رحمانیوں کے بارے
اے ڈی میکلیگن آپنی کتاب ذاتوں کا انسائکلوپیڈیا میں رحمانیوں کے متعلق لکھتے ہیں ـ
یاد رہے کہ یہ کتاب ١٨٩٢ء اٹهاره سوبانوے عیسوی کی مردم شماری کے مطابق لکهی گئی تھی ۔
اس لئے ان کی کتاب کے لکهے جانے کے بعد کے حالات ، مجهے اپنے بڑوں سے سنی روایات اور آپنے اندازوں سے لکهنے پڑیں گے ـ
اس پوسٹ سے کچھ پیرے اردو کے انسائکلوپیڈیا وکی پیڈیا میں بهی شائع کئے جائیں گے تاکہ سند رہے ۔
کمہاروں کے اور کئی دوسری گوتوں کے رحمانی بن جانے کی یا کہ کہلوانے کی وجہ کیا تھی ،۔ ـ
ای ڈی میکلیگن آپنی کتاب ذاتوں کا انسائکلوپیڈیا میں لکھتے ہیں ـ
پاک رحمانی ـ
ایک مسلمان فرقہ یا سلسلہ اور نوشاہیوں کی شاخ ہے ـ
یه گوجرانوالہ میں مدفون شاھ رحمان کے پیروکار ہيں ـ ان میں اور نوشاھیوں میں بس یہی ایک فرق ہے یه وجد کی حالت میں درختوں سے الٹے لٹک جاتے ہیں اور جسموں کو آگے پیچهے جهلاتے ہوئے اللّہ ہو کا ورد کرتے ہیں،۔
اور آخر کار تهک کر گر پڑتے ہیں ـ
ان کی روایت ہے کہ پاک رحمان ایک دفعہ آسمان پر گئے اور اسے نوشوھ نے بلوا بهیجا ـ
تو اس نے اپنے استاد کے احترام میں سر کے بل جانا بہتر خیال کیا ـ
تاہم بتایا جاتا ہے کہ فرقے کے جاہل لوگ ہی ایسا کرتے ہیں ـ
مندرجہ بالا تحریر
ای ڈی میکلیگن کی کتاب ذاتوں کا انسائکلوپیڈیا سے کاپی کی گئی ہے ،۔
لیکن
جس طرح کے پاک رحمانیوں کے متعلق موصوف لکهتے ہیں ۔
میں جو کہ گوجرانوالہ کا باسی ایک کمہار ہوں
اس طرح کے لوگ میں نے گوجرانوالہ میں کہیں نہیں دیکهےـ
اس کے متعلق میرا خیال هو که ١٨٩٢ء سے اب تک یعنی سن 2006ء تک بہت بہت سی چیزیں بدل چکی ہیں ـ
ایک بہت بڑی تبدیلی یہ بات کوئی کہ ہند کی تقسم اور پاکستان کا بننا ہے ـ
پاکستان بننے کی کی بہت بڑی بڑی مہربانیوں میں سے ایک مہربانی یه ہے کہ پاکستان کے قیام نے ہندو سے دوری کی بدولت ہمیں بہت سے تواہم پرستیوں سے نجات ملی دلائی ـ
اس لئے پاک رحمانی لوگ بهی غالباَ یہ مجذوبانہ حرکات چهوڑ چکے ہیں ـ
ہاں شاه رحمان کا مقبره گوجرانوالہ میں ہے ـ
اور ان شاه رحمان صاحب سے وابستہ محیّرالعقول واقعات کا میں بهی شاہد ہوں ـ
یه مقبره واقع هے گوجرانوالہ سے حافظ آباد جاتے ہوئے قلعه دیدار سنگھ کے بعد ایک گاؤں نوکهر آتا ہے ـ
اس گاؤں نوکھر کے بعد میں روڈ سے نکلنے والی ایک سڑک بهڑی شاه رحمان کے مقبرے کو جاتی ہے ـ
بکرمی کلینڈر کے مہینے جیٹھ کی نو تاریخ کو تیز آندهی اور بارش آیا کرتی تهی ـ اس اندھی کو شاه رحمان کی بھڑی کہتے ہیں ۔
میں نے سالہاسال یه طوفان ہر سال کی جیٹھ کی نو تاریخ کو دیکها ہے ـ
لوگ گندم کی فصل کو تهریشر کرنے کے لئیے اس طوفان کے گذرنے کا انتظار کیا کرتے تهےـ
انیس سو اٹهاسی عیسوی تک میں اس طوفان کے باقاعدگی سے آنے کا شاہد ہوں ـ
اس کے بعد میری جہاں گردی ، کہ اپنے گاؤں ہی کی گلیاں بھولی بسری یادیں ہیں ۔
یه ایک روایت بهی ہے اور اس کے عینی شاہدین بهی ہیں کہ
نو جیٹھ کو ایک گدها کہیں نه کہیں ضرور حاضر ہو گا اور گدھا شاھ رحمان کی قبر پر پیشاب کرکے ھینکے گا اور اندهی اور بارش شروع ہو جائے گی ـ
چاچے مالک نے بتایا که اس کی نوجوانی کے دنوں میں جب اس نے نیا نیا ٹانگہ بنایا تها ـ
ان دنوں چاچا مالک ایک سال نو جیٹھ کو شاه رحمان کے مقبرے پر گیا تها ۔
اس وقت شاه رحمان کا مقبره صرف ایک کچی قبر ہوتا تها جس کے گرد جهاڑیوں کی ایک مضبوط باڑ بنائی گئی تهی ـ
ملنگوں کا جمگٹا لگا رہتا تها ـ
ان ملنگوں کے لاکھ نظر رکھنے کے باوجود ایک سرکش گدھے نے اس قبر پر پيشاب کر کے ھینکنا شروع کردیا تھا ۔
اس قبر کے پجاری منلگ دئے جلائے بیٹھے تھے.۔
گدھے کے پیشاب کی واردات کے بعد اندھی چلنی شروع ہو گئی
اور سب ملنگ لوگ جو موم بتیاں اور دئے جلا کر بیٹھے تھے کہ بھڑی (اس دن کے طوفان کو بھڑی ہی کہتے ہیں) میں یہ بتیاں بجهنے نہیں دیں گے ـ
انفھی اور طوفان فوراَ ہی شروع ہو گیا تھا۔
۔ ملنگ موم بتیاں جلا جلا کر ہار گئے تھے
یہ باتیں چاچے مالک کی بتائی ہو ہیں ۔
اور
مجھے یاد ہے کہ بچپن میں جب ایک بندے نے مجھے پہلی دفعہ کہا تھا کہ
تم لوگ تو رحمانی ہوتے ہو ناں ؟؟
تو میں نے کہا که نہیں ، تم ایسا کیوں کہ رہے پو ؟
تو اس نے بتایا کہ
کمہار لوگ شاه رحمے کو مانتے ہیں
اس لیے
اس بات کی روشنی میں دیکهیں تو بات اس طرح سے بنتی ہے که گدھے صرف کمہاروں کے ہی ہوتے تهے اور ہر سال شاھ رحمے کی قبر پر پیشاب کرنے والا گدها بهی کسی نه کسی کمهار کا هی هوتا تها ـ
جس کی وجہ سے اس کمہار کی شامت آجایا کرتی ہو گی ـ
ان دنوں علاقے کے سارے ہی کمہار اپنے اپنے گدھوں کی نگرانی سخت کر دیا کرتے ہوں گے مگر انسان غلطی کا پتلا ہوتا ہے
کسی نہ کسی سے کوئی کمی ره جاتی ہو گی اور پهر ہر سال کی طرح گدها اپنا کام دیکها جاتا ہو گا ۔
اب کمہاروں نے اپنی شامت سے بچنے کے لیے یہ بہانا بنانا شروع کردیا ہو گا کہ
جی ہم تو بابے رحمے کو ماننے والے ہیں یه گدها ہی سراسر قصور وار ہے
بابے رحمے کے ماننے کے دعوے دار رحمانی کہلوانے لگے ـ
پرانے زمانے میں رحمانی کہلوانا صرف اور صرف بابے رحمے کے ماننے والے توہم پرست لوگوں سے جان چهڑوانے كا بہانا تها ـ
لیكن آہستہ آہستہ یہ رواج بنتا گیا اور خود کمهاروں نے بهی اس کا برا نہیں منایا اس لیے بهی
یه لفظ زمانے میں رائج ہو گیا ہو گا ـ
مشینی ویٹ تهریشر کے آنے سے پہلے یعنی ستّر کی دهائی تک لوگ آپنے گندم کی فصل کو کاٹ کر ڈهیروں کی شکل میں محفوظ کر لیا کرتے تهے ـ جن ڈهیروں کو علاقائی زبان میں کهلاڑے کہتے تهے ـ
اور شاه رحمان کی بهڑی والےطوفان کے گذرنےکا انتظار کیا کرتے تهے کہ اس طوفان میں فصل خراب نہ ہو جائے۔
آج سے پچاس سال پہلے سے لے کر بیس سال پہلے تک ہم کمہاروں میں تعلیم کی بہت ہی کمی پائی جاتی تهی ـ
ان دنوں بہت سے غیر ہنر مند لوگ (کشمیری ھاتو)گدھوں پر باربرداری کام کرکے کمہاروں میں شامل ہو چکے تهےـ
ان کشمیریوں نے خاص طور پر رحمانی بننے کو ترجیع دی کہ اس طرح ان کو پنجاب میں مکس اپ ہونے میں اسانی ہو گی
نوے کی دہائی تک پہنچتے پہنچتے یه کشمیری هاتو کمہاروں سے نکل نکل کر بٹ بننے میں کامیاب ہو گئے
که بہت سے بٹ ایک دوسرے کو کہتے ہیں کہ
یه کمهاروں سے بٹ ہوا ہے ،۔
لیکن اصلی میں یه کشمیری لوگ ہی تھے جو ابھی تک فیصله نهیں کر سکے تھے کہ پاکستان بننے کے بعد کیا گوت اپنائیں
اس وقت گوجراوالہ کی سرامک کی انڈسٹری میں بڑے بڑے نام جو ہیں یہ ان لوگوں کے ہیں جو کشمیری سے کمہار بنے تھے اور بعد میں کمہاروں والے کام ( مٹی کو آگ سے جلا کر برتن بنانا) کو سرامک انڈسٹری کا نام دے کر
لون ، بٹ اور ڈار وغیره بن گئے
ان دنوں کامونکے کے کمہاروں نے پہلے پہل خود کو رحمانی کہلوانا شروع کیا تها ـ
کامونکے کے کمہار مالی طور پر کافی مضبوط لوگ ہیں ـ
اس کے بعد تلونڈی موسے خان کے کمہاروں میں سے راقم کے نانکے جو کہ کھوکھر ہی ہیں انہوں نے رحمانی کہلوانا شروع کیا تھا ،۔
انیس سو اسی کی دہائی میں بسوں کی باڈیوں کی تعمیر میں رحمانی بس بلڈرز کا نام پاکستان میں تیسرے بڑے بس باڈی بلڈر کے طور پر اتا تھا ،م۔
یہ رحمانی، راقم کے ماماں کے چچا ذاد ہیں ،۔
غالباَ ان میں سے کوئی شاه رحمان کا ماننے والا تها جس کو لوگ رحمانی کہتے تهے ـ
کچھ اس لفظ رحمانی میں کمیار کی نسبت نرمی بهی پائی جاتی ہے اس لیے ان کامونکے کے کمہاروں نے دوسرے کمہاروں کو جن کو کمہار کہلوانے میں ہتک محسوس هوتی تهی ان کو رحمانی کہلوانے کا راستہ ملا ۔
اس بات میں کوئی شک نہیں که پہلے پہل کمهاروں میں رحمانی کہلوانے والے لوگ گوجرانوالہ کے ہی ہیں ـ
لیکن ہم کمہاروں میں بھی برصغیر کی دوسری ذاتوں کی طرح گوتیں ہوا کرتی تھیں
جو که کم علمی کی وجہ سے معدوم ہوتی جا رہی ہیں ،۔
خود ہماری گوت کھوکھر ہے ،۔
اور ہمارے رشتے داروں میں جالب ، پینج ، چہل ، بھی گوتوں کے کمہار بھی ہیں ،۔
2 تبصرے:
Jo tafseel aap nay bataai hay us say to Shah Rahman koi matoob zada shakhsiat mahsoos howay,
Hamaray khayal main to aisi shkhsiat kay naam ka lahiqa laganay say kaheen bahtar or ba izat hay khod ko kumhar kahalwana,
Yaaar kuch khokharon k baray mein bhi likhoo...
mein b khokhar hun per hum apnay aap ko malik khokhar kehtay hein...
ایک تبصرہ شائع کریں