انشاء اللہ
پاکستان کا ماحول کچھ اس طرح کا ہے کہ
جو کسی کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا
اس کی کوئی عزت نہیں ہے
اس لئے معاشرے میں عزت کے لئے
مخصوص ذہنیت کے لوگ
کچھ لوگوں کے چمچے بن کر اور کچھ لوگوں کو چمچہ بنا کر معاشرے میں معتبر بنے بیٹھے ہیں
لیکن ابھی بہت سے لوگ ہیں جو کہ برابری کی بنیاد پر تعلقات کو ترجیع دیتے ہیں
اور یہ لوگ معاشرے میں بے اثر سے بن کے رہ گئے ہیں
جتنے کم ظرف تھے ان کو عزت ملی
جتنے چور تھے ، معتبر ہو گئے
اور ہم جیسے لوگ عزت بچا کر کونے لگے ہیں
بلاگ لکھنے والوں کی اکثریت ان لوگوں کی ہے جو برابری کی بنیاد پر تعلقات کی نفسیات والے ہیں
کہ میں اب تک جن بلاگروں سے ملا ہوں میں نے ان سے مل کر یہ بات بہت محسوس کی کہ یہ لوگ مجھے اپنے جیسا سمجھ کر اور اپنا سمجھ کر بات کر رہے ہیں
لیکن معاشرے کا اثر تو ہوتا ہے ناں جی
کہ کوئلے کی کان میں کالک سے بچت مشکل کام ہے
اس لئے میں دیکھتا ہوں کہ کبھی کبھی کوئی کمزور سی اواز بلاگروں میں
اس بات کی بھی اٹھتی ہے کہ
ماس (تھوک )میڈیا بلاگروں کو کوریج نہیں دیتا
تھوک کے بیوپاریوں کی نفسیات ہوتی ہے کہ پیداوار کرنے والوں کو کم تر درجے میں رکھیں
کہ مال کی ترسیل میں کمی ناں آئے
میڈیا کے بڑے بڑے نام تھوک کے بیوپاری ہیں اور
ہم بلاگر وہ لوگ ہیں جو پیداوار دے رہے ہیں
لیکن
طلب اور رسد
کے نظام میں ابھی ہمارے پیداوار کی طلب نہیں ہے ؟
طلب ہے !!۔
بس تھوڑا انتظار اور
بس کوشش کرنی ہے کہ ہم نے ناں تو کسی کو چمچہ بنانا ہے
اور ناں ہی کسی کا چمچہ بننا ہے
ماس کمیونیکیشن کی طرف بھکاریوں کی طرح منہ کرکے نہیں دیکھنا ہے کہ ہمیں شہرت کی بھیک دو
ہم لوگ کمینوں کے اس دور کے معتبر لوگ ہیں
اقلیت میں ہونے کی وجہ سے دلگیر ضرور ہیں لیکن مایوس ہونے والی کوئی بات نہیں ہے
ہمیں ماس میڈیا کی طرف دیکھنا چھوڑنا ہو گا
بس اپنی دھن میں لکھتے رہنا ہو گا
انے والے زمانوں کے لوگ ہمرا نام لیں گے
انشاء اللہ!!۔
5 تبصرے:
ہر انسان فطری پر کچھ نا کچھ خوشامد پسند ضرور ہوتا ہے۔ برتری جمانے کا شوق کسے نہیں ہوتا، باہر جوتیاں کھانے والا بھی گھر جا کر بیوی پر جوتیاں برسا رہا ہوتا ہے۔
نمود کی خواہش بھی تو کچھ ایسی ہی ہوتی ہے ناں کہ ہمیں بھی کوئی بلاگر صاحب کہہ کر بلائے۔ مجھ جیسا شخص جو دعویٰ تو کرتا ہے کہ اُسکی اواز میں اتنا دم و خم نہیں ہے کاش کوئی اُس کے الفاظ لیکر اونچی آواز میں پڑھ دے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ سُن لیں مگر جب دیکھتا ہے کہ اُس کی آواز اُس کے پلیٹ فارم پر تو چند لوگوں نے سُنی تھی مگر دوسرے کے پلیٹ فارم پر یہی آواز ہزاروں لوگ سُن رہے ہیں تو اُسے آگ لگ جاتی ہے۔ جھوٹا انسان ہے یہ میں، اس کے باطن میں نمود کی تمنا چھپی ہوئی ہے کہیں۔ سالا نمود کیلئے اپنا سب کچھ بیچنا چاہتا ہے، جھوٹا کہیں کا۔
http://www.youtube.com/watch?v=4yZtc0NXKD4
خوب لکھا ہے پا جی ۔۔
خاطر جمع رکھئے
کچھ لوگوں کے چمچے بن کر اور کچھ لوگوں کو چمچہ بنا کر معاشرے میں معتبر بنے بیٹھے ہیں۔۔
کیا خوب لکھا ہے۔
جیسے حسن سنگار کا محتاج نہیں ہوتا شاید ویسے اچھائی کو تشہیر کی ضروت کیا؟ وہ تو خود ہی نظر آ جاتی ہے۔ باقی یہ بھی سچ ہے کہ سنگار حسن کے نکھار میں کچھ اضافہ ضرور کر سکتا ہے۔
ایک تبصرہ شائع کریں