پولیو کہ ایک لاعلاج بیماری
خیری مصطفٰے |
اس کو پولیو کی جو داوئیاں معاشرے نے دینے کا تعین کیا ہوا ہے ، وہ سب روٹین کے مطابق دی گئیں
خیری جب گھٹنوں کے بل چلنے لگا تو عموماً ایک گھٹنا اور ایک پاؤں کے پنجے کو زمین پر لگا کر چلتا
جو کہ خلاف معمول بات تھی ، گھنوں کے بل چلنے والے بچے دونوں گھٹنے اور ہاتوں کے بل چلتے ہیں
ایک گھٹنے اور پاؤں کے بل چلنا پولیو کی نشانی ہوتی ہے
کہ بچے کی ایک ٹانگ کی پرورش بند ہو جاتی ہے
جی کی وجہ سے بچے کو گھٹنوں کے بل چلنے میں درکار توازن نہیں ملتا جس کی وجہ سے وہ توازن بنانے کے لئے ایک ٹانگ جس کو کہ پولیو ہوتا ہے اس کے گھٹنے کو اٹھا کر پاؤں کو نیچے لگا کر چلتا ہے
خیری کی ماں نے خیری کی چلنے پر بڑا دھیان دینا شروع کیا
اور یہ بات نوٹ کی کہ خیری کبھی تو دونوں گھٹنوں ہی کے بل چلتا ہے اور کبھی ایک گھٹنا اٹھا کر
لیکن یہ بات ہے ضرور کی دن میں کچھ وقت خیری عام بچوں کی طرح نہیں چلتا
جس کے لئے والدین نے ڈاکٹر کو دیکھایا
ڈاکٹر نے دیکھنے کے بعد کہا کہ اصلی بات تو ٹیسٹوں کے بعد ہی ثابت ہو گی لیکن بچے کے اس چلنے کے انداز سے پولویو کا خدشہ ہے
خیری کا باپ جو کہ ایک غیر جاپانی ہے
اس نے ڈاکٹر سے سوال کیا کہ اگر ابھی اسی سٹیج پر علم ہو جائے کہ بچے کو پولیو ہے
تو
کیا اس کا علاج ممکن ہے
جس کے جواب میں ڈاکٹر نے بتایا کہ اگر پولیو کا حملہ ہو چکا ہے
تو
اب اس کا کوئی علاج نہیں ہے
خیری کو ساری زندگی ایک معذور ہی کی طرح گزارنی پڑے گی
خیری کے پولیو کے ٹیسٹ ایک ہی ہسپتال میں ممکن نہیں تھے
ایک ٹیسٹ تھا جس میں کہ ٹانگ پر ہلکی چوٹیں لگا کر اس بات کا اندازہ کیا جاتا ہے کہ بچے کو کتنا احساس ہو رہا ہے
اس احساس کے ہونے اور ناں ہونے سے پولیو کے ہونے یا نہ ہونے کا اندزہ لگایا جاتا ہے
اس ٹیسٹ میں خیری کئ محسوس کرنے کی صلاحیت معمعل کے مطابق تھی
لیکن ڈاکٹر نے کوئی بات بھی یقین سے نہ باتاتے ہوئے دوسرے ٹیست کا بھی کہا۔
ان سب ٹیسٹوں کے ہونے اور نتایج کے علم ہونے تک کئی دن لگ گئے
جس کے دوران والدین کو بجے کے بھیانک مستقبل کا خوف بھی ستا رہا تھا
ڈاکٹروں کے مطابق جاپان میں پولیو سے بچاؤ کے ٹکے اسی لئے لگائے جاتے ہیں کہ پولیو کا حملہ ناں ہو
لیکن اگر یہ نامراد بیماری لگ جائے تو
جدید میڈیکل سائینس کے پاس اس بیماری کا علاج نہیں ہے
جاپان جیسے منظم اور ترقی یافتہ معاشرے میں مستقل ورزشوں اور مساج کی ٹریٹمنٹ سے ٹانگ کو بلکل ہی سوکھنے سے تو بچایا جا سکتا ہے لیکن
اس بیماری پولیو کا علاج کوئی نہیں ہے
خیری کا اگلا ٹیسٹ تھا جس میں کہ اعصاب اور خون کی رگوں میں سے بجلی گزار کر اس بجلی کی رفتار ماپی جاتی ہے
کہ
اعصاب اور خون میں سے کزرنے والی بجلی کی رو میں کوئی فرق رو نہیں ہے
یہ فرق سیکنڈ کے ہزارویں حصے یا اس سے بھی زیادہ کم وقت ہو سکتا ہے
اس ٹیسٹ میں خیری کو پولیو بیماری سے محفوظ پایا گیا
خیری جس کو کہ
پولیو اور دیگر بیماریوں کے ٹیلے لگ چکے تھے
اس کے والدیں کو اس کے باوجود خیری کو پولیو کا خطرہ محسوس ہوا
تو غیر ترقی یافتہ ممالک میں جن بچوں کو یہ ٹیکے اور قطرے میسر نہیں ہیں ان کا کیا حال ہو تا ہو گا
اب جب کہ خیری دو سال اور دو ماہ کا ہو گیا ہے
اور صحت مند بچوں کی طرح اچھل کود کرتا ہے تو اس کے پیچھے
اللّٰہ تعالی کی مہربانی کے ساتھ ساتھ
حفظ ماتقدم کے طور پر لگوائے ہوئے ٹیکوں کا بھی ایک کردار ہے
اس اپنے بچوں کو صحت مند مستقبل دیں تاکہ وہ محنت مزدوری کر کے اپ کے بڑہاپے کا سہارا بنیں
اور ان کو پولیو کے ٹیکے ضرور لگوائیں
کہ اگر یہ نامراد بیماری لگ گئی تو اس کا علاج امریکہ اور جاپان میں بھی نہیں ہے
3 تبصرے:
ارے بھتیجو، تو نے بڑا پریشان کیا تھا اپنی امی اور ابو کو بچپن میں۔ ماشاء اللہ اب تو ٹھیک ہو اور اللہ پاک تمہیں ہمیشہ خوش و خرم رکھے آمین
سلام خاور بھائی کافی عرصے بعد نظر آئے ہیں۔
تحریر پڑھی لی، نیچے لکھا تھا، بقلم خود خاور کھوکھر
لیکن لگتا نہیں کہ آپ نے لکھا ہے۔وجہ پوچھیں گے تو بتاونگا۔
قادری پر آپ کاموقف یاردعمل سامنے نہیں آیا۔
,your work is nice...plz join
www.urdufanz.com
ایک تبصرہ شائع کریں