جاپان
دنیا کی پرانی ترین معاشرت ، ہندو جاپان سے مدد لے کر اپنی معاشرت کو بہتر بنانے کی کوشش میں ہے ،۔
تیل کی دولت سے مالا مال سعودی عرب کا بادشاھ اج یہاں جاپان سے مدد مانگنے آیا ہوا ہے کہ
جاپان کا یہ نظام جو کہ نہ مال غنیمت پر اور نہ ہی تیل کی دولت پر انحصار کرتا ہے ،
یہ نظام ہمیں بھی بنا کر دیں ،۔
جاپانی قوم ایک عظیم قوم ہے ، معلوم تاریخ میں ایسی معاشرت کی مثال نہیں ملتی ،۔
آج کے جاپان کا معیار زندگی تاریخ میں کسی بھی قوم کو نصیب نہیں ہوا ،۔ معدنی دولت ، جنگوں کی کمائی یا کہ غلاموں کے استعمال کے بغیر صرف اور صرف امداد باہمی سے تعمیر کی کئی معاشرت کو بے مثال اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ
برف کے دوسرے طوفان کو ختم ہوئے کوئی گیارہ ہزار سال ہونے کو ہیں ،۔
جن میں سے صرف چھ ہزار سال کی تاریخ کو معلوم تاریخ کہا جاتا ہے ،۔
جس میں بہت سے ابہام بھی ہیں ،۔
اگر چہ کہ جاپان میں برف کے طوفان کے دوران کی ایک تہذیب کے بھی ثبوت ملتے ہیں
لیکن جاپان سے باہر کی دنیا میں بلخصوص ایشا میں انسانی تہذیب کے سب سے پرانے نشانات میں حمورابی کے قانون کے
نشان ملتے ہیں ، بادشاھ حمورابی کی معاشرت میں بھی غلاموں سے کام لینے اشارے ملتے ہیں م،۔
میسوپٹومیا ، چار ہزار سال سے پانچ ہزار سال پہلے کی تہذیب جس سے ملنے والی تحاریر سے حمورابی کا سراغ ملتا ہے ،۔
جو کہ اندازاً کوئی ایک ہزار سال کے واقعات ہوں گے م،۔
سمیری لوگ خود تاجر پیشہ تھے ، سمندروں میں سفر کرنے کے لئے انہوں نے بھی غلاموں سے کام لیا ،۔
سمیریوں کو لوٹنے والے بادشاھ سارگون کے قبائل کی اسودگی کی بنیاد سمیریوں سے لوٹی ہوئی دولت تھی ،۔
اس کے بعد مصر میں فرعونوں کی تہذیب ہمارے لئے نشانیاں لئے ہوئے ہے ،۔
یہ تہذیب بھی غلاموں کی محنت سے اپنے وقت میں عروج پر تھی ،۔
مصریوں نے بنی اسرائیل کو غلام بنا کر
اسودہ معاشرت قائم کی ،۔
اس سے پہلے یا کہ ساتھ ساتھ موہن جودڑو کے کھنڈرات ہیں ، جس کی تحریر کو پڑھا ہی نہیں جا سکا
ہو سکتا ہے یہاں انسانی برابری کا کوئی معاشرہ ہو
یا کہ نہیں بھی ہو سکتا ،۔ْ
ادبی ذوق اور فنون لطیفہ کی لیڈر قوم یونانی،۔
یونانیوں میں دولت کی بہتات جنگوں سے لوٹ کے مال اور اغوا کئے ہوئے غلاموں کی وجہ سے تھی ،۔
یہودی تجارت کے ساتھ ساتھ غلاموں کی خرید فروخت سے اسودہ زندگی کی ایک تاریخ رکھتے ہیں ،۔
دنیا کی پرانی ترین معاشرت ، ہندو !،۔
ہر دور میں مال اور کھانے کی بہتات لئے اس معاشرت میں طبقاتی اونچ نیچ تھی ،۔
امیر بہت امیر اور غریب بہت غریب تھے ،۔
ہندو معاشرت جو کہ جاپانیوں کے لئے مذہبی ، روحانی اور معاشرتی طور پر ہمیشہ قابل رشک رہی ہے ،۔
خود اس معاشرت میں ایسی برابری کبھی نہیں رہی جیسی کہ اج کے جاپان میں ہے ،۔
آج کے جاپان میں دولت ہے ، مال ہے ، لیکن یہ معاشرت نہ تو جنگ میں لوٹی ہوئی دولت سے اور نہ ہی زمین سے نکلنے والی دولت کی طاقت سے بنی ہے ،۔
اور نہ ہی اج کے جاپان میں ،غلامی کا کوئی تصور ہے ۔
یہ معاشرت صرف اور صرف باہمی امداد اور رواداری سے بنی ہے ،۔
امریکہ اور یورپ کی معاشرت کا تقابل جاپان سے کرنا ہے تو
صرف اس بات تک کہ وہ ساری چیزیں جو جاپانی استعامل کر رہے ہیں اور ایسی ہی انسانی برابری یورپ اور امریکہ میں بھی پائی جاتی ہے ،۔
لیکن
یاد رہے
کہ
یورپ کی یہ مال داری افریقہ اور ایشیا کے ممالک سے کالونیوں کے عروج کے دور میں لوٹی ہوئی دولت ہے ،۔
امریکہ کی دولت مندی کے پیچھے جنگ کی فروخت ہے ،۔
جاپان میں نہ کالونیون سے چرائی ہوئی دولت ہے
نہ جنگی مال بیچ کر کمایا ہوا مال
نہ یہاں کوئی سونے کی کانیں ہیں اور نہ ہی مال غنیمت سے بنا ہوا کوئی بیت المال !!،۔
دنیا کی پرانی ترین معاشرت ہندو ، جاپان سے مدد لے کر اپنی معاشرت کو بہتر بنانے کی کوشش میں ہے ،۔
تیل کی دولت سے مالا مال سعودی عرب کا بادشاھ اج یہاں جاپان سے مدد مانگنے آیا ہوا ہے کہ
جاپان کا یہ نظام جو کہ نہ مال غنیمت پر اور نہ ہی تیل کی دولت پر انحصار کرتا ہے ،
یہ نظام ہمیں بھی بنا کر دیں ،۔
جاپان انڈیا کو گائڈ کر رہا ہے کہ کیسے اپنے مزدوروں سے کام لے کر ملک سے بجلی کی قلت کو ختم کر سکے ، تیز ترین ٹرین کیسے چلا سکتا ہے ، ٹیکسوں اور بیمہ کے معاملات کی تربیت دے رہا ہے ،۔
اسی طرح اج اسلامی دنیا کا ان داتا سعودیہ یہاں جاپان سے “ہدایت “ کی امید لئے آیا ہوا ہے ،۔
پاکستان کا دشمن انڈیا سیانا ہے کہ کوالٹی کی قدر جانتا ہے ،۔اسی لئے جاپان سے مدد لے رہا ہے ،۔
پاکستان کا ان داتا سعودیہ بھی کوالٹی کی قدر کی سمجھ رکھتا ہے اسی لئے ، سعودیہ کا بادشاھ شاھ سلیمان یہاں جاپان سے تکنیک ، علم ، اور ہنر کی مدد مانگنے آیا ہوا ہے ،۔
پاکستان کو پتہ نہیں کس افلاطون نے مشورہ دیا ہوا ہے کہ وہ چین سے مدد مانگتا ہے
چین خود جس کے اپنے ملک میں برابری نہیں ہے اور جو خود جاپان کی تکینک اور ہنر کی نقل کرتا ہے ،۔
پاکستان کے لئے بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ
اس ملک پر اللہ کا عذاب ہے
اور اللہ کا کیا ہوتا ہے ؟
اس کو پنجابی دانش میں ایک محاورے میں بیان کر دیا جاتا ہے ،۔
رب نہ مارے ڈانگاں
بس، پٹھی کر دے مت !،۔
تیل کی دولت سے مالا مال سعودی عرب کا بادشاھ اج یہاں جاپان سے مدد مانگنے آیا ہوا ہے کہ
جاپان کا یہ نظام جو کہ نہ مال غنیمت پر اور نہ ہی تیل کی دولت پر انحصار کرتا ہے ،
یہ نظام ہمیں بھی بنا کر دیں ،۔
جاپانی قوم ایک عظیم قوم ہے ، معلوم تاریخ میں ایسی معاشرت کی مثال نہیں ملتی ،۔
آج کے جاپان کا معیار زندگی تاریخ میں کسی بھی قوم کو نصیب نہیں ہوا ،۔ معدنی دولت ، جنگوں کی کمائی یا کہ غلاموں کے استعمال کے بغیر صرف اور صرف امداد باہمی سے تعمیر کی کئی معاشرت کو بے مثال اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ
برف کے دوسرے طوفان کو ختم ہوئے کوئی گیارہ ہزار سال ہونے کو ہیں ،۔
جن میں سے صرف چھ ہزار سال کی تاریخ کو معلوم تاریخ کہا جاتا ہے ،۔
جس میں بہت سے ابہام بھی ہیں ،۔
اگر چہ کہ جاپان میں برف کے طوفان کے دوران کی ایک تہذیب کے بھی ثبوت ملتے ہیں
لیکن جاپان سے باہر کی دنیا میں بلخصوص ایشا میں انسانی تہذیب کے سب سے پرانے نشانات میں حمورابی کے قانون کے
نشان ملتے ہیں ، بادشاھ حمورابی کی معاشرت میں بھی غلاموں سے کام لینے اشارے ملتے ہیں م،۔
میسوپٹومیا ، چار ہزار سال سے پانچ ہزار سال پہلے کی تہذیب جس سے ملنے والی تحاریر سے حمورابی کا سراغ ملتا ہے ،۔
جو کہ اندازاً کوئی ایک ہزار سال کے واقعات ہوں گے م،۔
سمیری لوگ خود تاجر پیشہ تھے ، سمندروں میں سفر کرنے کے لئے انہوں نے بھی غلاموں سے کام لیا ،۔
سمیریوں کو لوٹنے والے بادشاھ سارگون کے قبائل کی اسودگی کی بنیاد سمیریوں سے لوٹی ہوئی دولت تھی ،۔
اس کے بعد مصر میں فرعونوں کی تہذیب ہمارے لئے نشانیاں لئے ہوئے ہے ،۔
یہ تہذیب بھی غلاموں کی محنت سے اپنے وقت میں عروج پر تھی ،۔
مصریوں نے بنی اسرائیل کو غلام بنا کر
اسودہ معاشرت قائم کی ،۔
اس سے پہلے یا کہ ساتھ ساتھ موہن جودڑو کے کھنڈرات ہیں ، جس کی تحریر کو پڑھا ہی نہیں جا سکا
ہو سکتا ہے یہاں انسانی برابری کا کوئی معاشرہ ہو
یا کہ نہیں بھی ہو سکتا ،۔ْ
ادبی ذوق اور فنون لطیفہ کی لیڈر قوم یونانی،۔
یونانیوں میں دولت کی بہتات جنگوں سے لوٹ کے مال اور اغوا کئے ہوئے غلاموں کی وجہ سے تھی ،۔
یہودی تجارت کے ساتھ ساتھ غلاموں کی خرید فروخت سے اسودہ زندگی کی ایک تاریخ رکھتے ہیں ،۔
دنیا کی پرانی ترین معاشرت ، ہندو !،۔
ہر دور میں مال اور کھانے کی بہتات لئے اس معاشرت میں طبقاتی اونچ نیچ تھی ،۔
امیر بہت امیر اور غریب بہت غریب تھے ،۔
ہندو معاشرت جو کہ جاپانیوں کے لئے مذہبی ، روحانی اور معاشرتی طور پر ہمیشہ قابل رشک رہی ہے ،۔
خود اس معاشرت میں ایسی برابری کبھی نہیں رہی جیسی کہ اج کے جاپان میں ہے ،۔
آج کے جاپان میں دولت ہے ، مال ہے ، لیکن یہ معاشرت نہ تو جنگ میں لوٹی ہوئی دولت سے اور نہ ہی زمین سے نکلنے والی دولت کی طاقت سے بنی ہے ،۔
اور نہ ہی اج کے جاپان میں ،غلامی کا کوئی تصور ہے ۔
یہ معاشرت صرف اور صرف باہمی امداد اور رواداری سے بنی ہے ،۔
امریکہ اور یورپ کی معاشرت کا تقابل جاپان سے کرنا ہے تو
صرف اس بات تک کہ وہ ساری چیزیں جو جاپانی استعامل کر رہے ہیں اور ایسی ہی انسانی برابری یورپ اور امریکہ میں بھی پائی جاتی ہے ،۔
لیکن
یاد رہے
کہ
یورپ کی یہ مال داری افریقہ اور ایشیا کے ممالک سے کالونیوں کے عروج کے دور میں لوٹی ہوئی دولت ہے ،۔
امریکہ کی دولت مندی کے پیچھے جنگ کی فروخت ہے ،۔
جاپان میں نہ کالونیون سے چرائی ہوئی دولت ہے
نہ جنگی مال بیچ کر کمایا ہوا مال
نہ یہاں کوئی سونے کی کانیں ہیں اور نہ ہی مال غنیمت سے بنا ہوا کوئی بیت المال !!،۔
دنیا کی پرانی ترین معاشرت ہندو ، جاپان سے مدد لے کر اپنی معاشرت کو بہتر بنانے کی کوشش میں ہے ،۔
تیل کی دولت سے مالا مال سعودی عرب کا بادشاھ اج یہاں جاپان سے مدد مانگنے آیا ہوا ہے کہ
جاپان کا یہ نظام جو کہ نہ مال غنیمت پر اور نہ ہی تیل کی دولت پر انحصار کرتا ہے ،
یہ نظام ہمیں بھی بنا کر دیں ،۔
جاپان انڈیا کو گائڈ کر رہا ہے کہ کیسے اپنے مزدوروں سے کام لے کر ملک سے بجلی کی قلت کو ختم کر سکے ، تیز ترین ٹرین کیسے چلا سکتا ہے ، ٹیکسوں اور بیمہ کے معاملات کی تربیت دے رہا ہے ،۔
اسی طرح اج اسلامی دنیا کا ان داتا سعودیہ یہاں جاپان سے “ہدایت “ کی امید لئے آیا ہوا ہے ،۔
پاکستان کا دشمن انڈیا سیانا ہے کہ کوالٹی کی قدر جانتا ہے ،۔اسی لئے جاپان سے مدد لے رہا ہے ،۔
پاکستان کا ان داتا سعودیہ بھی کوالٹی کی قدر کی سمجھ رکھتا ہے اسی لئے ، سعودیہ کا بادشاھ شاھ سلیمان یہاں جاپان سے تکنیک ، علم ، اور ہنر کی مدد مانگنے آیا ہوا ہے ،۔
پاکستان کو پتہ نہیں کس افلاطون نے مشورہ دیا ہوا ہے کہ وہ چین سے مدد مانگتا ہے
چین خود جس کے اپنے ملک میں برابری نہیں ہے اور جو خود جاپان کی تکینک اور ہنر کی نقل کرتا ہے ،۔
پاکستان کے لئے بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ
اس ملک پر اللہ کا عذاب ہے
اور اللہ کا کیا ہوتا ہے ؟
اس کو پنجابی دانش میں ایک محاورے میں بیان کر دیا جاتا ہے ،۔
رب نہ مارے ڈانگاں
بس، پٹھی کر دے مت !،۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں