پیر، 14 جنوری، 2013

سوشل میڈیا کی اج کی پوسٹ

قادری کا لانگ مارچ شروع ہو چکا ہے
کوئٹہ میں  پاکستانی لوگ اپنے پیاروں کی میتیں سڑک پر دھرے ، احتجاج کر رہے ہیں۔
ملک میں حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ
ملک کا کوئی بھی ادارہ اپنی ذمہ داریوں کا دس فیصد بھی کام نہیں کر رہا
جو کام قادری نے شروع کیا ہے
یہ بھی اس کی ذمہ داری نہیں تھی ، جس کو پورا کرنے کے نام پر یہ بھی دس فیصد بھی نہیں کرئے گا۔
مٗلک ! اداروں کے مجموعے کا نام ہوتا ہے
جس ملک کا اداروں کا یہ مجموعہ جتنا منظم ہوتا ہے اتنا ہی ملک مضبوط ہوتا ہے
اور پاکستان میں یہ مجموعے کا مجموعہ ہی تباہ ہو چکا ہے
ملک میں لوگوں کو تعلیم دینے کے ادارے نے بھی اسی بات کی تعلیم دی ہے کہ
ملک میں بس ایک ہی ادارہ ہے  جو سارے دکھوں کا مداوا ہے
اور یہ ادارہ ہے فوج
میں دیکھ رہا ہوں کہ فیس بک پر لوگ عجیب سیکم عقلی کی باتیں کر رہے ہیں
کوئیٹہ کی میتوں سے ہمدردی کرنے والوں کو موسم کی شدّت کا زیادہ احساس ہے
لیکن اداروں کی ناکامی کا علم ہی نہیں ہے
اور اس بات کا تو کوئی بھی نہیں لکھ رہا کہ ایسا معاملہ ہو جائے تو اصولی طور پر کس کس ادارے اور ان اداروں میں کس کس اتھارٹی کی کیا ذمہ داری ہوتی ہے نظام میں
دو دن سے تو ماحول ایسا بنایا ہوا ہے فیس بک پر کہ فوج کی کردار بندی  کی جارہی ہے فوج سے امیدیں فوج سے اظہار یک جہتی
فوج کے پاک ہونے کی باتیں
بلکہ ایک ویڈیو میں تو فوجی کی پٹائی دیکھا کر فوج کو مظلوم بنایا جارہا ہے
کنٹرول لائیں پر انڈیا کے ساتھ لڑائی کا معاملہ اچھالا جا رہا ہے
پاکستان میں بتایا گیا کہ ہندو نے حملہ کیا
ہندو کہتا ہے پاکستان نے حملہ کیا
اور ہندو تو یہاں تک کہ رہا ہے کہ ہند کے مرنے والے فوجیوں کی لاشوں کی ہڈیاں بھی ٹوٹی ہوئیں تھیں
بعد از مرگ تشدد۔
پاکستان میں غائب کر دئے جانے والوں کی بھی جب میتیں ملتی ہیں تو
ان کی میتوں کی بھی ہڈیاں ٹوٹی ہوتی ہیں
ایک ہجوم ہے جو کہ اپنی اپنی بے ڈھنگی چال چل رہا ہے
میڈیا کو لگام دینے کی باتیں  ان معاشروں میں ہوتی ہیں جن میں معاشروں میں نقص زیادہ ہوتے ہیں
ورنہ  منظم معاشروں مین میڈیا کے لئے اصول مقرر کر دئے جاتے ہیں
لیکن جہاں ، جس ملک میں کسی بھی ادارے کے کوئی اصول ناں ہوں وہاں اگر کوئی معاملہ ہو جائے تو بس اپنی مظلومیت کا واویلا ہوتا ہے اور دوسروں کے مظالم کا رونا
پاکستان کی ساری قوم کا دماغ کھول کر دیکھ لیں
اس قوم کے پاس کسی بھی چیز کو چلانے کے لئے کوئی اصول وضع نہیں ہے
لیکن  ہنود یہود کی سازشوں کا واویلا کرکے خود کو مظلوم اور امریکہ انڈیا کو ظالم بنانے کی کوشش میں ہیں
یہ فوٹواں دیکھیں کہ ان سے کیا ماحول بن سکتا ہے؟؟
اور یاد رکھیں کہ یہ چیزیں سوشل میڈیا نہیں ہیں
سوشل میڈیا وہ ہو گا
جو کسی بلاگر کا لکھا ہوا
اس بلاگر کے بلاگ پر موجود رہے گا
اور اس لکھے ہوئے کو  فیس بک ، ٹویٹر یا دوسری عوامی دیواروں پر لگایا جائے گا
خود میری اس پوسٹ سے میں میں کیا کہنا چاہ رہا ہوں  اس کا تعین کرنا بھی مشکل ہے
میں کہنا یہ چاہ رہا ہوں کہ
معاملات ایک دو سال سے نہیں بلکہ نصف صدی سے ایسے بنائے جارہے ہیں جو
کہ بات کی سمجھ لگنے والی عقل کی تیاری کے خلاف ہیں
اور ذہنوں کو منتشر کرتے جا رہے ہیں
ان منتشر ذہنوں میں سے ایک میں بھی ہوں جو کہ
اپنے ذہن کی تربیت میں لگا ہوا ہوں

















کوئی تبصرے نہیں:

Popular Posts