بے زمین چیزاں
موسم بن جائے تو بہت سی بوٹیاں اگ آتی هیں ، جن کو عام زبان ميں جڑی بوٹیاں کہتے هیں ، جڑی یعنی جڑ والی بوٹیاں ، یاں پھر کچھ پودے قدرت نے بنائے هی اس طرح کے هیں که ان کے جین میں بقا کا کوڈ ڈال دیا هے
مثلاً ریٹھا!!ـ
کہتے هں که ریٹھے کے بیج کو اگر زمین میں دبے ایک ہزار سال بھی مناسب ماحول نه ملے تو اگنے کا انتطار کرتا ہے، جڑ بڑی ضروری هوتی ہے جی زمین پر اگنے والی چیزوں کے لیے اور اس سے بھی ضرری هوتی ہے جی زمین که اگر زمین هی نہیں هو گی تو اپ کسی چیز کو گملے میں لگا لگا کر کتنی دیر سنبھالتے پھریں گے
اردو کی مثال گملے میں لگائے پودے کی طرح ہے ، جس کو سنبھالنے کے لیے حکومتی سطح پر اردو کو ادارے بنائے جا رهے هیں ، ان کو گرانٹں دی جارهی هیں ، مشاعرے کراوئے جارهے هیں
لیکن پھر بھی اپ کو کہیں ناں کہیں یه پڑھنے کو مل جائے گا که اردو خطرے میں هے ،اردو میں زخیرھ الفاظ کے لیے بحثیں اور مباحثے هو رهے هیں ،
جو الفظ اردو میں نہیں هیں وھ کهاں سے لیے جائیں ؟؟
سنسکرت سے ؟
توبه توبه ، ہندو ، کافر کی بولی سے الفاظ لے کر اردو کلو پلید کرنے کی سازش سی لگتی هے
پنجابی سے لے لیں یا سندھی سے یا بلوچی سے ؟؟
نہیں ان زبانوں کو تسلیم کرنا اسی طرح ہے که غیر ملکی حملہ آوروں کے ساتھ انے والے "جھولی چک" لوگوں کو جو که عظیم فاتحوں کی عظیم اورلاد هیں ان کو عام لوگوں کے لیول پر لے آنا یا ان سے بھی کم کردینا
اردو میں جب بھی لفظ لیا جائے گا حملہ آور فاتحوں کی زبان سے لیا جائے گا
ان دنوں انگریزی سے لیے جاتے هیں ـ
اردو کی زمین کہاں هے ؟\
کراچی اور ہندوستان کا یو پی؟؟
یا کہیں اور بھی اگتی هیں ؟؟
پاکستان ميں سارے هی علاقوں میں گملوں میں لگائی جارهی هے پچھلے ساٹھ سالوں سے !!ـ
ابھی تک زمین میں جڑیں نهیں پکڑ سکی ، اردو کو خطرھ هے !ـ
پچھلی کتنی دھائیوں سے پنجابی کو نظر انداز هی نہیں کیا جارها بلکه پيچھے دھکیلا جارها هے
لیکن؟
پنجابی مر هی نہیں رهی !!ـ
کیوں ؟؟
اس کی ایک زمین هے
اور اس زمین میں پنجابی کی جڑیں بڑی گہری هیں
ایک لفظ هے اردو میں اس کو آئین لکھتے هیں
اس کو پنجابی میں دستور کہتے هیں
هر روز خبر اخبار میں هوتا ہے که آئین کی بے حرمتی ، آئین میں ترامیم . آئین کو پامال اور پته نہیں که آئین کو کیا کیا کیا جاتا ہے لیکن
جمہور کا رویه هوتا ہے سانوں کی!!ـ
لیکن اگر اسی لفظ آئین کو لفظ دستور سے بدل کردیکھیں
اور لکھیں دستور میں تبدیلی کی جارهی هے
هر بندے کے کان کھڑے هو جائیں گے
که تبدیلی
اور دستور میں ؟؟
دستور کی خلاف ورزی هوئی هے
هر بندھ سوچے گا که دستور کی خلاف ورزی کوئی بے دستورا هی کرسکتا ہے
لیکن آئین کے متعلق عام جمہور کا خیال ہو که آئین نامی کوئی گیم هے جو بڑے لوگوں کے کھیلنے کی چیز هے اور یه بڑے لوگ اس ميں ترامیم ، خلاف ورزیاں ، پامالیاں وغیرھ کرتے رہتے هیں
چھ سال کی عمر میں پنجابی منڈا سکول جاتا هے
اور اس کو ماسٹر پڑھاتا ہے
ب برتن
لیکن منڈا تصور دیکھ کر سوچتا ہے
یه تو پانڈے هیں
الف مد آ میم موقوف آم
لیکن منڈا پڑھتا ہے
الف مد آ میم موقوف
آمبھ!!ـ
اور پھر ماسٹر سے مار کھاتا ہے
جتنے بھی سیانے اور امیر معاشرے هیں ان میں دیسی بولیاں چلتی هیں
اور جتنے بھی کنگال معاشرے هیں ، یهاں کنگال سے مراد مالی اور تعلیمی اور تکنیکی اور اخلاقی اور لسانی سبھی طور پر ہے
ان مين بدیسی زبانیں چلتی هیں
جیسا که پاکستان ميں بھی لوکاں کو چاکا تو اردو کا دیا جاتا هے لیکن
زبان انگریزی هی چلتی هے
حالنکه ہر دو زبانیں هی غیر مقامی هیں
آپ اپنی مقامی بولیوں میں محاوروں کا زخیرھ دیکھیں ، ان کو سن کر بندے کو اندر تک سمجھ لگ جاتی هے
مثال کے طور پر ایک محاورھ هوتا ہے پنجابی میں پھپھڑ بننا کسی چیز کا
مثلاً کچھ بلاگر اردو کے پھپھڑ بننے کی کوشش کرتے هیں
پس منظر اس محاورے کا یه هے که پنجاب میں جنوائی کی بڑی عزت هوتی هے انی عزت کے جوائی بھائی کا دماغ خراب کر دینے کی حد تک
اور جنوائی پرانا هو کر پھپھڑ بن جاتا ہے اور اس وقت تک عزت نئے جنوائی کی هوتی هے
لیکن پھپھڑ کو احساس هی نهیں هوتا که وھ اب جنوائی نهیں هے پھپھڑ ہے اور اپنی اہمیت کا احساس دلانے کے لیے ہر چیز میں ٹانگ اڑانے کی کوشش میں هوتا ہے
سارا خاندان بے بے کے چالیسویں پر آلو گوشت گے حق میں هو گا لیکن پھپھڑ کی سوئی بریانی پر اٹک جائے گی
ایک زرا کسی بھیڑ کے بننے کی دیر هے ، کسی بات کے هونے کی دیر هے مقامی زبانیں هی اس زمیں میں پنپنے کی هیں ،
کوئی بھی زبان اپنے جغرافیے کے ساتھ هی هوتی هے
6 تبصرے:
ہاہاہا..
سرجی..
یہ پھپھڑ بازی تو آپ نے خوب لگائی.
سچ پوچھیں تو پنجابی کو واٹ تو پنجابیوں نے ہی لگائی ہے. باقی اگر اردو کی بات کریں تو مجھے تھوڑا اختلاف ہے. اردو بھلے یوپی میں مقبول ہو. لیکن یہ صرف یوپی والوں کی زبان نہیں. یہ زبان شمالی اور شمال مغربی ہندوستان میں پیدا ہوئی. اور یہیں پلی بڑھی. برصغیر کے مسلمانوں کی مشترکہ وراثت ہے. جنوبی ہندوستان کا معاملہ الگ ہے. اردو کا مسلمانان ہند اور ان کی مادری زبانوں سے گہرا گٹھ جوڑ ہے. انگریزی کے مقبول ہونے کے عوامل عالمگیریت میں ہیں. یہاں محض ذہنی غلامی کارفرما نہیں.
اے دسو کہ خاور کنگ پنجابی اچ کیوں نئیں لکھدا؟ اردو کیوں لکھدا اے؟
اے تے گلاں ناں ہوئیاں.
؛)
شاید ہمیں سنجیدگی سے سوچنا پڑے گا۔ ہماری کثیر زبانی معاشرہ جس میں اردو اور مقامی زبانیں ساتھ ساتھ چل رہی تھی اب اس کا توازن تیزی سے ختم ہورہا ہے۔ پنجابی جیسی زبانوں کو دیوار سے لگا کر اردو کو فروغ دیا جارہا ہے۔ ماں باپ بچوں سے پنجابی میں بات نہیں کرتے، پڑھے لکھے ماں باپ آپس میں بھی اردو میں بات کرتے ہیں۔ پنجابی دادی دادے تک محدود رہ گئی ہے اور ان کے ساتھ ہی قبر میں بھی چلی جائے گی۔ پنجابیوں نے پنجابی کا بیڑہ غرق کرڈالا۔
آپ کی پوسٹ کا بنیادی خیال اہم ہے۔ زبان کی حیات اجتماعات منعقد کرانے اور اداروں کے قیام سے مربوط نہیں ہوتی بلکہ اس کے بولنے والوں کے دم سے ہے؛ زمین کا بھی کچھ دخل نہیں اور اس پر بحث کی جاسکتی ہے۔ اردو کے خلاف آپ کا مقدمہ بہر حال تیکنیکی اور تاریخی حوالوں سے درست نہیں اور یہ سمجھنا کے اردو کا پودا جڑیں نہیں پکڑ سکا دراصل آپ کے کسی بے جا خوف یا کسی چھپی نفرت کا اظہار ہے ورنہ اردو کا دائرہ آپ یوپی اور کراچی تک محدود نا رکھتے اس کے لیے آپ کو تاریخی حوالوں سے ایک بار رجوع کرلینا چاہیے۔ یہ بحث بھی غیر ضروری ہے کہ فلاں زبان برتر ہے یا فلاں زبان بدتر کیونکہ ہر زبان کی اپنی ایک خصوصیت ہے جو اسے ممتاز بناتی ہے؛ اور مستعار لیے گئے الفاظ کے بارے میں تو آپ کا تھیسس تو دنیا کی کئی زبانوں کو سرے سے نابود کردے گا۔ مثلا رومانوی زبانیں۔
ازراہ مذاق کہ اردو میں اس بلاگ کو دیکھ کر ایک شعر یاد آتا ہے کہ
تو اس انداز سے کچھ اور حسیں لگتا ہے
مجھ سے منہ پھیر کے غزلیں میری گانے والے
جہاں تک بات ہے زبان کی اہمیت کی تو اس سے کوئی انکار نہیں کہ علاقائی زبانوں کو علاقائی سطح پر فروغ دینا ہی چاہیئے۔
جہاں تک اردو کی بات ہے تو بھیا اردو کو اس کی تعداد سے نہیں اہمیت سے دیکھنا چاہیئے۔ جیسے پاکستان کے بنانے کا کوئی مقصد تھا تو اردو کے بھی قومی زبان بنانے کا کوئی مقصد ہے۔ اور اردو بہرحال اس مقصد کو پورا کرتی ہے۔ لیکن ایک زبان کو کھڈے لگا کر دوسری کی پرورش، یہ ظلم و جہالت ہے۔ اور یہ ہمارے حصے میں آ گیا۔
اگرآپکی قومیت والون نے اپنے مفادات کے لیئے اردو کو چارا بنائے رکھا اور آپکی پنجابی کو اہمیت نہیں دی تو اس کا بدلہ لینے کے لیئے اردو کو رگیدنے کی ضرورت نہیں اتنی ہی زبان کی محبت ہے تو پاکستان اکر اس کی ترویج کے لیئے کام کریں یہ تو وہی بات ہوئی کہ کمہارن پر بس نہ چلا تو گدھیا کے کان مروڑ دیئے،
اردو کے بارے میں علم نہیں تو کیا ضروری ہے بندہ جہالت کا مظاہرہ ضرور ہی کرے!
اور اگر پاکستان آتے ڈر لگتا ہے تو کم سے کم اپنا بلاگ ہی پنجابی میں شروع کردیں!!!
کیا کرایا کچھ جاتا نہیں بس اگلوں کو گالیاں دلوالو یا ذلیل کروالو!!!!
ایک تبصرہ شائع کریں