اتوار، 15 اکتوبر، 2006

ٹله جوگیاں

اس وقت میں آپنے پنڈ(گاؤں) میں ہوں ـ
هم لوگ تلونڈی کو کہتے تو پنڈ هیں مگر یه اتنابهی پنڈ نہیں هےـ اچھاخاصا قصبه هے ـ جو که گوجرانواله کے ضلع آفس سے صرف پانچ کلومیٹر کے فاصلے په ہے ـ
بڑے شہروں میں رہنے والے لوکاں(لوگ) کو''پچھوں کتهوں دے او'' کاسوال پوچهنے کا رواج انگریزی میں بهی هے اور جاپانی میں بهی هےـ
اور عموماَاس سوال کا جواب کوئی نه کوئی پنڈ هی هوتا هے ـ
اس لئيے همیں بهی اپنے پنڈ پر فخر هے اور اس کی باتاں (باتیں)چنگی (اچهی)لگتی هیں ـ
مگر آپنے پنڈ میں هوتے هوئے انٹر نیٹ تک رسائی خاصا مشکل کام هے ـ
آپنے گھر سے اگر انٹرنیٹ په ایکسیس لیتا هوں تو سپیڈ اتنی سست هوتی هے که یاهو کے میل بکس سے ایک میل پڑهنےپه بهی پندره منٹ لگ جاتے هیں ـ
ایکسچینج والوں سے تار کے بدلنے کا کہا هے تو ان کا جواب هے که ہمارے گهر کے کنکشن والی ڈی پی او(مجهے نہیں پته یه کس چیز کا مخفف ہے) پرانی هو کر زنگ زده هو چکی هے اور اس زنگ کی لیکج شائد ڈیٹا کی ترسیل پر اثر انداز هو رہي هے ـ
اور اس زنگ زده ڈی پی او کو کهولنا بڑے مسئلے کا باعث بنے گا ـ
گوجرانواله کے مشرقی سائیڈ کی کتنی هي ایکسچینجوں پر سپر وائزر هیں آپنے ناصر کهوکهر صاحب ـ مگر یه ناصر کھوکھر صاحب بهی انتہائی شریف بندے هیں ان کی فیملی کے متعلق علاقے میں مشہور تها که کسی کو دهمکی بهی دے رہے هوں ایسے لگتا هے که مشوره دے رہے هیں ـ
اب آپ هی بتائیں ایسے شریف افسر کو لوگ کیسے لیتے هیں ؟
بہرحال میں نے ناصر کو پیغام بهیجا هے که مجهے ملیں اور میں ان کے ساتھ ایکسچینج چلتا هوں ـ
کل میں نے اپنے بهائی غلام مرتضی عرف حاجی ننها کے گودام نما دفتر والے فون سے انٹر نیٹ ایکسیس لیا تها تو یہاں په سپیڈ معقول هی تهي اس لئیے یه پوسٹ وهیں سے اپ لوڈ کروں گا ـ

اس سال ہمارے گاؤں میں گھروں میں چیونٹے نکل آئے هیں ـ چیونٹی کا یه بڑا سا ماڈل هوتا هے ـ
پنجابی میں چیونٹی کو کیڑی کہتے هیں چیونٹے کو کیڑا حالنکه یه چیونٹی کا نر نہیں هے ـ
هر گھر میں درجنوں کے حساب سے آزادی سے گهوم رهے هیں ـ
اور لوگ کہـ رہے هیں که یه اس سال هي نکلے هیں ـ
اس کے علاوه نیم کے پودے بهی ادهر اُدهر اُگ آئے هیں ـ
نیم اور شرینہ کے درخت تقریباَهمارے علاقے میں ناپید هو چکے هیں ـ
شرینه کے درخت کو اردو میں کیا کہتے هیں مجهے معلوم نہیں ـ اس درخت کے پتے جس گهر میں بیٹا پیدا هوتا هے ہمارے علاقے میں اس کے دروازے پر باندهے جاتے هیں ـ
طبعی معاملات میں بهی استعمال هوتے هیں مگر مجهے اب یاد نہیں که کہاں ـ
یه شرینه تو اب بهی مشکل سے هي ملتا هے مگر نیم اس سال قدرت نے پهر عطا کي هےمگر بد اندیش لوگ اس کي قدر کم هي کر رہے هیں ـ
کل میں نے آپنے گودام کے صحن میں مرغیوں کا کچلا هوا ایک پورا دیکها تو میں نے ننهے سے پوچها که یه کس چیز کا پودا مرغیوں نے کچلا هے تو ننهے نے بتایا که اس سال نیم نے پودے بہت اُگ آئے تهے ـ
مجهے اس پودے کے کچلے جانے کا دکھ ہواـ
میں نے ننهے سے کہا که تمہیں پته هے ناں که نیم کے پتے چهال اور نمکولي میں قدرت نےشفاء رکهی هے
اور یه نیم جو که اب تقریباَ ناپید هو چکی هے قدرت نے تمہیں دوباره دی ہے اور اس کی حفاظت سے اگر غافل هو جاتے هو تو نامعلوم کتنے هي سالوں تک یه دوباره نه اُگے؟
ننهے نے بتایا که وه کتنے سال سے ایک نیم کے درخت کی حفاظت کر رها هےجو همارے جانورں والي جگه میں کچھ سال پہلے اُگ آیاتها ـ
نیم کے اس چهوٹے سے پودے سے بہت لوگ پتے لینے آتے هیں ـ
اللّه هماری قوم کو درختوں کي حفاظت کرنے کا شعور عطاء فرمائے ـ آمین!ـ

بی بی سی په ایک رپورٹ شائع ہوئي هے ـ
جہلم کے قریب واقع جوگیوں کے ٹلے کی ـ
میرے خیال میں صاحب مضمون نے کسی غیر ملکی کی تحقیق کا صرف ترجمه کر دیا هے اور خود سے کچھ نهیں سوچا ـ
جاپان میں جس زمیں میں چاول بویا جاتا هے وهاں دوسری کوئی فصل نہیں اُگتی اگلے سال پهر چاول هي بویا جاتا هے ـ
لیکن ایک تهوڑا سا علاقه ایسا بهی هے که وهاں چاول کی کٹائی کے بعد گندم بُو دی جاتی هےاور پهر چاول بهی ـ جاپان میں اس علاقے کا ذکر کیاجاتا هے که بڑی بات هے اس زمیں کي ایسي زمین جاپان میں اور کہیں نہیں ـ
ایک دفعه میں نے اخبار جہان میں ایک رپورٹ جاپان کے اس علاقے کے متعلق پڑهی تهی جس میں اس علاقے کی زمین کی اس خصوصیت کا ذکر کرکے یه لکها تها که چاول کے علاوه بهی فصل دینے والی ایسی زمین دنیا میں صرف یہیں هے ـ
اخبار جہان کے اس لکهاری کو گوجرانواله اور سیالکوٹ کی زمینوں کا علم نہیں تها ـ
اسی طرح بی بی سي کے لکهاری کو ہیر وارث شاه کا معلوم نہیں هےـ
لکهتے هیں ـ
ٹلہ پنجابی میں پہاڑی کو کہتے ہیں اور مذکورہ پہاڑ تاریخ میں ٹلہ جوگیاں، ٹلہ گورکناتھ یا ٹلہ بالناتھ بھی کہلاتا رہا ہے۔گو کہ گرو گورکناتھ کا ذکر توہمیں تاریخ اور روایت دونوں میں ملتا ہے لیکن مالناتھ کا کچھ معلوم نہیں کہ وہ کون تھا اور کس زمانے میں گزرا۔

بالناتھ ایک بڑا جوگی تھا جس کا زمانہ ایک انگریز مؤرخ کا خیال تھا کہ پندرھویں صدی عیسوی تھا۔اسی بالناتھ نے خانقاہ قائم کی اوراسی کی وجہ سے یہ ٹلہ بالناتھ کہلائی۔

لیکن یہ قیاس غلط لگتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ابوالفضل کا اکبرنامہ بتاتا ہے کہ بادشاہ اکبر کے زمانے، یعنی سولہویں صدی میں بھی ٹلہ بالناتھ کو اتنا قدیم سمجھا جاتا تھا کہ اس کے آغاز کا کسی کو علم نہیں تھا۔ یہ تو طے ہے کہ برصغیر کے ’کن پھٹے‘ یا وہ جوگی جو اپنے کان چھدوا کر ان میں ہالےڈالتے ہیں کا بانی مانتے ہیں، گرو گوکناتھ کو ہی اپنا مرشد اور اور اپنے فرقہ اور یہ فرقہ پندرہوں صدی سے کہیں پہلے سے وجود میں ہے۔ بالناتھ کے بارے میں یہ گمان گزرتا ہے کہ وہ گورکناتھ کے بعد نامی گرامی گرو گزرے۔

بی بی سی کے ان صاحب نے آکر ہیر وارث شاه پڑهی هوتی تو ان کو معلوم هوتا که رانجهےنے ٹله جوکیاں پر جا کر بالناتھ جوگی سے جوگ لی تهی اور کان پهڑوائے تهے ـ
رانجهے اور بالناتھ کی باتیں پنجابی شاعری کا سرمایا هیں ـ
مجهے اس بحث کا صرف ایک شعر یاد آرها هے ـ
جو که بالناتھ نےرانجهے سے کہا تهاـ
میں نے چاچے بالے(محمد اقبال کمیار) سے هیر وارث شاه کی کتاب مانگی هے ـ اگلی پوسٹ میں اور بهی شعر نقل کروں گا
شعر هے
وارث شاه نه پتر فقیر هوندےـ
جٹاں موچیاں تیلیاں دے ـ

بی بی سی کي تحریر کا لنک

2 تبصرے:

افتخار اجمل بھوپال کہا...

اگر پودے واقعی نيم کے ہيں تريک يا دريک کے نہيں تو ان کی جان توڑ حفاظت کريں يہ پودہ ناپيد ہوتا جا رہا ہے ۔ نيم بہت خوبيوں والا پودا ہے ۔ گھر کے اردگرد اُگا ديں تو گھر کہ اندر مچھر کم ہو جائيں گے ۔ اس کے پتے سکھا کر چاولوں يا اُونی کپڑوں ميں رکھ ديں تو کيڑا نہيں لگتا ۔ نيم کی مسوراک دانتوں کی کئی بيماريوں کيلئے مفيد ہے ۔ اس کے علاوہ بھی نيم کئی دواؤں ميں استعمال ہوتی ہے ۔ ميں پچھلے دس سال سے اسلام آباد ميں نيم کا پودا ڈھونڈ رہا ہوں يہاں تريک کو نيم کہتے ہيں اور نيم کا کسی کو پتہ نہيں ۔ ويسے تريک بھی اب يہاں نظر نہيں آتی ۔

خاور کھوکھر کہا...

جناب اجمل صاحب یه درخت واقعی نیم هے ـ
هم پینڈو لوک هیں همیں تو دهریک اور بکائین کے فرق کا بهی معلوم هے ـ
بکائین دهریک کی هی ایک قسم هے ـ
جس کی ٹہنیاں پتلی اور گهنی هوتی هیں ـ

Popular Posts