اتوار، 28 جنوری، 2007

وطنے دی بوٹی


پچهلے دنوں آپنے گاؤں گیا تو پته چلا که آپنے گاؤں اک ایک اور جوان بهی یہیں پیرس میں ہوتا هے ـ
مجهے اس کے چاچے نے بتایا که حسنین بهی تو پیرس میں هی هوتا هے ـ میں نے ان کو آپنا فون نمبر بهی دیا اور حسنین کا نمبر بهی لے لیا مگر یہاں فرانس میں آ کر جب حسنین کے نمبر پر کال کی تو وه نمبر کٹا هوا تها ـ
ایک دن اچانک ایک فون آیا اور ایک اجنبی سی آواز میں کوئی میرے بچپن والے نام پکار کر ملنے کا خواہش مند تها
یه تها حسنین جس کو که میں نے آپنے گاؤں میں دیکها هوا بهی نہیں تها که یه لڑکا مجھ سے بہت چهوٹا ہے ـ
لیکن اس کے چاچے مجهے بچپن سے جانتے هیں ناں اس لیے ـ
حسنین کے تایا پروفیسر نسیم صاحب گوجرانواله اسلامیه کالج میں باٹنی کے پروفیسر هیں ـ
اس کے والد صاحب چوهدری ریاض صاحب ننکانه صاحب میں محکمه اوقاف کے افسر هیں اور ایک چاچا امتیاز مکحمه ماحولیات کا افسر هے غالباَ ضلع جهنگ کے ماحولیات کے ذمه دار ـ
آپنے گاؤں میں کمہاروں کے مقابلے میں ان کا بهی ایک سیلر هے یعنی رائس مل ـ
اور خود حسنین آ گیا هے یورپ میں ـ
ایک دفعه میں نے آپنے علاقے کے ایک عیسائی سے پوچها تها که آپ کراچی میں کیا کام کرتے هو تو اس نے بتایا تها که آپنا چوہروں والا کام هی کرتے هیں لیکن صرف سوکهے کا کام هی کرتے هیں گیلے کا بلکل بهی نہیں ـ
بس اس سے سمجھ جائیں که ہمارا بهی حال ایسا هی هے یہاں یورپ میں ـ

کوئی تبصرے نہیں:

Popular Posts