نسوار کے خواص
کہیں کسی جھیل پر کوئی خان صاحب کانٹے سے مچھلیاں پکڑ رہے تھے کی ان کے کینچوے (گنڈوئے) ختم ہو گئے ،۔
خان صاحب اپنا سامان اٹھا کر کوچ کرنے لگے تھے کہ انہوں نے سرسراہٹ سنی ، اس طرٖف دیکھا تو ایک سانپ نظر آیا جس نے منہ میں ایک مچھلی پکڑی ہوئی تھی ،۔
خان صاحب کے ذہن میں آئیڈیا آیا کہ منہ میں مچھلی پکڑا سانپ کاٹ تو سکے گا نہیں تو کیوں نہ اس سے مچھلی چھین کر اس مچھلی کو گنڈوئے کی جگہ استعمال کر کے شکار جاری رکھا جائے ،۔
خان صاحب سانپ پر جھپٹے ، سانپ کو گردن سے پکڑ لیا ،۔
مچھلی سانپ کے منہ سے گر گئی ،۔
مچھلی کے سانپ کے منہ سے نکلتے ہی خان صاحب کے سامنے پریشانی سر اٹھائے کھڑی ہوئی کہ اب سانپ کو چھوڑیں کیسے ؟
سانپ تو پلٹ کر کاٹے گا !!،۔
خان صاحب کی نایاب عقل میں ایک آئیڈیا آیا ، کاں صاحب نے دوسرا ہاتھ جیب میں ڈال کر نسوار کی ڈبی نکالی جس میں انہوں نے نسوار کو ٹشو پیپر میں لپیٹ کر پڑیاں بنا کر رکھی تھیں ،۔
خان صاحب نے دو تین نسوار کی پڑیاں سانپ کے منہ میں ڈال دیں ، سانپ کا منہ بند ہو گیا ، خان صاحب نے سانپ کو جھیل میں پھینک دیا م،۔
سانپ کے منہ سے نکلی مچھلی کو ٹکڑے کر کے کانٹے پر لگا کر کانٹا ، پانی میں ڈالے بیٹھے تھے کہ
پھر سرسراہٹ محسوس ہوئی ۔
جھک کر دیکھا تو؟
وہی سانپ تھا جس کو جھیل میں چھوڑا تھا
وہ سانپ منہ میں دو مچھلیاں دبائے خان صاحب کا منہ دیکھ رہا تھا
کہ
ماڑا تھوڑی نسوار تو دو !!م،۔
حاصل معالعہ
باہمی بھائی چارے کے لئے نسوار ناگزیر چیز ہے ،۔
1 تبصرہ:
یک خان صاحب کو مولوی صاحب نے کہا کہ ہمیشہ دینے والے کا ہاتھ اوپر اور لینے والے کا نیچے هو تا ہے۔خان صاحب نے کہا کہ مولوی جی آپ غلط کہہ رہے ہیں نسوار لینے والے کا ہاتھ ہمیشہ اوپر اور دینے والے کا نیچے ہوتا ہے۔
ایک تبصرہ شائع کریں