اندر باہر
پرانے زمانے میں کسی کو جیل هو جاتی تھی تو لوگ کہتے تھے وھ اندر ہو گیا ہے
پھر وھ زمانه بھی آیا که اگر کسی کا منڈا اندر هو جاتا تھا تو وھ لوگوں کو بتاتے تھے منڈا باهر چلا گيا ہے
لیکں کھوچل لوگ جانتے هوتے تھے کہ لڑکا باہر نہیں اندر ہے ، یه اس وقت کی بات ہے جب لوگ باهر نئے نئے نکلنا شروع هوئے ، بس جو باہر چلا گیا تو باہر اور پھران باهر والوں کی ابادی اچھی خاصی بڑھ گئی اور باهر والے لوگ باہر والے هو گئے اور اندر والے اندر.
اندر والوں کا وهی حال ہے جو جیل کے اندر والوں کا هوتاهے اور باهر والوں کا وہی جو باهر والوں کا هونا چاھیے
باهر والے لوگ هی اندر والوں کو ملاقات کو جاتے هیں ، ان کے کھانے پینے کی چیزیں ،پہننے کی چیزیں باهر سے اندر بھیجتے هیں ، کام کاج کا وهی حال ہے جو اندر هوتا ہے ، اس اندر سے هر کوئی باهر نکلنے کے لیے مشتاق ہے ، لیکن اندر سے نکلنا بڑا مشکل هوتا ہے ، لیکن جو ایک دفعه فرار هو بھی جائے اس کو باهر والا هونے کے لیے گرین کارڈ . ایلین کارڈ وغیرھ کے لیے کوشش کرنی پڑتی هے جو که خاصی مشکل هوتی هے لیکن اندر واپس جانے کا خوف هوتا ہو که بندھ هر کام کرجاتا ہے باهر رہنے کے لیے ، هاں یه باهر کا پروانه ملنے پر اپنوں کی ملاقات کے لیے اندر جانے کی بڑی خوشی هوتی هے ،ایک کمینه پن سا هوتا ہو اندر والے کے "کن کروا" کر خوشی هوتی ہے که میں باهر والا هوں ایک آزاد بندھ ،
اور اندر والے بہت سے لوگ بھکاریوں کی طرح باهر والوں کے آگے پیچھے پھرتے هیں که شائد همارا بھی باهر کا کچھ هو جائے یا کچھ بھیک هی مل جائے ، که اندر کی زندگی ميں کچھ اسانیاں هوں،
اندر کی زندگی میں سہولیات زندگی صرف جیل کی انتظامیه اور ان کے رشته داروں کے لیے هیں ، جن کو یه اندر والے لوگ سیاستدان اور بیوروکریٹ کہتے هیں ، باقی کے لوگ سبھی کے سبھی اندر هیں اور ان کے ساتھ اندر والوں کا سا هی سلوک هوتا ہے ، ان کے پینے کا پانی اتنا گندا ہے که باهر والے لوگ اپنا پانی خود لے گر جاتے هیں یا پھر انتظامیه نے جو پانی اپنے پینے کے لیے منگوایا هوتا ہے اس ميں سے خرید لیتے ، ورنہ ہیپاٹیٹس نامی اندر والوں کی مخصوص بیماری کا شکار هونے کا خطرھ رہتا ہے
بچلی اندر والوں کو کم هی دی جاتی هے ، بس بجلی کا چاکا هی دیا جاتا ہے ، که گرمی میں پنکھا چال کردیکھ لیں که ایسا هوتا ہو بجلی کا پنکھا اور پھر بجلی بند کرکے اندر والوں کو ان کی اوقات میں رکھا جاتا ہو که بجلی یا تو باهر والوں کے لیے یا پھر جیل کی انتظامیه کے لیے،پهلے اس اندر مین سختیاں بڑھنے سے پہلے فیکٹریاں وغیرھ بھی هوتی تھیں جن ميں لوگ مشقت وغیرھ کرکے اپنی اندر کی زندگی میں کھانے پینے کا انتظام کرلیا کرتے تھے لیکن بعد ميں انتظامیه نے کچھ لوگوں کو اسمگلنگ کا ٹھیکه دے کر باهر سے چیزیں منگوا منگوا کر اندر والی فکٹریوں کو ناکارھ کردیا ہے اور "اتفاق " سے یه فیکٹریاں لوہے ميں چلی گئی هیں ،
باهر والوں کا حال کیا ہے اس پر کیا لکھیں که ان کا حال وهی ہے جن کے پیارے اندر هوتے هیں ، که اندر والوں کےلیے کھانے پینے کی مد میں پیسے بھیجنا رشوت وغیرھ کے لیے پیسے اور کوشش کرنا که اگر هو سکے تو ان کو باهر نکلنے کا کچھ انتظام هو جائے
هاں کچھ بیوقوف هوتے هیں کمیاروں کے منڈے خاور کی طرح کے که جوانی کے بہترین سال اس کوشش میں گزار دیتے هں که اندر والوں کی زندگی کو اندر رہتے هوئے هی باهر والوں جیسی بنا دیں لیکن ایک تو انتظامیه کی کوشش سے اندر کاروبار مشکل هوا جاتا ہےا ور کچھ اندر والوں کی عادتیں بھی ایسی هو چکی ہیں که
محنت نامی چیز کا ان لوگوں نے سن هی رکھا ہے کسی کو کرتے دیکھا هی نہیں هے اس لیے محنت کرنے کا تصور هی نهیں هے
اس لیے اب خاور سب کو بتایا پھرتا ہے که جی اپ کچھ بھی کرلو اندر والے لوگوں ميں آزاد لوگوں والی عادتیں باهر رھ کر پیدا کی هی نهیں جاسکتیں
کمہاروں کے بزرگ بتایا کرتے تھے که دولت کمانے اور زندگی میں سہولت پیدا کرنے کا ایک هی منتر ہے
وھ ہے
محنت
لیکن اگر محنت هی سب کچھ هوتی تو گدھا ، کمہار سے امیر هوتا
7 تبصرے:
ہاہاہاہا۔۔۔۔۔لگتا ھے پھر کوئی ٹینشن والی بات ھو گئ ھے۔اندر والے بس اب اندر والے ہیں۔دانے جب کم ھونا شروع ھوتے ہیں تو حال احوال پوچھتے ہیں۔باہر والا سمجھ جاتا ھے کہ اب کچھ بھیجنا ھے۔سیانے کیلئے اشارہ ہی کافی ھوتا ھے جی۔
محنت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ بھی کرنے کی چیز ھے؟۔محنت کرلی تو لوگ کہیں گئے۔یہ بھی کمھار ھو گیا ھے۔
کافی دنوں بعد آپ نے کوئی ڈھنگ کی پوسٹ لکھی ہے ، جس کی بنیاد کسی سے نفرت پر نہیں ۔ کسی کو لتاڑا بھی نہیں ، اور اس بار ہجے کی
غلطیاں بھی زیادہ نہیں ۔
خاور صاحب ، خود ہی لکھی ہے نا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس ملک میں عزت کی روٹی صرف حرام کی کمائی یا باھر کی کما ئی سے چلتی ھے
حرام کی کمائی سے عزت کی روٹی ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
جی جنا ب۔یہاں جو تین وقت پیٹ بھر کر اپنا اور اپنے بال بچو ں کو روٹی کھا لا لےاسی کو عزت کی روٹی کہتے ھیں۔ اب یہی سب کچھ چل رھا ھے۔یہاں پر۔ باھر والے اس ملک میں رھنے والوں کے بڑ ے رونے روتے ھیں۔مزا تو تب ھے جب وہ باھر جنت والی زند گی چھوڑ کر اس جہنم میں آکر رھیں۔تو پتہ چلے ۔کہ یہاں کوئی کچھ کرنا بھی چاھيے توحرام کماۓ بغیر گزارا نہیں۔اب ھر کام میں حرام شر ط ھے۔چاھے کو ئی مانے یا نہ مانے
نہیں نامعلوم صاحب ، میں نہایت معذرت کے ساتھ آپ سے اختلاف کرتا ہوں ۔ یہ جو آپ نے کہا کہ ، ’’ یہاں کوئی کچھ کرنا بھی چاھيے توحرام کماۓ بغیر گزارا نہیں۔اب ھر کام میں حرام شر ط ھے ‘‘ تو ایسا نہیں ہے ۔ حرام کے بغیر گزارا مشکل ضرور ہے ، ناممکن نہیں ۔ ویسے بھی یہ آسانی اختیار کرنے کا بہانہ ہے ۔ برائی کرنا ہر جگہ آسان ہوتا ہے اور نیک راہ پر چلنا کچھ مشکل ۔ پاکستان میں یقیناً زیادہ مشکل ہو گیا ہے ۔
باقی جناب جہاں تک باہر کی جنتوں میں قیام پذیر لوگوں کا تعلق ہے ، تو ان میں سے بھی بہت سے لوگ بہت سے حرام کام کر رہے ہوتے ہیں ۔ اور انہیں کوئی پاکستان جیسی مجبوری کا بہانہ نہیں ہوتا ۔ لیکن پھر بھی وقت اور حالات کا رونا روتے ہوئے ، کچھ وہاں کے اصل باشندوں کو بیوقوف قرار دیتے ہوئے ، اور کچھ کسی اور بہانے سے حرام کھا رہے ہوتے ہیں ۔ گویا مسئلہ زمین یا ملک کا کم اور اپنی ذات کا زیادہ ہے ۔ اگر حلال روزی پر گذارا کرنا چاہے تو یقیناً پاکستان میں بھی ممکن ہے ۔ ہاں جاپان یا یورپ وغیرہ کے مقابلے میں کچھ مشکل ضرور ہے ۔ اور وہ بھی کسی بیرونی قوم کا نہیں ، بلکہ ہمارا اپنا کیا دھرا ہے ۔
انور بھائی۔ آپکی بات 100٪درست ھے۔لیکن حالات اس قدر بگڑ چکے ھیں کہ کہیں بھی امید کی کرن نظر نہیں آتی۔آپ کہا کہ مشکل ھے ناممکن نہیں۔ معاشرہ بگڑنے اور بننے میں بہت وقت لیتا ھے۔ اور ابھی تک ھم اپنا راستہ تلاش نہیں کر سکے۔ کبھی زبان۔کبھی مذ ہب۔ کبھی فرقہ۔کبھی کچھ۔تو کبھی کچھ۔سنا اور پڑھا تھاکہ تعلیم آنے سےمعاشرہ سنورتا ھے۔لیکن ھمارے ملک کا باواآدم ھی نرالہ ھے۔اس ملک کی پالیسی بنانے والے پڑھے لکھے لوگ ھی ھوتے ھیں۔لیکن انوں نے اس ملک کو ےایسا سسٹم دیا ھے کہ اب حرام کرنے کےسوا چارہ نہیں۔مجھے بتائیں میں شروع کرنا چاھتاھوں۔کہاں سے شروع کروں۔اور کیسے؟
ایک تبصرہ شائع کریں