اتوار، 16 اگست، 2009

بچپن

بچپن کی یادوں کی بات هو تو اب اس عمر میں پیچھے مڑ کر دیکھنا پڑتا ہے تیسری که چوتھی میں پڑھتے تھے ان دنوں ، همارے پھوپھی زاد ملنے کے لیے ائے هوئے تھے غالباً گرمیوں کی چھٹیان تھیں ، همارے پھوپھا پرائمری سکول کے ٹیچر تھے اور همارے خاندان رشته داروں میں دور دور تک کوئی ملازم نهیں تھا ، صرف پھوپھا هی نوکری کرتے تھے ـ هم لوگ کام یا کاروبار کرتے هیں نوکری اج بھی بڑی عجیب سی سمجھی جاتی هے ـ
سیف الله اب خود بھی سکول ٹیچر هے پچھلی دفعه جب میں اس کو ملا تھا تو سیف الله تلونڈی موسے خان کے ھائی سکول میں سائنس ٹیچر تھا ـ ان دنوں ابھی پاکستان کی ابادی میں بے ھنگم اضافه نهیں هوا تھا ، ستر کی دھائی کے پہلے سالو ں کی بات کررها هوں ـ گاؤں کی مشرقی طرف هماری هی برادری کے گھر اور حویلیان هوا کرتی تھیں ـ هم لوگوں میں حویلی اس جگه کو کہا جاتا ہے جہان ڈنگر (جانور ) باندھے جاتے هیں ـ کمہاروں کی حویلیوں اور گھروں میں گاؤں کا ھائی سکول گرا هوا ہے ـ بھٹی بھنگو جانے والی کچی سڑک گزرتی تھی همارے گھر کے مغربی طرف سے ، کوئی پانچ سو میٹر سڑک کے دونوں اطراف اپنے هی لوگوں کے گھر اور اس کو بعد بائیں ھاتھ پر ایک گراؤنڈ هوا کرتی تھی جس کو گھڑی پن کہا کرتے تھے، گھڑی گھڑے کی چھوٹی بہن , پن سے مراد توڑنا یعنی چھوٹے گھڑے توڑنے کی جگه ، وجه تسمیه کیا تھی ؟ معلوم نهیں لیکن شنید سے یه بات نکلتی هے که لوٹ مار (تقسیم ) سے پہلے ھندوں کی کسی رسم میں یہان آ کر لوگ گھڑے توڑا کرتے تھے ، اس کے مقابل میں امام بارگاھ تھی جس کو هم لوگ مام واڑھ کہا کرتے تھے ـ
امام بارگاھ گے اوپر گہرے گہرے گھڑے بنے تھے جن کو آوا کہا کرتے تھے ، آوا ؟ آوی کا بڑا ایڈیشن ، کمهار جس بھٹھی میں برتن پکاتے هیں اس کو آوی کہا جاتا ہے اور اس کے بڑے والے وژن کو جس میں اینٹیں پکایا کرتے تھے اسکو آوا کہا کرتے تھے ، پرانے زمانے میں اینٹوں کو پکانے کا کام بھی کمهار هی کیا کرتے تھے بھٹے بعد کی پیداوار ههں اور ان کو بھٹا اس لیے کها جاتا ہے که لوھار کی بھٹی کو چمنی هوتی هے اور چھوٹی هونے کی وجه سے بھٹی اور چمنی والا بڑا بھٹه کهلواتا ہے ـ
تو جی اس آوے پر هم اپنے گھوڑے کو لٹانے کے لیے لے جایا کرتے تھے ، کیونکه ایک دو لوٹنیاں لینے سے گھوڑے کی تھکاوٹ اتر جاتی هے ـ
کیا آپ جانتے هیں که گھوڑا بیٹھا نهیں کرتا؟؟
جی هاں گھوڑے کے لیے شرم کی بات هوتی هے که اس کا مالک اس کو بیٹھے هوئے دیکھ لے ، گھوڑا اپنی تین ٹانگوں پر کھڑا هوا کرتا ہے اور ایک ٹانگ کو سستاتا رھتا ہے یہی اس کا رام هوتا هے یا پھر ریٹ میں ایک دو لوٹیاں لے کر ھڈیوں کے کڑاکے نکال کر سکون لے لیتا ہے ـ
تو جی بات تھی که بچپن کی یاد کی تو جی پھوپھی زاد سیف الله ایا هواتھا اور هم گھوڑا لیٹانے کے لیے اس پر سوار هو کر گئے تھے ، تو سیف الله میرے پیچھے بیٹھا هوا تھا گھوڑے کی سواری سے ناواقف سیف الله کا جب بیلس بگڑا تو اس نے مجھے پیچھے سے جکڑ کر اپنے ساتھ هی گھوڑے سے گرا دیا تھا
اس بات پر بڑی بے عزتی هوئی تھی که پپو (میرا بچپن کا نام) گھوڑے سے گر گیا
لوگ بھالے مجھے سالوں تک اس بات کا مذاق کرتے رهے هیں اور میں وضاحتیں هی کیا کرتا تھا که جی میں خود سے نهیں گرا تھا سیف الله نے گرایا تھا
اس بات پراور بھی ھنسی هوا کرتی تھی که میں اپنی غلطی سیف الله کے سر منڈھ رها هوں ـ

3 تبصرے:

DuFFeR - ڈفر کہا...

چھیڑ نا جانے والی چیزیں ہوتی ہیے جی
ایک دفعہ پڑ گئی تو بس پڑ گئی
لاکھ پچھا چھڑاتے رہو کوئی فیدا نئیں
اس چھیڑ کا اصل مزہ تو جب آءے جب سیف اللہ بھی آپ کو یہی کہہ کر چھیڑے تو

Jafar کہا...

!!!کمال کی منظر نگاری ہے

راشد کامران کہا...

جناب۔ میں نے کبھی گاؤں نہیں دیکھا لیکن آپ کی تحریریں اتنی عمدگی سے جزیات تک کا احاطہ کرتی ہیں کہ کئی چیزوں کی اب سمجھ آنے لگی ہے۔

Popular Posts