نئےالفاظ
اس دفعه پاکستان آنے کے بعد دو نئےالفاظ سنے هیں،آپنی بولی میں !!ـ
جو ان دنوں پاکستان میں رائج لینگویج میں بولے جاتے هیں ـ
جنڈو وام اور کھپراـ
جنڈو وام کالفظ نشئیی کے لئے عموماً اور چرسی کے لئیے خصوصاَ بولا جاتا هے ـ
دوسرا لفظ کهپرا ایک قسم کی سنڈی هے جو چاول کو لگ جاتی هے ـ نسلوں سے چاول کا کاروبار کرنے والے کمہاروں کو اس سنڈی نے پریشان کر دیا هے که اس کا کوئی تریاق هی نہیں ہے ـ
کهپرانام کی یه سنڈی چاول جیسے پتلے اور باریک اناج میں بهی سوراخ کر دیتی هےـ
یه سنڈی همارے ماحول میں ایک نئی آمد ہے ـ
پنجاب میں اناج کو لگنے والے کسی بهی کیڑے کو میرے لوگ جانتے هیں اوران کا تریاق بهی که هماره کاروبار هی اناج کا رہا هے پرانوں سے ـ
میرے آپنوں کے بقول یه کهپرا آیا هے امریکه سے ـ
ان چٹے ان پڑه لوگوں کو یه سبق کس نے پڑهایا ہے ؟ که امریکه بیالوجی میں اتنا ترقی یافته ہے که زہریلی دواؤں سے بهی نه مرنے والے کیڑے تیار کر لیتا هے؟؟ ـ
عوام میں عام تاثر پایا جاتا هے که کپاس پر آنے والی سنڈیاں بهی امریکه کا تحفه هیں ـ
جب پاکستانی عوام اس کهپرا سے اچهے خاصے تنگ پڑ جائیں کے تو امریکه همیں اس کهپرا کو مارنے والی مہنگی دوائیاں بیچے گا جن سے کهپرا مر جایا کرے گا مگر ختم نہیں هو گا ـ
اور بش صاحب حیرانی کا اظہار کیا کریں گے که لوگ امریکه سے نفرت کیوں کرتے هیں ـ
جنڈو وام
ایک نسل پہلے تک تلونڈی میں نشئی لوگ معاشرے سے کٹے هوئے هوتے تهےـ
تلونڈی اور نواحی دیہات کے سارے بهنگی اور چرسی لوگ تلونڈی کے قبرستان میں سائیں غفور کے پاس بیٹها کرتے تهے ـ
قبرستان میں بهنگ اگائی جاتی تهی مگر اس کے کهیت کی وٹیں نہیں بنائی جاتی تهیں که بهنگ اگانا جرم هے اس لئیے بهنگ کے کهیت کو کهیت جیسا نظر نہیں آنا چاهئیےـ
کوٹنے لگا کرتے تهے سردائیاں بنائی جاتی تهیں ـ
چرس کے سوٹے لگا کرتے تهےـ
اور سائیں غفور کا یه ڈیره هوتا تها تلونڈی کے پرائمری سکول کے قلب میں ـ
مگر اس ڈیرے کی بهی روایات تهیں که کسی بچے کو یه نشئی لوگ آپنے پاس کهڑا نهیں هونے دیتے تهے ـ
سائیں غفور سائیں سلوکی منظور مرزائی تحصیلدار موچی اور کئی دوسرے همیں سختی سے بچوں کو جهڑک دیاکرتے تهے ـ
اور سارے گاؤں کا ماحول ایسا تها که اس ڈیرے کے لوگوں کو حقیر سمجها جاتا تها ـ
چرسی کے لفظ سے ایک ہتک کا احساس پیدا هوتا تها ـ
کودے میراثی کا چهوٹا بهائی، پنّو مراثی ہیروئن کی اوور ڈوذ سے قصائیوں کے برف والے پهٹے پر مر گیا تها ـ
کودے کی بیوی کیجو اس کی لاش کو کمہاروں کے ریڑے پر لاد کر روتی هوئی جا رهے تهی ـ
که نیامت نائی نے اس کو کهڑا کرکے اونچی آواز میں کہا تها که اس کے مرنے پر رونا عین گناه هے
بلکه تم کو خوشی کرنی چاهئیے که خود مرنا چاهتا تها اس کی مرنے کی کوششوں کا سارا گاؤں گواه هے ـ
خود
اسی نیامت نائی کا ایک بیٹا جنڈو وام هو گیا تها اور چرس کے سوٹے کا جنڈو وام ـ
وه لڑکا اب کہیں فوج میں چلا گیا هے ، بقول نیامت نائی کےاس کا مُنڈا هوائی جہازوں کو گریس دینے کے کام پر لگ گیا ہے ـ
ایک دن اس لڑکے کا فون آیا تو نیامت نائی نے اس کو کہا که پُتر پنڈ میں تم سوا من چرس پی چکے هو اب بهی تم شوق سے پی سکتے میری طرف سے کوئی پابندی نہیں مگر میرے پاس گاؤں نه آنا وهیں کہیں مر کهپ جاناـ
کچھ اس طرح کا رویه هوتا تھا نشئی لوگوں سے، تلونڈی کے لوگوں کا
ایسے ماحول والے گاؤں میں آج بہت سے نشئی پیدا ہو چکے هیں ـ
ایک دن منیرا گجر همارے دروازے پر آکر بیٹھ گیا که میں نےخاور کو ملنا هے ـ مجهے ننهے نے آ کر بتایا که منیرا گجر آیا ہے ـ پچاس روپے کا خرچا ہے ـ بیٹھک میں نہیں بیٹھانا هے که منیرا گجر معتبر نہیں رها هے ـ
منیرا گجر خاصا معقول آدمی هوا کرتا تها ـ نشے نے اس آدمی کو ختم کردیا هے اب منیرا گجر نیم پاگل گاؤں میں پهر رها هوتا ہےـ
یه وهی منیر گجر هے جس نے خاور کی بیٹریاں والی دوکان میں خاور کے جاپان انے کے بعد
کتے کی قبر بنا کر روحانیت کی دوکانداری کرنے والے ایک چرسی بابے کی دوکانداری ختم کی تھی
کچھ وقت منیر تلونڈی کا ڈاکخانہ بھی چلاتا رها هے
میڈیکل سٹور اور مبھائی کی دوکان کرنے کا تجربه رکھنے والا
اج ایک کملا بنا هوا هے
اکرم جولاه
بیٹا ہے مولوی اشرف صاحب کا ـ
مولوی صاحب کے چھ بیٹے هیں اور لڑکی نہیں هے ـ
اس لئیے مولوی صاحب کو آپنی مردانگی کا بڑا مان تها ـ مولوی اشرف کا کھر همارے گهروں کے درمیان تها ـ مولوی صاحب برملا کہا کرتے تھے که گدهے لوگوں کے درمیان پهنس گیا هوں ـ
جی هاں مولوی صاحب میرے خاندان کو یعنی کمہاروں کو گدھے کہا کرتے تھے
یعنی که اتنی بھی عقل نہیں تھی که
کمہار اور کدھے کا فرق کرسکیں
اور میری برادری کا رویه ان کی عزّت افزائی والا هی هوتا تها که همارے مولوی صاحب هیں ـ
مولوی صاحب کا رویه کمہاروں کے ساتھ ہتّک آمیز هی رها هے ـ
اسلئیے کمہاروں نے ان کو اغنور(نظرانداز) کرنا شروع کردیا تھا ـ
ایک دفعه طافو ڈبے نے ان کے بیٹے اکرم کو بہت مارا تهاـ
جب طافو ڈبه اکرم کو مار رها تها تو مولوی صاحب بھی کهڑے تهے اور بہت سے کمہار بهی لیکن کسی نے بهی طافو کا هاتھ نہیں روکا تھا که مولوی صاحب کے رویے کی وجه سے کمہاروں کا بهی ذہن بن چکا تها که
سانوں کی!!ـ
سوڈے واٹر کی بوتل سے مار مار کر طافو نے اکرم کو اده موّا کردیاتها ـ
مولوی صاحب نے روتے هوئے پکارا که کوئی بچاؤ میرے بیٹے کو !ـ
تو کمہار مدد کو بڑهے اور طافو بهاگ گیا کیونکه طافو ڈبه کمہاروں سے کئی دفعه مار کها چکا تها ـ
مجهے یاد ہے که ایک دفعه چاچے یونس سے لڑائی میں طافو سائیکل چهوڑ کر بهاگا تها ـ
روحانیت کے علمدار مولوی اشرف صاحب مشرک آدمی تهے ـ
غیر اللّه کے نام کی نذر نیاز اور غیراللّه کے نام کی محفلیں عام سی بات تهی ـ
پچهلے دنوں مولوی صاحب فوت هو گئے هیں ـ مرنے سے پہلے ان کی شکل بگڑ گئی تهی که ان کے بیٹوں نے کسی کو ان منه نہیں دیکهنے دیا ـ
مگر ان کے بیٹوں نے ان کو جامع مسجد کے صحن میں دفنانے کی کوشش کی جس کو بیری والیے جاٹوں نے نہیں هونے دیا ـ
کیونکه یه مسجد بیری والے کهوه کی زمینوں میں بنائی تهی مولوی اشرف صاحب نے ـ
ان مولوی صاحب کا بیٹا اکرم جولاه چرس کے سوٹے لگاتا هے اور روحانیت کے نعرے لگاتا ہے ـ
باپ کی خانقاه تو بیری والیے جاٹوں کی عقلمندی نے بننے نہیں دی
مگر
اکرم جولاه چرس کی مہربانی سے مجذوب بن چکا هےـ
اورتلونڈی کے عام لوگوں کی نظر میں جنڈووام ـ
1 تبصرہ:
سلام
تو یعنی آپ ڈشو ڈشو کے مزے لے رہے ہیں۔
ویسے کہیں تو آپکو جٹ عقلمند نظر آئے۔ نہین تو آپ ان کے پیچھے لٹح لے کر پڑے رہتے ہیں۔
ویسے حاجی ننھا کے ساتھ رحمانی کیوں نہیں لگا ہوا؟
آپ اکثر آپریشن جبرالٹر کی بات کرتے ہیں۔ اکتوبر کے اردو ڈائجسٹ میں اس حوالے سے ایک تحریر سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ امید ہے آپ پہلی فرصت میں خرید کر پڑھیں گے اور اپنی رائے سے نوازے گے۔
ایک تبصرہ شائع کریں