جمعرات، 23 جون، 2016

سوال ہی سوال


ذہنی نابالغ یہ لوگ ابهی تک یه ہی فیصله نہیں کرسکے که پاکستان کی تاریخ کہاں سے شروع کریں اور پاکستان کی تاریخ کیا ہو گی اور پاکستان کے ہیرو کون لوگ ہوں گے ؟؟
سن سنتالیس تاریخ مرتب کرنی شروع کر لیں ؟
یه تو صرف شرمندگی ہوگی کہ اس دوران میں ہم کوئی ہیرو بهی امپورٹ نہیں کر سکے ـ
ایک ہیرو امپورٹ کيے تو تهے ـ
اپنے معین قریشی صاحب ـ
یه تو دیسی تهے اور دیسی ہیرو ہو ہی نہیں سکتا ـ
ایک ایٹمی سائینسدان بنایا گیا 
جو بعد میں اسمگلنگ میں ملوث نکلا ۔
چلو جی اس سے تھوڑا پہلے سے شروع کر لیتے ہیں ،
احمد شاھ ابدالی کے انے سے شروع کر لیتے هیں ؟
نہیں اس سے تھوڑا پہلے
یعنی، مغلوں کے انے سے شروع کرتے هیں ؟
تھوڑا تھوڑا کر کے ماضی میں چلتے چلے جاتے ہیں ۔
محمود غزنوی سے؟
غیاث الدین بلبن سے ؟
چلو جی محمد بن قاسم سے شروع کر لیتے هیں ـ
اس سے زیادہ ماضی میں نہیں جانا جی ۔
کہ
اور آگر کسی بچے نے پوچھ لیا که کیا اس سے پہلے اس سرزمین پر کچھ بهی نہیں ہوتا تها یا راجه داهر انسان نہیں تها ؟
کیا دہبیل کسی ہوائی قلعے کا نام تها ؟
اور کیا عرب تاجر اس زمین پر احسان کرنے آتے تهے ؟
ہم موہن جوڈرو سے شروع کرلیتے هیں !ـ
لیکن تکنیکی تربیت سے محروم ہم تو ابهی تک اس معاشرے کی تحاریر بهی نہیں پڑه سکے بلکه اس درو کی اصلی چیزیں اور برتن تو ہم دوسری قوموں کو بیچ کر کها بهی چکے هیں اور اب تو موہن جوڈرو کا اثاثه محمد نواز کمہار کے فن پارے هیں ـ
پهر بهی کوئی بدتمیز(اردو کے ایک بلاگر بهی بدتمیز نام کرتے هیں) بچه پوچھ سکتا ہے که موہن جوڈرو کے بعد اور راجه داهر تک کے ہزاروں سال میں کیا هوتا رها ہے ؟
توتاریخ پاکستان کیا جواب دے گی؟
سندهی اجرک کو ڈزائینکرنے والے جولاہےـ
کهیس (موٹا سوتی کمبل) رمٹا (پتلا سوتی کمبل)اور لوئی (اونی کمبل)بنانے والے لوگ ـ
گرمٹ (لکڑی میں سوراخ کرنے والا ورما) چوسا (ایک بہت هی کهردری ریتی لکڑی کے لیے )کا استعمال بهی همارے آباء کرتے رہے ـ
چجر(ایک قسم کا مٹی کا برتن جس میں رکها گیا پانی ٹهنڈایخ هو جاتا تها چاہے چجر دهوپ میں هی پڑی هو) کا پانی فریج کے پانی سے بہتر هوتا تها
منجی(چارپائی) کے بننےکا ہنر کیا آج کے لوگوں کی دریافت ہے اس ہنر کو ہم نے کتنا ڈویلپ کیا ہے؟
اور کتنی هی تکنیکیں ہنر کیا هوئے ؟
جنریشن گیپ غالباً اسی کو کہتے هیں ناں جی؟؟
جنتر منترکرتے لوگ کیا هوئے ؟
منتر کیا ہے اور جنتر کیا ہے ؟
کلینڈر کو پنجابی میں جنتری کہتے هیں اور جنتر اسٹرونومی یا علم نجوم کو کہتے هیں ـ
منتر علم تحریر کو کہتے هیں که کسی اور کی کهینچی لکیروں کو پڑھ لینا بهی ایک اسرار هے ناں جی !؟
ناں پڑھ سکنے والے لوگوں کے لیے ـ
دنیا کے زیاده تر لوگ جب اشکال کو تحریر کی صورت دیتے تهے جیسے که مصری اور چینی ـ
تو آواز کو تحریر کی شکل دینے والے لوگ کیا ہوئے ؟
زیرو کی دریافت کے ذمه دار لوگ کیا هوئے ؟
کپل وستو کا شہزادھ سدهارت (گوتم بده)کیا هوا؟
برصغیر میں آنے والے رسول کیا هوئے ؟
یا که امپورٹڈ دهرم کے ماننے والوں کی سوچ کی پرواز هی اتنی ہے که بنی اسرائیل کے رسولوں کے سوا کسی اور رسول کا علم هی نہیں ہے؟؟
ماہر عمرانیات چان نکیا (چانکیه)کے وجود کا کیا کریں گے ؟
یونانیوں کو واپس پلٹنے پر مجبور کرنے والے جہلمی راجے پورس کا کیا کریں گے ؟
سکها شاهی ہی کہـ لیں رنجیت سنگھ کے دور کو کس خانے میں فٹ کریں گے ؟؟
اگر یه تاریخ اس طرح بهی شروع کی جائے تو کتنے سوال پیدا هوتے هیں یا یه کہہ لیں که ہمیں کچھ اس طرح کی تاریخ بتائی جارهی هے ـ
جس میں کتنے هی خلا هیں اور اگر ان خلاؤں کو پُر کرنے کی بات کی جائے تو ........ـ؟؟
میں جب بهی آپنے پاکستانی معاشرے پر غور کرتا هوں ، خاص کر حکومتی لوگوں کی عادات اور سوچ پر پر تو ! مجهے ایسا لگتا ہے ۔
کہ یہ ایک ایسا گهرانہ ہے جس کے سارے بڑے اچانک مر گئے ہوں ۔
اور بچوں کو حکومت دے دی گئی ہو ، بچے بھی ایسے کہ جن کو ناں تو ابهی معاملات که سمجھ تهی اور ناں ہی آپنے خاندان کی تاریخ کا علم ـ
اور آپنے خاندانی ہنر سے تو بلکل هی نابلد ـ
یه بچے کس بهی قسم کی معاشری اخلاقی اور تکنیکی تربیت سے بهی محروم رهے ـ
معاشری تربیت سے محروم ان لوگوں نے دوسروں کی بهونڈی نقالی سے جیسا معاشره بنانے کی کوشش کی وه آج کے پاکستان کی صورت میں آپ کے سامنے هے ـ
اخلاقی تربیت سے محروم ان لوگوں نے جس قسم کا اخلاق آپنایا وه بهی ہمارے سامنے هےـ
اور تکنیکی تربیت سے محرومی کی هی وجه هے که هم آج هم قوموں کی برادری میں مذاق بن کر ره گئے هیں ـ

جمعرات، 16 جون، 2016

پھکو جولاہ

 ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ
پھکو جولاہ کی یادوں میں سے
کہ
کراچی کے لئے عازم سفر تھی گاؤں کے کوئی پانچ چھ لڑکوں کی ٹولی ،۔
کراچی کے ساحل سمندر پر بھنے ہوئے چھولے بیچنے کے لئے ۔
ٹرین کا نام کچھ بھی ہو ایکسپریس یا کہ پسنجر ؟ پھکو جولاہ اینڈ ٹولی کا مقدر تو تھرڈ کلاس میں سفر کا ہی تھا ۔
روٹیاں اور پکوڑے  گھر سے ساتھ لے کر چلے تھے ، پانی کسی ناں کسی اسٹیشن سے مل جاتا تھا ،۔
پاک وطن کی دھول مٹی ، ان کے لئے مسئلہ ہی نہیں تھی کہ اسی مٹی کا جنم اور اسی میں مر کے جانا نصیب ٹھرا تھا ۔
گوجرانوالہ سے  خانیوال تک کے سفر کا تو کوئی حال نہیں ، اس کے بعد کہیں سے ایک جوان لڑکا ٹرین میں چڑھا ، اپنے ہم عمر اور ہم مرتبہ سے لوگ دیکھ کر وہ بھی پھکو  اینڈ ٹولی کے پاس ہی آ کر بیٹھ گیا ،۔
پھکو اینڈ ٹولی  پینڈو لہجے کی پنجابی میں گفتگو کرتے ہوئے لوگوں میں اس لڑکے نے جب دو چار الفاظ انگریزی کے  بولے تو جاجو مرزائی  کے منہ سے نکل گیا ۔
جی تسی کوئی تعلیم یافتہ بندے لگتے ہو ؟
وہ لڑکا کچھ اکڑ کر بیٹھ گیا ۔
ہاں جی !، بی ایس سی کر کے میں نے کیپٹنی کا کورس کیا ہوا ہے !۔۔
سب لوگ حیران ہو کر اس لڑکے کا منہ دیکھنے لگے کہ کچھ زیادہ ہی چھاڈو لگتا ہے ،۔
پھر بھی برداشت کرتے ہوئے بڑی ملائیمت سے  بھولا پوچھتا  ہے ۔
پائی جی تسی کون سے ضلعے کے ہو ؟
لڑکا جواب دیتا ہے ، شہر ساہیوال ، ضلع پنجاب ،۔
اب کیا کریں ضلع تو پنجاب ہی بنتا ہے ناں جی  شہر ساہیوال کا !،۔
ہیں جی ؟
پکھو جولاہ اینڈ ٹولی ایک دفعہ پھر اس لڑکے کا منہ دیکھتی رہ گئی ،۔
کسی نے سوال جڑ دیا ۔
جی تہاڈے ابا جی ،کام کیا کرتے ہیں ؟
لڑکا بڑی زہریلی مسکراہت ہونٹوں پر سجا کر کہتا ہے
کام کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟
میرے ابا جی پولیس میں ایس پی ہیں ،۔
دو چاچے فوج میں کرنل ہیں ۔
فیر تے جی آپ کی زمین بھی ہو گی ؟
زمین ؟ ہاں بہت ہے لیکن وہ سب مزارعوں پر چھوڑی ہوئی ہے ،۔
ٹھیکا آ جاتا ہے اللہ کا شکر ہے  بڑی موج لگی ہوئی ہے ،۔
پھکو اینڈ ٹولی منہ کھولے اس کی باتیں سن رہی تھی ، اس لڑکے نے بھی جب  دیکھا کہ سب لوگ خاصے متاثر ہو چکے ہیں تو ۔
کمال مہربانی سے پوچھتا ہے ۔
یارو ، میرے متعلق ہی پوچھے جا رہے ہو ، کوئی اپنی بھی بات سناؤ؟
کون  ہو ؟ کہاں کے ہو ؟ کہاں جا رہے ہو ۔
پھکو جولاھ اینڈ کمپنی نے پھکو کا منہ دیکھنا شروع کر دیا ،۔
جاجو مرازائی کہتا ہے ۔
یار پھکو ، تم ہی ان صاحب جی کو ہینڈل کرو ۔
پھکو جولاہ ، تھوڑا سا اس لڑکے کی طرف جھکا اور شرگوشیانہ انداز میں گویا ہوا
اب یار تم سے کیا پردہ ، لیکن یہ بات اپنے تک رکھنا ، بڑا ٹاپ سیکرٹ ہے ۔
یہ جو سارے لڑکے ہیں ناں ۔
یہ سارے میرے گاؤں کے کمیوں کے لڑکے ہیں ،۔
میں ان سب کو اپنے ساتھ لے کر نکلا ہوا ہوں ،۔
میرے اباجی نے میری ایک ذمہ داری لگائی ہوئی ہے اس لئے ۔
اس اجنبی لڑکے کے منہ سے نکلتا ہے
وہ کیا ؟
پھکو جولاہ سب کی طرف منہ کر کے پوچھتا ہے ۔
بتا دوں !۔
ساری ٹولی اپنی ہنسی ضبط کرنے کی کوشش میں سر ہلا کر پھکو کو ہلا شیری دیتی ہے کہ بتا دو!!۔
پھکو دوبارہ گویا ہوتا ہے ۔
اصل میں ناں یار ! یہ جو ٹرین ہے ، جس میں ہم سفر کر رہے ہیں ؟
یہ ٹرین میرے اباجی کی ملکیت ہے ،۔
بس ایک ہی ٹرین ہے ابا جی کی ملکیت باقی کے کام تو بس کچھ فیکٹریاں ہیں ہیں گوجرانوالہ میں ۔
اب بات یہ ہے کہ اباجی کو شک ہے کہ اس ٹرین کا کنڈیٹر اور ڈرائیور مل کر ٹکٹوں میں گھپلا کر رہے ہیں ،۔
ابا جی نے میری ڈیوٹی لگائی ہے کہ ذرا ان پر نظر رکھوں ، دیکھ کر آؤں کہ ٹرین میں ہو کیا رہا ہے ،۔
ابھی بات یہیں تک پہنچی تھی کہ
اس اجنبی لڑکے کا منہ کھلے کھلا ہی رہ گیا ، کچھ لمحوں کے بعد کہتا ہے
یار تم تو بڑے چھاڈو ہو ، اتنی بڑی گپ
ہم نے تو کبھی نہیں سنا کہ ٹرین کسی کی ذاتی ملکیت ہو !،۔
یہاں پر جاجو مرزائی انٹری مارتا ہے
اور کہتا ہے ،۔
بڑے کم ظرف ہو یار؟
پچھلے تین گھنٹوں سے ہم سب تمہاری لمبی لمبی گپیں سن رہے ہیں ۔
ہم میں سے کسی نے تھے گپّی یا چھاڈو کہا ہے ؟
اور تم ہو کہ ہمارے پھکو کی ایک بھی برداشت نہیں کر سکے ۔
پھکو جولاہ کی ساری ٹولی قہقہے مار کر ہنسنے لگی ۔
بس پھکو ہی تھا جو سنجیدہ سا منہ بنائے اس لڑکے کا چہرہ دیکھا رہا
اور زبان بے زبانی میں پوچھ رہا تھا ۔
ہور سنا ، چناں ؟
جاجو مرزائی بتاتا ہے کہ اس کے بعد اس لڑکے نے ڈبہ چینج کر لیا تھا ۔

بدھ، 15 جون، 2016

برادر اسلامی ملک

جب افغانی لوگ  ! برادر اسلامی  ملک کہتے ہیں تو مجھے
پھکو جولاہ یاد آ جاتا ہے ،۔
جو کہ ان افغان لوگوں کے اسلامی بھائی چارے کااپنا مشاہدہ بتایا کرتا تھا ،۔
پھکو ، گوجرانوالہ سے ٹرین میں بیٹھ کر کراچی جایا کرتا تھا ، جہاں وہ ساحل سمندر پر بھنے ہوئے چنے بیچا کرتا تھا۔
جہاں ہمارے گاؤں کے کئی لڑکے یہی کام کرتے تھے ۔
کمائی خاصی معقول تھی ، ہر دوسرے مہینے کوئی نہ کوئی ٹولی گھر کا چکر لگانے آ جاتی تھی ۔
کراچی کی باتیں ہم نے ان سے ہی سن سن کر جانا کہ کراچی بڑا پر امن اور غریب نواز شہر ہوا کرتا تھا ۔
پھکو بتاتا ہے کہ جب ہم یہاں گوجرانوالہ سے ٹرین میں  چڑھتے تھے تو
پشاور سے ٹرین میں سوار، ساری سیٹوں پر پٹھان قابض ہوتے تھے ،۔
دو دو تین تین سیٹیں سنبھالے بیٹے ہیں ،۔
کسی پر چادر رکھی ہے اور کسی پر نسوار کی آئینہ لگی ڈبی ۔
کوئی صاحب استنجا کرنے والا لوٹا اور بکسا  کے لئے سینٹ منتخب کر چکے پیں ۔
جب ہم ان کو کہتے کہ کوئی سیٹ ہمیں بھی دیں تو ؟
تڑک کر جواب دیتے ۔
اوئے خوچہ ! ادھر ام بیٹھی اے ، یہ اماری سیٹ اے ۔
ام اتنی دور سے آتی ، چلو چلو مغز نہیں کاؤ۔
آیا بڑا سیٹ مانگنے والا۔
اور سرگوشی سی میں کہتے “دال خور” جو کہ ہم سن بھی لیتے کہ دال کھانے میں کیا برائی ہے؟۔
گوجرانوالہ سے کراچی تک کا سفر ان پٹھانوں کی وجہ سے سیٹوں کے ہوتے ہوئے بھی ، ذلیل ہو کر رہ جاتے ۔
سفر کی اس کوفت اور ذلالت سے بچنے کے لئے جب ہم واپس آتے تو؟
کراچی سے ہم  ، وقت سے پہلے ہی آ کر سیٹیں سنبھال لیتے تھے ،۔
پٹھان لوگ بعد میں آتے ، ہمین سیٹیں سنبھال کر بیٹھے دیکھ کر ، خوش اخلاقی سے انکی باچھیں کانوں تک کھلی ہوتی تھیں ۔
لہجے میں حلاوت ہوتی تھی کہ سن کر بھکاری بھی شرما جائیں ۔
بائی ساب ! توڑا ام کو بھی بیٹھنے دو ۔
لیکن ہم لوگ بھی تپے بیٹھے ہوتے تھے ، ہمارے ذہن میں گوجرانوالہ سے کراچی تک کی وہ بے عزتی اور کوفت ہوتی تھی
اس لئے ہم بھی انکار کر دیتے تھے ،۔
تو
پٹھان لوگوں کو اسلامی بھائی چارہ یاد آ جاتا تھا ۔
دیکھو جی ام سب مسلمان بھائی بھائی ہیں ، نبی پاک نے بھی روادری کا درس دیا ہے ۔
تے ماما ! جب وہاں گوجرانولہ سے کراچی تک ہم اپ لوگوں سے روادری کا تقاضا کرتے ہیں ،
تو کیا ہم کافر ہوتے ہیں ؟؟
یہ اپنا، افغانی اسلام  نسوار کی ڈبی میں واپس ڈال اور فرش پر بیٹھ کر ہمارے گوجرانوالہ اترنے تک صبر کر ۔
کہ اسلام صبر کی بھی تلقین کرتا ہے ۔

بدھ، 8 جون، 2016

بھوک کا ادب

بھوک کا ادب (عالم ادب یا کہ مقامی) پڑھ پڑھ کر  کئی نسلیں جوان ہوئیں اور مر کھپ گئیں  ۔
تھوڑے سے لوگ اب بھی موجود ہیں ۔
جو پیٹ کی بھوک کی بات کو  “ترس “  کے حصول کے لئے لکھتے ہیں ،۔
صاحب چار دن سے بھوکا ہوں !
دو دن سے کچھ کھانے کو نہیں ملا ، وغیرہ وغیرہ!۔
کھاد کی دریافت کے بعد عموماً اور  جنیاتی  موڈیفکیشن  والے چکن کے بعد خصوصاً ، اگر کوئی بھوکا ہے تو ؟
یاتو کام کی مصروفیت کی وجہ سے ہوگا یا پھر کاہلوں کا بادشاھ کہ اس انتظار میں ہو گا کہ کوئی اس کے منہ میں  نوالہ ڈال دے ۔
کھاد کی دریافت (بیسویں صدی کی چوتھی دہائی) کے بعد  معلوم انسانی تاریخ میں پہلی بار یہ ہوا کہ انسان ، کھانے میں روٹیوں کی تعداد سے بے فکر ہوا ۔
کھاد کی دریافت کے بعد ستر کی دہائی میں جنیاتی موڈیافائی بیجوں کے تجربے کی وجہ سے افریقہ میں موزنبیق اور صومالیہ میں
قحط کی صورت حال پیدا ہوئی اور بڑی شدت سے پیدا ہوئی ۔
جس پر قابو پانے میں  دو دہائیاں صرف ہوئیں ۔
اور آئیندہ کے لئے معاملات کے اصول وضع کر لئے گئے ،۔
ورنہ جنگ زدہ علاقوں تک میں لوگ بھوک سے نہیں مرئے ۔
کھاد کی دریافت کے تقریباً  تیس سال بعد یعنی کہ ستر کی دہائی میں  پاکستان میں عام گھروں میں ہر فرد کو ایک روٹی یا کہ دو روٹیاں کی شرط ختم ہو چکی تھی ،۔ مشرقی پاکتسان کی شورش کی وجہ سے چند ماھ کے عرصے کو نکال کر  کہ ان دنوں  گندم کی بجائے لوگ مکئی یا باجرے کی روٹیاں کھانے پر مجبور ہو گئے تھے ،۔
بھول کا ادب پرانا ہوا
اب یہ بس کتابوں میں رہ گیا
تاکہ انے والی نسلیں پڑھ لیں کہ پرانے زمانے کے لوگوں کی زندگی کتنی مشکل تھی اور انہوں نے انے والی نسلوں کے لئے کیا چھوڑا ۔
آج کا ادب ، بھوک کی بجائے “رج “ کا ہونا چاہئے ، “ لڑ “ (پنجابی کے لفظ لینج یعنی جس کی انکھ کی بھوک نہ مرے ،اس کے کھانا کھانے کے انداز کو لڑ مارنا کہتے ہیں ) مارنے کا ہونا چاہئے ،۔
بھرے پیٹ سے ہونے والی بیماریوں کی بات ہونی چاہئے ،۔
شوگر ، کولیسٹرول ،  بلڈ پریشر کی کہانیاں ہونی چاہئے ۔
ہاں اگر بھوک پر ہی لکھنا ہے تو ؟
پیسے کی بھوک پر لکھنا چاہئے ۔
اقتدار کی بھوک پر لکھنا چاہئے ۔
کہ ایک بھکاری نے دروازہ کھٹکٹایا
اور سوال کیا، کچھ کرنسی کا سوال ہے بابا  ، بٹوا پتلا ہو گیا ہے بابا !،۔
اقتدار کے بھکاریوں کے واشنگٹن کےوالی سرکار کے  در پر جانے کا احوال ہونا چاہئے ٹین ڈاؤنگ سٹریٹ کی برکات کا لکھنا چاہئے
کہ  کیسے ان درباروں سے خیرات ملتی ہے ۔
اور کیسے ان درباروں کے گدا بادشاھ بن جاتے ہیں ،۔
 

منگل، 7 جون، 2016

سجّی اور کھّبی



سجّی اور کھّبی ؟
پنجابی زبان میں ،۔
سجّے  ہاتھ (دائیں ) کی چپیڑ کو سجی اور کھبّے ہاتھ (بائیں) کی چپیڑ کو کھبّی کہتے ہیں ،۔
ویسے بکرے یا کہ پیڈو دنبے کی شولڈر کی بوٹی کو بھی کھبّی کہتے ہیں ،۔
اور بلوچ پکوانوں میں  ایک پکوان ہوتا ہے  سجّی !،۔
سنا ہے اج کل پاکستان میں لوگ سجیّاں اور  کھبّیاں کھا رہے ہیں ،۔
چپیڑیں بھی اور پکوان بھی  ،۔
میں نے یہ دونوں پکوان کبھی نہیں کھائے ،۔
کھبی غالباً شولڈر کی بوٹی کو سالم ہی کوئلے پر بھون کر کھانے کا نام ہے ، کھبّی  ؟
اور
سجّی؟
مجھے ایک بوڑھے بلوچ نے بتایا تھا کہ
سردیوں کی آمد سے پہلے ہم لوگ  دنبے ذبح کر کے ،اندر پیٹا نکال کر ان کو خشک ہونے کے لئے لٹکا دیا کرتے تھے  ،۔
ہلکے اندھیرے  میں اس گوشت پر ململ کا کپڑا ڈال دیتے تھے کہ مکھی یا اڑنے والے کیڑوں  کی مار سے محفوظ رہے ،۔
اصل میں مکھی کے انڈے گوشت میں کیڑے بن جاتے ہیں ناں اس لئے ۔
سخت سردی میں یہ گوشت خشک ہو جایا کرتا تھا ،۔
جسے ہم سٓجّی کہتے تھے ،۔
ساری سردیاں ، ہم اس میں سے گوشت کاٹ کاٹ کر پکایا کرتے تھے ،۔
تھوڑے سے گوشت میں بہت سا پانی ،جس کے نیچے آگ دھک رہی ہوتی تھی ،۔
سردیوں میں اس آگ کی حرارت ہوتی تھی اور سجّی کا سوپ اور بوٹیاں ہوتی تھیں ،۔
یقین کرنا خاور ! بوڑھا بلوچ بات جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے ۔
کہ سجی کا پکوان اتنا لذیذ ہوتا ہے کہ میں نے عربوں میں اور ایشا کے کئے ممالک کا سفر کیا ، طرح طرح کے کھانے کھائے
لیکن اس سجی کے ذائقے کو سب سے اعلی پایا ،۔
سنا ہے وہاں گوجرانوالہ میں بھی اب سجی کے پکوان مل جاتے ہیں ؟
کیا کبھی کھا کر دیکھا ہے ؟
نہیں میں نے کبھی نہیں کھایا ، میرے بتانے پر بوڑھا بلوچ گویا ہوا
سنا ہے وہاں گوجرانوالہ میں تو تازہ گوشت  کو ہی  پکا کر سجی کا الزام دے دیتے ہیں ؟

یقین کرو مجھے نہیں علم !،۔
کہ
مجھے خود گوجرانوالہ چھوڑے تیس سال ہو گئے ہیں ،۔
میں اور کیا جواب دیتا
کہ میرا تو وطن ہی چھن چکا ہے ۔
اب کیا سجّیاں اور کیا کھبّیاں ؟
وہ بوڑھا بلوچ بھی اسی کرب کا شکار تھا کہ
وہ بھی  یہیں میرے پاس بے وطن ہی تو بیٹھا ہوا تھا!!۔

پیر، 6 جون، 2016

بندوقاں والے

گاؤں میں لڑائیاں ہوتی ہی رہتی تھیں ،ڈانگ سوٹے سے لوگ پھٹر بھی ہو جاتے تھے ،۔
زیادہ سیریس معاملہ ہوتا تھا تو  گنڈاسے اور  ٹوکے چھریاں خنجر بھی نکل آتے تھے ۔
زمانہ بدلا
وڈے چک میں  ایک ہی دن سات قتل ہوئے ، وہ بھی بندوق کی گولیوں سے ۔
سارے علاقے میں دہشت پھیل گئی ،
چکاں والے قتل اور قاتلوں کا نام دہشت کی علامت بن گیا ،۔
لڑائی کرنے والے خاندانوں نے بھی بندوقیں لینی شروع  کر دیں ،۔
کچھ لائیسنسی ، کچھ بے لائیسنسی!،۔
اب جب بھی گاؤں میں لڑائی ہوتی تھی تو  دونوں پارٹیاں ،گولیاں چلا چلا کر اپنی دھاک بٹھانے کی کوشش کرتی تھیں ،۔
تجربہ کار لڑاکا خاندانوں  میں تو آپس میں تو کوئی قتل نہیں ہوا ۔
ناتجربہ کار  ماچھیوں نے ایک ہی  فائیر میں اپنے چاچے کو قتل کر کے بیٹھ گئے ،۔
یا پھر ایک دفعہ یہ ہوا کہ  لڑاکا فیملی کا ایک لڑکا ساتھ  کے گاؤں والوں کی گولی سے مارا گیا ،۔
اسلحے کی دوڑ چل نکلی
کمہاروں نے ، جولاہوں نے ، مستریوں نے سبھی نے ، کسی نے ایک کسی نے دو چار بندوقیں خرید کر گھر میں رکھ لی۔
کہ بندوق گھر میں ہونے سے زرا وجھکا سا رہتا ہے
کوئی کتا بلا منہ اٹھا کر  گھر میں گھسا نہیں چلا آتا ۔
گھالو  مومن کے گھر میں سعودیہ سے ریال آتے تھے ،
انہوں نے بھی بندوق خرید لی ، سعودی کی کمائی تھی اس لئے بندوق بھی جدید ترین لی کہ  اڑوس پڑوس میں ایسی بندوق کسی کے پاس نہیں تھی ،۔
اب کھالو لوگوں کا خیال تھا کہ لوگ ان سے دبک کر بات  کریں گے ،۔
اسی خام خیالی میں  کھالو ، ایک دن ہیرے موٹے سے منہ ماری کر بیٹھا ۔
ہیرے نے جب دو چپتیں لگائیں تو ؟
روتا ہوا گھر گیا کہ میں ابھی بندوق لے کر آتا ہوں ،۔
بندوق لے کر کھالو گلی سے نکلتا ہے ، اس کو یقین ہوتا ہے کہ اس کی بندوق کی دہشت سے   ہیرا بھاگ چکا ہو گا ۔
کھالو کو یہ علم نہیں تھا کہ صرف بندق کی دہشت سے دشمن نہیں بھاگتا ، بندے کی کوئی اپنی بھی کوالٹی ہونی چاہئے ۔
بس جیسے ہی کھالو  گلی سے نکلتا ہے ہیرا بڑھ کر اس سے بندوق چھین لیتا ہے ۔
اور دو چمپتیں مذید لگا کر کھالو کو بھاگ جانے کا کہتا ہے
کھالو بڑی شرافت سے گھر چلا جاتا ہے کہ اب بندوق ہیرے کے ھاتھ میں تھی اور کہیں یہ نہ ہو کہ ہیرا اسے چلا ہی دے ،۔
بندوق ! محفوظ  ہاتھوں میں پہنچ چکی تھی  ۔
ہیرا موٹا کہتا پھرتا تھا
لوگ سمجھتے ہیں کہ ایٹمی پاور بنتے ہی سارا گاؤں ہم سے ڈرنے لگے گا ، اب ورزش ، ڈسپلن یا کہ دوسری مشقتیں کرنے کی ضروت نہیں ہے ۔
میں نے ان کا ایٹم بم ہی چھین لیا ہے
ہاہاہاہا،۔
وڈے آئے ، بندوقاں والے !!،۔
 

اتوار، 5 جون، 2016

مولا خوش رکھے

آپ کے اردو گرد  ،ضرور ایسے گھر ہوں گے جہاں ہر وقت لڑائی  جھگڑا چلتا ہو گا۔
ہو سکتا ہے کہ اپ کا ہی گھر ہو جہاں سے پڑوسیوں کو  ہر وقت کسی ناں کسی بات پر تکرار کی آوازیں سنائی دیتی ہوں ،۔
ایسے گھروں  کے افراد کے کپڑے میلے ، جوتے ٹوٹے ہوئے یا کہ ننگے پیر پھرتے ہوئے، چہروں پر دھول اڑتی ہوئی  دانت کیڑا لگے ہوئے نظر آتے ہیں ۔
ایسے  گھروں کے  کاروبار  مندی کا شکار ، اجڑی اجڑی سی دوکانیں ، مریل سے باربرداری کے جانور
ہر وقت خراب مشینیں ،۔
اور اگر ان کو کوئی سمجھانے کی کوشش کرئے تو لڑائی اس کے سر آ جاتی ہے ۔
شکوہ شروع ہو جاتا ہے برادری نے ساتھ نہیں دیا ، برادری کے لوگ برے ہیں ، ان سے کوئی تعاون نہیں کرتا ، ۔
دوسری طرف
وہ گھر جہان  سے کبھی آپ کو جھگڑے کی آواز  سنائی نہیں دے گی ، سارے افراد اپنے اپنے کام پر  مطعمن ، چہروں پر مسکراہٹ ، صاف ستھرے کپڑے ، بہترین سی سواری اگرچہ کہ سائکل ہی کیوں نہ ہو ، اگر ایک گدھا بھی ہو گا تو صحت مند اور کھلا کھلا سا ۔
ایسے گھروں کے ساتھ مسائل بھی کم ہو ں گے ۔
محلے گاؤں میں لوگ عزت بھی کرتے ہوں گے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سمجھ تو گئے ہوں گے آپ لوگ ؟
پھڑ لو مائک ، سنبھال لو، کی بورڈ  ، چڑھ دوڑو مخالف فرقے پر !،۔
رمضان کے چاند کا معاملہ ہے ، اس کے بعد عید کے چاند کا معاملہ ہو گا ۔
مولا خوش رکھے ۔ بڑا زرخیز ماحول ہے ۔
لڑائی کے لئے خام مال وافر ہے ۔
چاندوں کے بعد  ، عدت ، بدعت کے معاملات ،  شرعی ، شر اور شرارت کے معاملات ، ہنود یہود کی سازشوں کے معمالات ۔
اگر کچھ کمی رہ جائے تو  ؟
سمجھ تے گئے ہو گے تسی ؟
جیّد علماء ہیں ناں جی !!،۔
اور اگر کبھی
کوئی آئینہ دیکھا دے
کہ پڑوسی ترقی کرتے جا رہے ہیں تو؟
ان کافروں کے لئے صرف اس دنیا کا حصہ ہے
ان کے لئے آخرت میں کوئی اجر نہیں ہے ۔
مولا خوش رکھے ، تسی بڑے گریٹ لوگ او !!!۔

Popular Posts