فرعون کی بے بسی
جگہوں کے نام بدل جاتے هیں ـ اور کرداروں کے بهی ـ
وردی والا هوتا هے صدام اور مرنے والے هوتے هیں دجیل قصبے کے لوگ یا کُرد لوگ ـ
مقام بدل کر وردی میں هوتا هے ـ مشرف اور مرنے والے هوتے هیں باجوڑ کے لوگ یا کوئی بهی پاکستانی ـ
صدام عراقی لوگوں کو نیچ سمجهتا تها ـ
اور مشرف پاکستانیوں کو نیچ سمجهتا هے ـ
نمک حرام جس تهالی میں کهاتے هیں اسی میں چهینک مارتے هیں ـ
جو ملک ان کو عزّت دیتا هے اسی کا بلادکار کرنے لگتے هیں ـ
آپنے لوگوں سے بات کرتے هوئے ان کا لہجه فرعون جیسا هوتا هے ـ اور طاقتور کے سامنے گهگیاتے هوئے کُتّے کی طرح دانت نکال نکال کر ـ ـ ـ ـ ـ
اگر بلاگر کی سائٹ نه کهلے یہاں کلک کریں
2 تبصرے:
جناب چھينک مارنا تو اتنی بُری بات نہيں ۔ آ جائے تو مارنی ہی پڑتی ہے ۔ محاورہ ہے جس تھالی ميں کھاتے ہے اسی ميں چھيد کر ديتے ہيں ۔
ہميں يقين ہے کہ خاور صاحب نے محاورہ جان بوجھ کر تبديل کيا ہے اور اس سے محاورے کا مزہ دگنا ہوگيا ہے۔ چھيد کرنے سے تھوکنا زيادہ حرامزدگي ميں آتا ہے اور ہميں خاور صاحب کي يہ ادا پسند آئي ہے۔
ہم بھول جاتے ہيں کہ کل کو ہم نے بھي مرنا ہے۔ لگتا ہے نفسا نفسي نے لوگوں کوآخرت بلکل بھلا دي ہے وگرنہ ظلم کرتے ہوۓ طاقتور سو دفعہ سوچتا۔
ایک تبصرہ شائع کریں