Popular Posts
-
، یہ پوسٹ اپ ڈیٹ کر دی ہے دو ہزار پندرہ ! جنوری چوبیس۔ اپ ڈیٹ پوسٹ کے اخر میں ہے ۔ میکنتوش عرف ایپل کے مارک والے کمپیوٹر میں اردو ک...
-
ساخت كے اعتبار سے "اردو" ايک مخلوط قسم كى زبان ہے ـ ا س كا ذخيره الفاظ نحوى اور حرفى قوائد،آوازيں مختلف زبانوں سے مستعار لى گئى ہ...
-
آزاد عورت ہم دنیا کی پرانی ترین تہذیب کے بچے ! ۔ صدیوں سے بچے بھی پیدا کرتے آئے ھیں اور زندگی بھی گزارتے رہے ھیں ـ...
-
نابالغ معاشرھ کیا ہے نابالغ وھ ہے جو بس بچپن میں هی پھنسا رهے ـ بہت سے کام هیں جو اگر چودھ پندرھ سال کی عمر سے پہلے کر لیں تو جسمانی اور ذ...
-
ملکوں کے حالات پر بهی منحصر هوتا ہے که پناه گیر لوگ کیسا محسوس کرتے هیں ـ یورپ میں بهی برطانیه کے حالات کچھ اچهے هی هیں که دیسی پناه گیروں...
-
بھٹی نے بٹ کو بتایا کہ اج ہماری بکری نے انڈھ دیا ہے۔ بٹ ھیرانی سے اچھل ہی بڑا۔ اوئے بھوتنی کے ، بکری اور انڈہ ؟؟ ہاں !! بھٹی نے بٹ کو بت...
-
ادبی ذوق والے لوکاں سے بے ادب پوسٹ پر پیشگی معذرت ،یه پوسٹ اس لیے لکھی گئے هے تاکه شرپسندوں کی زندگی کے تاریک پہلو اجاگر کیے جائیں ، کسی کے ...
-
دونوں بازوں سے محروم ایک شخص شربت والے کی دوکان میں داخل ہوتا هے ـ اور ایک گلاس شربت صندل برف اور تخم لنگاں کے ساتھ آرڈر کرتا هے ـ شربت تیار...
-
محاورے کی کہانی،۔ پرانے زمانے میں کہیں کسی ملک میں کسی بادشاھ نے مگر مچھ پالے ہوئے تھے ،۔ ایک دن بادشاھ نے اپنے امراء اور وزراء کو بمع ان...
-
ایم کیو ایم کا یه سوال که لوگ ان سے نفرت کیوں کرتے هیں ایسا هی لگتا ہے جیسا بش صاحب کے دور میں امریکه کے کسی بندے نے پوچھا تھا که لوگ امریکه...
2 تبصرے:
یار تو بھی کنفیوز تو نہیں۔ :shock:
یہ شرم صرف ہمیں آئے گی ۔ پھر بے نتیجہ رہے گی۔ اس ملک میں انسان بکتے ہیں دو وقت کی روٹی کی خاطر۔ روٹی، رزق جسکا وعدہ خدا نے کیا ہے۔ جو اناج وہ زمینوں پہ اگاتا ہے۔ جس پہ دنیا کی ذلیل ترین اشرافیہ کالے ناگ کی طرح پھن پھیلائے پہرہ دیتی ہے کہ انکی اجازت کے بغیر کوئی دو نوالے نہ لے لے۔ یہ وہ اشرافیہ ہے جو زمین پہ خدا بن کر لوگوں کو دو وقت کی روٹی کے لئیے ترساتی ہے۔ پولیس ، فوج ۔ اور ادارے محض انھیں تحفظ دینے کا کام کرتے ہیں۔ انھیں نہ ضمیر کچھ کہتا ہے ۔ نہ یہ انسانیت کےکسی اصول کسی ضابطے کو مانتے ہیں۔ یہ تبھی راضی ہوتے ہیں جب ان کی گردن پہ ہاتھ پہنچ نہ جائے۔ اور حالات جس نہج پہ چل رہے ہیں وہ انقلاب فرانس کا پتہ دیتے ہیں۔ غریب تو پھر غریب ہے ۔ اسکے پاس ہے ہی کیا جس سے محروم ہونے کا اسے اندیشہ ہو؟ ۔ مگر پاکستان کے بے ضمیر اشرافیہ کو یہ ضرور ذہن میں رکھنا چاہئیے کہ جس دن پاکستان کے لوگوں کہہ دیا کہ اب بس۔ پھر انہیں ملک سے فرار ہونے کا بھی موقع نہیں ملے گا۔
خاور کھوکھر صاحب یہ بے ضمیر لوگ کسی آئینے کو نہیں مانتے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو شیطان کے پاس اپنی روحیں دنیاوی مفاد کے لئیے گروی رکھوا چکے ہیں۔ ان کے کتے اور بلیاں بھی پاکستان کے کسی عام شہری سے بہتر زندگی گزارتے ہیں۔ انھی شرم نہیں آنے والی۔ مگر دکھ اس وقت سوا ہوجاتا ہے۔ جب ہماری عوام آزادی کا بے تکا جشن مناتی ہے۔ بھائی لوگو۔ آزادی کا دن آیا اس دن کو ضرور مناؤ ۔ اپنی کوتاہیاں اور خامیاں دور کرنے کا عہد کرو۔ پاکستان پہ قابض چور ، ڈکٹیٹر ۔ اور آمروں کے گناہوں کا کفارہ ادا کرتے ہوئے آئیندہ کسی کو ایسا کرنے کی اجازت نہ دینے کا عہد کرو۔ مگر یہ جشن کس بات کا۔ کیا پاکستان جن مقاصد کے لئیے حاصل کیا گیا تھا۔ کیا وہ مقاصد پورے ہو گئے ہیں یا ہم متواتر دائرے کا سفر کر رہے ہیں۔
دائرہ ۔، جو تنگ ہوتا جارہا ہے۔
ایک تبصرہ شائع کریں