بدھ، 10 جنوری، 2007

دریافت

سوچنے کی بات هے کہ
سائینس ، آخر کس لئے ہے اور کس کے لئے ہے ؟
میرے خیال میں تو اس کو انسان کے لیے هونا چاهیے ،  مگر یه کونسا جذبہ ہے کہ انسان ، اس سائئنس کو خود آپنے کام میں لانے سے جهجک رہا هے ـ
سائینس انسان کی معجزه نمائی کا دوسرا نام  ہی توہے ـ
مگر یه کتنی عجیب بات هے ۔
 که یه معجزه نمائی انسانوں کے آپنے مسئلوں کے دائرے سے باہر، ظہور میں آ رہی هے ـ
جو انسان آج خلاؤں میں سر بلندیاں حاصل کر رہا ہے ۔
اسے ، اس اپنی زمین پر کتنا سربلند اور سر فراز هونا چاهیے تها؟
حالت یہ ہے
کہ
زمین پر اس کی شکستیں اور ندامتیں وہی هیں جو آج سے صدیوں پہلےهوا کرتی تهیں ـ
اس پر دیوانگی کے وہی دورے پڑتے هیں جو پرانے زمانوں میں اس کو پڑا کرتے تهے ـ
کیا علم اور آگہی کی اس روشنی میں انسان کو اتناهی سیاه کار هونا چاهیے تها؟
میدان سائینس کے اس سورما نے خود کو اپنی  جببلت میں زرا بهی نہیں بدلا ـ
سوچا جائے که فطرت کے اس کماؤ پوت نے کیا پایا اور کیا کمایا ؟
کیا انسان نے ایجادوں کی شکل میں جو کچھ پایا ہے وه سب کچھ وهي هے جس کی سائینس سے امید کی جاتی هے ؟
یعنی انسانیت کا فائده ـ
ہاں ، سائینس کے ذریعے انسانوں نے بہت کچھ کمایا هے۔
 مگر انسانیت نے شائد کچھ نہیں کمایا ـ
سائینس کے کارنامے دل میں بڑی جولانی پیدا کرتے هیں ـ
مگر جی بهی بہت جلاتے هیں ـ
سیاروں کے مداروں میں دنگ کر دینے والی مہارت دیکهانے والا انسان زمین پر ایک مذاق بنا هوا هے

انسانوں کے جو غول بهوک اور بیماری سےنڈهال هیں ـ
جو قبیلے سیاست کی بے حس شاھ اندازیوں کے پاتال میں هیں ـ
جو بے مقدور قومیں قہرمان قوتوں کی دہشت سے بے حال هیں
ان کے لیے
اس خبر میں بهلا کونسی خوشخبری هے که
آج خلائی سائینس کے فلاں طائفے نے فلاں سیارے کے مدار میں فلان کرتب دکهایا
اور کل فلاں طائفه فلاں سیارے کے مدّار میں فلاں کرتب دیکهائے گا ـ
ایک طرف سائینس کو معجزے هیں اور دوسری طرف اس حیوانیت کے مقابل انسان کی شرم ناک عاجزی ـ
انسانوں کے باہمی رویوں پر آج بهی انسان کے حیوانی رویے کا هی فرمان چلتا ہے ـ
انسان اپنے اندر کے حیوان کا ایک فرودست ہے ـ
اس کے علاوه کچھ نہیں ـ
انسان نے اپنے علم اپنے تجربے ،آپنے ہنر اور مہارت کو آسمانوں میں تو سیاروں کو تسخیر کے لیے مامور کر رکها هے اور زمین پر انسانیت کو تخزیب اور تباه کاری کی ورزش میں لگا دیا هے۔
 کیا زمین پر یہی کام سائینس کے سپرد کیا جانا تها ؟ که جنگی مشینوں کے ساتھ جب چاهے اور جہاں چاهے زندگی اور شائستگی کی بستیوں کو رونده کر بے نشان کر ڈالے ؟
سارا رونا انسان کو حیوانی رویوں کا ہے ـ
مجهے تو ایسا لگتا هے
جیسے سائینس کے دور میں انسان کی "دانست" تو بڑهی هے پر " دانش" کم هوئی هے ـ
انسان نما وه غول جن کی نه دانست بڑهی هے اور نه دانش ان میں سے ایک میں هوں آپني کم مائیگی اور کم علمی نے نڈهال کیا هوا هے ـ

3 تبصرے:

گمنام کہا...

علم اور علمِ نافع کا تشّخص دين قائم کرتا ہے ۔ اسلام نے علمِ نافع حاصل کرنے پر زور ديا ہے محض علم پر نہيں اور جادو اور ديگر علوم جو ذاتی فائدہ کيلئے انسان کو تکليف دينے اور انسانيت کو مجروح کرنے والے ہيں سے دور رہنے کی ہدائت کی ہے ۔ مجھے يقين ہے کہ دنيا ميں جتنے بھی نبی ہوئے ہيں انہوں نے وہی تعليم دی جو قرآن ديتا ہے ۔

مغربی قوموں نے ذاتی مفادات ک خاطر دين سے دوری اختيار کی اور اُن کی ظاہری چکاچوند سے متأثر ہو کر مسلمان بھی دين سے دور ہوتے گئے ۔ کمال تو يہ ہے کہ سائنس سے ناواقف اور مناسب لباس سے بھی محروم افغانيوں نے بہت کم عرصہ ميں دنيا کی ايک بڑی طاقت کو شکست دی اور اب بموں کی تباہ کن بارش سے گذرنے کے بعد دنيا کی سب سے بڑی طاقت کو ناکوں چنے چبوا رہے ہيں جبکہ تمام مسلمان حکمرانوں نے ان کو دھوکہ ديا ۔

ميرے خيال کے مطابق ہزاروں سال پہلے بھی انسان نے بہت ترقی کی تھی ليکن ان کی اللہ سے نافرمانی اور بےگناہوں پر ظلم نے انہيں ايسا مٹايا کہ ان کا نام بھی باقی نہ رہا ۔ اگر ايسا نہيں تو پچھلی صدی ميں سمندر کی تہہ سے ملنے والی پچاس ملی ميٹر قطر کی خالص کوارٹز کی گيند کس نے بنائی اور وہ ليبارٹری سمندر کی تہہ ميں کس نے بنا کر وہاں يہ بال نصب کی ؟ جس کا مقصد آج کا ترقی يافتہ سائنسدان بھی بتانے سے قاصر ہے ۔ اس کے علاوہ دُخانی جہاز کی ايجاد سے بھی پہلے کے دور ميں سمندر ميں ڈوبے ہوئے بادبانی جہاز سے ملنے والا مکينيکل کمپيوٹر کس بات کی دليل ہے ؟

عدنان مسعود کہا...

بہت خوب خاور صاحب۔


انسان نما وه غول جن کی نه دانست بڑهی هے اور نه دانش ان میں سے ایک میں هوں آپني کم مائیگی اور کم علمی نے نڈهال کیا هوا هے ـ

یہ جملہ تو مضمون کا حاصل مطالعہ ٹھرا۔

عنیقہ ناز کہا...

ہم عام زندگی میں بھی دیکھتے ہیں کہ علم انسان کا کچھ نہیں بگاڑتا۔ بنیادی انسانی خواص وہی رہتے ہیں۔ ایک بدی پہ آمادہ شخص علم حاصل کر کے اسی بدی کو بہتر طور پہ کرنے کا طریقہ سیکھ لیتا ہے اور ایک بھلا شخص اسی علم سے مزید بھلائ کے طریقے سیکھ لیتا ہے۔ حتی کہ بدی پہ آمادہ شخص مزہب کو بھی اپنی بدی کو بہتر طور پہ کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ اس لئے کیا اس سے فرق پڑنا چاہئیے کہ سائینس نے کتنی ترقی کر لی۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیا جتنا آگے کی طرف جائے گی علم اتنا ہی بڑھے گا لیکن بقاء کی جنگ بھی اتنی ہی تیزی سے بڑھے گی۔۔ ہمارے سامنے دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کی آبادی چھ سے سات ارب ہو گئ تو اب انسان اپنی بقاء کی جنگ تو لڑیں گے۔ محبت اور جنگ میں سب جائز ہوتا ہے۔ میں بھی سوچتی ہوں کہ کیا انسانی اخلاق اسکی روحانیت درست کرنے سے درست ہو جاءیں گے۔ کیا ایسی دنیا ممکن ہے جہاں لالچ، مفاد پرستی، خود غرضی اور تنگ دلی نہ ہو۔ کیا دنیا کا کوئ علم ایسا ہے جو تمام انسانوں کو یکساں طور پہ اچھا کر دے۔ کیا دنیا میں کوئ علم ایسا ہے جو انسانوں کے تمام مسائل حل کر دے۔ کیا کبھی ایسا ہو پائے گا۔ کیا تاریخ میں کبھی ایسا ہوا؟
میری ناقص عقل تو کہتی ہے کہ یہ کائینات نا تمام رہنے کے لئے ہی بنائ گئ ہے۔ یہی اس کا مقدر ہے۔ اس لئے ہم کسی علم کوبرا نہیں کہہ سکتے اور نہ اس سے مکمل توقع رکھ سکتے ہیں۔

Popular Posts