هے ـ
بہرحال جی همارے اردو کے استاد هوا کرتے تھے ماسٹر غلام نبی صاحب بڑے لائق اور ذهین تھے جی اور مولوی بھی تھے ، اور مونجی کا کاروبار بھی کرتے تھے ـ ماسٹر غلام نبی صاحب کو ایک مغالطه لگ گیا تھا که ماسٹر جی مجھے کلاس کا سب سے ذھین لڑکا سمجھتے تھے ـ
ایک دفعه حکم هوا که جوگی نام کی نظم پر ڈرامه کرنا ہے مکالمے بھی خود لکھو اور تیاری بھ خود کرو !ـ میں نے آصف چیمه کو ساتھ لیا اور ساری نظم رٹ لی ساتھ گلزیب کو چور کا روپ دے کر اس کا کردار بھی ڈال دیا لیکن اس کوئی مکالمه نهیں تھا ـ
کئی دفعه موضوع دے دیا که اس پر تقریر کرنی ہے ـ میں مطالعے کا تو شوقین تھا هی ادھر ادھر سے لوگوں کی تحاریر سے چوری کرکے کچھ لکھ کر تقریر جھاڑ دیا کرتا تھاـ
اک دفعه حکم هوا که اگلے بزم ادب میں تم نے نعت بھی پڑھنی ہے اور اس کے بعد لطیفے بھی سنانے هیں ـ
مولوی غلام نبی صاحب کا اعتماد که انہوں نے دیکھا هی نہیں که میں نے کیا لکھا ہے ـ
بزم ادب والے دن میں نعت کے لیے سٹیچ پر چڑھا اور پهلا هی شعر پڑھا
طوطا باغ میں جاتا ہے
مالی سے گالیاں کھاتا ہے
صدقے یارسول الله ـ
که ھیڈ ماسٹر صاحب نے کہا بس بند کرو اور جاؤ ـ
کچھ لڑکیں کی تقریروں کے بعد پھر میری باری تھی لطیفے سنانے کی ـ
تو جی میں سٹیچ پرچڑھا هی تھا که لڑکوں کی ھنسی چھوٹ گئی که محفلوں میں لطیفے سنانے میں میں پہلے هی مشهور تھا ـ
میں نے لطیفه سنایا
که رات کو ناکے پر پولیس والوں نے چرسیوں کو پکڑ لیا
اور ایک سے نام پوچھا
اوئے تیرا نام کیا ہے
معراج دین
بڑا چھا نام ہے مذھبی اسے چھوڑ دو تھانیدار نے حکم دیا
دوسرے نے اپنا نام رمضان بتایا اور اس کو بھی چھوڑ دیا گیا
اب بٹ صاحب کی باری ائی تو جب ان سے نام پوچھا تو انهوں نے
جواب دیا قران شریف
اتنا سننا تھا که سب لڑکے ھنسنے لگے اور مجھے ھیڈ ماسٹر صاحب کا حکم سنائی دیا که
بند کرو اور سٹیچ سے اتر جاؤ
اس کے بعد ھیڈ ماسٹر صاحب نے تقریر کی جس میں مجھے بڑی سنائی که اس لڑکے کو میں بڑا اچھا سمجھتا تھا وغیرھ وغیرھ آج اس کو کیا هو گیا هے که مذھب کی توھین کرنے پر اتر ایا هے
ساتھ میں ماسٹر غلام بنی صاحب کی بھی بے عزتی هوئی تھی که انہوں نے میرا لکھا هوا دیکھا کیوں نهیں ـ
4 تبصرے:
گویا آپ کا مزاج بچپن سے ہی ایاسا تھا
آپ کو اس شعر کی تشیح معلوم ہے ؟
کسی نازنیں کا چمکدار سینڈل
جو دیکھا تو یاد آیا سر مام دینا
یہ سچ ہے کہ شرارتی ذہن کے بچے ہمیشہ کلاس والوں کی آنکھ کا تارا ہوتے ہیں۔ ہمارے ساتھ کئی ایک طالبعلم ایسے پڑھتے تھے جن کو سٹیج پر دیکھتے ہی ہنسی چھوٹ جایا کرتی تھی کیونکہ ان کا انداز ہی ایسا ہوتا تھا۔
امام دین نے شعر سنایا
یہ سڑک
جاتی ہے سیدھی جلالپور جٹاں
کسی نے سوال کیا کہ پہلا مصرع بہت چھوٹا ہے۔ امام دین بولے دیکھتے نہیں سڑک کتنی لمبی ہے۔
امام دین کے زیادہ تر شعر جو ہمارے ایک ساتھی نے سنائے تھے ان کو بیان کرنے کے لیے تو اردو حروف تہجی ہی کم پڑ جاتے ہیں۔ کیا واقعی تمام شعر حضرت امام دین کے ہی ہیں یا وکی پیڈیا کی طرز پر مختلف لوگوں کی کاوشوںکا نتیجہ؟
امام دین کے کافی سارے شعر تو مجھے بھی یاد ہیں
یار میرے کے پاس ایک دفعہ مل گئی تھی بان دھل
لیکن دیکھ کر مایوسی ہوئہ
سارے لفظ خود ہی فٹ کرنے پڑے
مجھے لگتا ہے کہ کسی حاسد نے لفظ بدل دءے ہوں گے
لیکن ٹینشن ناٹ
پورا گروپ اس کو با جماعت ایڈٹ کرتا تھا اور اصلی شعر نکال ہی لیتے تھے
جو اصلی نا بھی ہو تو اس سے کم مزیدار نہیں ہوتا تھا
:D
ایک تبصرہ شائع کریں