پیر، 30 اکتوبر، 2006

پاک مٹی

پاکستان میں دهول مٹی ـ
ایسے لگتا هے که آندهیاں چل رهی هیں ـ
دوسرے ملکوں میں رهنے والے پاکستانیوں کی اکثریت یه سمجهتی هے که پاکستان کا جغرافیائی ماحول هی دهول مٹی والا هے ـ
جو که ایک مغالطه هے ـ
آبادی کےنزدیک اور آبادیوں کے اندر تو دهول کی آندهیاں چل رهی هیں لیکن آگر آپ کسی زرعی فارم یا آبادی سے دور کهیتوں میں هیں تو کتنی بهی تیز هوا میں دهول مٹی نہیں هوتی ـ
اس کی وجه یه هے که همیں آبادیوں کو منظم کرنا نہیں آیاـ
جتنا پاکستان همیں اللّه جی نے دیا هے وه بہت خوبصورت هے اور اس میں سے جتنا حصّه هم نے بنایا هے یعنی آبادیاں وهاں ایسے لگتا هے که بهوتوں کی بارات گذر گئی هے ـ
ٹوٹی هوئی سڑکیں گند ابلتی هوئی نالیاں بدصورت دیواریں اور اس پر دهول کا طوفان ـ
مٹی کی بهری ٹرالیاں سڑکوں پر مٹی بکهیرتی جاتی هیں ان کے پیچهے پیچهے تیز رفتار بسیں اس مٹی کو اڑا کر طوفان اٹهاتی هیں ـ
یہی مٹی پانی کی نالیوں میں گر کر ان کی سطح کو بلند کردیتی هے جو که گندے پاني کے ابلنے کا باعث هے ـ
محلے کا کوئی سیانا بنده اس گارابنی مٹی کو نالی سے نکال کر پانی کا بہاؤ بناتا هے مگر یه گارا بنی مٹی وهیں پڑی رهتی هے جو آهسته آہسته خشک هو کر دوباره نالی میں گر جاتی هے ـ
مٹی بهری ٹریکٹر ٹرالی کا کوئی انتظام هونا چاهئے مٹی کو سڑکوں پر بکهیرتی نه جائیں ـ سہواَ آگر هو بهی جائے تو اس مٹی کو اٹهانے کا انتظام هونا چاهئےـ جیسا که ترقی یافته ممالک میں ہے ـ
نالیوں میں گرے گارا مٹی کا بهی انتظام هونا چاهیے که اس کو فوراَ آبادی سے باہر منتقل کیا جائے ـ
هم نے ایٹم بم بنالیا هے مکر کچرے کو پراسیس کرنے نظام نهيں بناسکےـ
پرانے زمانے میں بیلدار هوا کرتے تهے جو که سڑک کے دونوں کناروں کی مٹی کو هموار رکهنے کے ذمه دار هوتے تهے ـ
سڑک کے کنارے درختوں اور گهاس کے بهی ذمه دار هوتے رهے ـ
اب وه بیلدار کیا هوئے ؟؟
دوسرے ممالک آبادی کے بڑهنے کے ساتھ ساتھ انتظامی آسامیاں بهی بڑهاتے هیں
هم هیں که پہلے سے موجود آسامیاں بهی ختم کیے جارهے هیں ـ
یا کہیں یه وجه تو نہیں هے که
پاکستان کی پاک مٹی کے طوفان اٹهاکر بہبوت ملے جوگیوں کی طرح پاک مٹی ملے بهوت بنناچاهتے هیں ؟

عید کے دن همارے گاؤں میں ایک ایکسڈنٹ هوا هے جس میں دو نوجوان لڑکے فوت هو گئے هیں ـ
ایک لڑکا تها فیض مستری کا اور دوسرا لڑکا تها نعیم مرزائی صاحب کا صاحبزاده ـ
موٹر سائکل سواری کے شوق نے ان کی جانیں لے لیں ـ مبینه طور پر لڑکے نشے میں بهی تهے ـ
فیض مستری صاحب کا لڑکا تو موقع پر هی مر گیا تها لیکن سلیم مرزائی صاحب کے لڑکے کو لاهورہسپتال لے گئے تهےـ چوهدری فضل محمود ان کے ساتھ گیا تها اور وه بتا رها تها که ہسپتال کی ایمرجینسی میں زخمی اور کٹے پهٹے لوگ اس طرح لائے جارہے هیں که جیسے کہیں جنگ لگی هوئی ہے ـ
همارے ہستال عام حالات کے زخمیوں کے لئیے بهی ناکافی هیں اگر خدانخواسته جنگ شروع هو جائے تو ہمارا کیا بنے گا ؟
آپنے دفاع کے مضبوط هونے کي بڑهکیں ہم نے اکہتر میں بهی سنییں تهیں ـ
http://urdu.noosblog.fr/urdu/
پاکستان سے کمنٹ کے لئیے اوپر والے لنک په کریں ـ

1 تبصرہ:

افتخار اجمل بھوپال کہا...

اس بلاگ پر آپ کے پروفائل ميں جو ای ميل کا پتہ ہے اس پر آپ کو ای ميل بھيجی ہے ۔ اميد ہے مل جائے گی ۔

Popular Posts