مرزا صاحباں
مرزے کی تاریخ پدائش 28 مارچ 1586ء بتائی جاتی ہے اور صاحباں اس سے ایک سال چھوٹی تھی م،۔
مرزا صاحب کے قصے کو حافظ برخوردار اور دمدھرداس نے منظوم لکھا ہے ،۔
کچھ اور شاعروں نے اگر لکھا ہوتو میرے علم میں نہیں ہے ،۔
حافظ برخودار کی کہانی دانا باد کی مہری لانگی نامی خاتون سے شروع ہوتی ہے جو نوشوھ پیر کی خانقاھ پر اپنے بیٹے کی لمبی زندگی کی دعا مانگتی ہے ،۔
مرزا دانا باد کا کھرل تھا جو کہ اپنے نانکے کھیوے میں پلا بڑھا تھا ،۔
یہاں اس کی محبت صاحباں سے پروان چڑھتی ہے ، صاحباں کے بھائیوں کو بھنک مل جاتی ہے صاحباں اپنے بھائیوں کی تیور دیکھ کر مرزے کو دانا بادواپس اس کے دادکے بھیج دیتی ہے ،۔
مرزے کی غیر موجودگی میں صاحبان کی شادی کی تیاری شروع ہو جاتی ہے ،۔
صاحباں ، کرموں برہمن کے ہاتھ مرزے کو خط بھیجتی ہے ،۔
مراز خط ملتے ہی اپنی گھوڑی جس کا نام نیلی تھا اس پر سوار دانا باد کا رخ کرتا ہے ،۔
شاعروں نے مرزے کی گھوڑی نیلی کی بہت تعریف کی ہے ، پنجابی کی شاعری میں کسی جانور کی تعریف کی ایک طرز کی بنیاد سی رکھ دی ہے ،۔
مرزے کے کھیوے کی طرف چلنے پر اس کو اس کا باپ ونجھل ، ماں مہری لانگی بہت سمجھاتے ہیں ،۔
ماں بات کے سمجھانے کو منظوم کر کے پنجابی میں محاوروں اور دانش کی بے مثال شاعری کی گئی ہے ،۔
مثلاً
چڑھدے مرزے خان نوں
جٹ ونجھل دینا مت
پٹ رناں دی دوستی
تے گتیں جنہان دی مت
ہس ہس لاندیاں یاریاں
تے رو کے دیون دس ،۔
اسی طرح راستے میں ایک مسافر ملتا ہے جو مزرے کو سمجھاتا ہے ۔
اس پر بھی بہت خوبصورت شاعری کی گئی ہے ،۔
مرزا جب کھیوے پہنچتا ہے تو اس کو اس کی پھوپھی خطروں سے آگاہ کرتی ہے اور بہت سمجھاتی ہے ،
لیکن مرزا، صاحباں کو کھارے کی رسم کے دوران ہی گھوڑی پر بٹھا لے اڑتا ہے ،۔
کھیوے سے دانا باد کے راستے میں بیلے میں بیری کے ایک گھنے درخت کے نیچے جس کی شاخیں جھک کر سائیبان سا بن چکا تھا اس کے نیچے آرام کرتے ہیں
یہاں جو کچھ ہوتا ہے اس کو شاعر لوگ “ عشق کی آخیر “ کا نام دیتے ہیں ،۔
مراز جب سویا ہوا ہوتا ہے تو صاحباں کے دل میں اپنے بھائیوں کا درد جاگ جاتا ہے اس کو خوف پیدا ہوتا ہے کہ اگر مرزا مقابلے پر اتر آیا تو میرے بھائی مارے جائیں گے اس لئے وہ مرزے کا ترکش درخت پر ٹانگ دیتی ہے اور اس کی گھوڑی کو “ٹنگا” ڈال دیتی ہے یعنی اگلی اور پچھلی ایک ایک ٹانگ کو رسے سے جوڑ دیتی ہے ،۔
صاحباں کا بھائی شمیر سوتے مرزے پر جب ڈانگ کا وار کرتا ہے تو مرزے کی آنکھ کھلتی ہے
جب مرزا اپنی نیلی کو ٹنگے دیکھتا ہے اور تیر کمان کو درخت پر تو یہاں مرزے کی کیفیت کو شاعروں نے خوب لکھا ہے اور گوئیے لوگوں نے خوب گایا ہے ،۔
عالم لوہار کی آواز میں آپ نے سنا ہو گا
نی توں مندا کیتا صاحباں
میرا ترکش ٹنگیا جھنڈ
میری گھوڑی چھڈی آ ٹنگ
مینوں باجھ بھرواں ماریا
میری ننگی ہوگئی کنڈ
مرزے اور صاحباں کو قتل کر دیا جاتا ہے
مرازے کی گھوڑی خالی جب دانا باد پہنچتی ہے تو جٹ ونجھل کے بیٹے کی موت پر ترلے اور غم کی کیفیت بھی شاعروں نے خوب لکھی ہے ،۔
دانا باد کے کھرل مرزے کے خون کا بدلہ لینے کے لئے
کھیوئے پر حملہ کرتے ہیں کھیوے کے جٹوں کے سروں کے ڈھیر لگا دیتے ہیں
اور ان کے گاؤں کو جلا کر خاک کر دیتے ہیں م،۔