وہ اللہ کو رب مانتے تھے
بادبانوں والے اس بحری جہاز پر ، مولوی وہ صرف دو ہی تھے ۔
مہینوں کا سفر تھا ، زیارت کے لئے حجاز کی طرف سفر میں شامل سب لوگ ہی مولوی صاحبان کی عزت کرتے تھے ۔
سمندر میں ، دور ایک سرمئی سی لکیر دیکھ کر مولوی صاحب نے اشارہ کر کے جہازی سے پوچھا
وہاں اس جزیرے کا کیا نام ہے ۔
اس جزیرے کو بابا کا جزیرہ کہتے ہیں ۔
جہازی نے بتایا کہ اس جزیرے میں کوئی ابادی نہیں ہے ،۔
بس دو بابے رہتے ہیں ۔
نہ کسی سے کچھ مانگتے نہ کسی پر انحصار کرتے ہیں ،مچھیرے جب ان کے جزیرے پر اترتے ہیں تو یہ بابے مچھیروں کی بھی خدمت کرتے ہیں ۔ لیکن کسی سے لیتے کچھ نہیں ۔
بس اپنی کاشت کاری کرتے ہیں ،اور مچھلیاں پکڑ کر بھوک مٹاتے ہیں ۔
اس جزیرے پر پہنچنے والوں کو کچھ نہ کچھ دے کر خوش ہوتے ہیں ۔
اپ کو معلوم ہی ہے مولوی صاحب ، غریب مچھیرے دو مٹھ چاول یا تھوڑے سے جو کے دانوں سے خوش ہو جاتے ہیں ۔
مولی صاحب نے جہاز کے کپتان سے درخواست کی کہ ہم نے ان بابوں کو ملنا ہے
جہاز کو اس جزیرے کی طرف موڑو ، ہم ان بابوں کو دین کی باتیں بتانی چاہتے ہیں ۔
جہاز جزیرے کی طرف موڑ لیا گیا ، سب زیارتی لوگ بھی خوش تھے کہ چلو چند دن خشکی پر گزار لیں گے ۔
جہاز کے ساحل کر لگتے ہی بابے ریت پر آن کھڑے ہوئے ، انہون نے بڑی خوشی کا اظہار کیا کہ
اوپر والے نے ان کے پاس مہمان بھیجے ہیں ۔
افریقہ کے ایک بڑے علاقے میں بولی جانے والی بولی میں وہ بابے بات کر رہے تھے ۔
جب انہوں نے اوپر والے کا کہا تو مولوی نے پوچھا کہ
کیا تم اوپر والے کو جانتے ہو ؟
ہاں ! ہم اس کو اللہ کہہ کر پکارتے ہیں ۔
اللہ جو سارے جہانوں کا مالک ہے ۔
وہ ہم سے بہت پیار کرتا ہے ،اتنا پیار کہ ہم اس کے پیار سے دی گئی نعمتوں کو برتتے ہیں ۔ اور اس پیار میں مگن رہتے ہیں ۔
اللہ کے پیار میں بڑی لذت اور سرور ہے ۔
اسی میں ہم زندگی گزار رہے ہیں ۔
مولوی نے پوچھا کیا تم اس کو پکارنے کا صحیح طریقہ جانتے ہو ۔
سادہ دل بابوں نے انکار میں سر ہلا دئے اور پوچھنے لگے کہ وہ کیا ہوتا ہے ۔
مولویوں نے ان کو بتایا کہ عبادت کے لئے نماز اور دیگر عبادات ہوتی ہیں ان کو سیکھنا پڑے گا ۔
بابے بڑے خوش ہوئے کہ اللہ کی عبادت کا ہمیں بھی سکھا دو ۔
مولویوں سارا دن لگا کر بمشکل ان کو کلمہ اول سکھایا۔
بوڑہی عمر کے طوطے کی طرح رٹا لگانے پر بھی یاد مشکل تھا
بابے بار بار بھول جاتے تھے
لیکن بڑی ہی خلوص نیت سے سیکھتے رہے ۔
نماز کے متعلق جب سبق شروع ہوا تو سورہ الحمد پر ہی پورا دن گزر گیا ۔
پانچ دن کے قیام میں جو ہو سکا مولوی حضرات نے ان کو سکھایا
بابے بڑے خوش تھے کہ اب وہ اللہ کی خوش نودی کے لئے زیادہ بہتر عبادت کر سکیں گے
بڑے شوق سے سارا سار دن رٹے لگا رہے تھے
کبھی کہیں اٹک جاتے تو مولوی ان کو یاد کروا دیتے
پانچویں دن صبح سویرے فجر کی نماز کے بعد جہاز نے لنگر اٹھائے اور سفر پر روانہ ہوا ۔
بابے بڑے شوق سے الوداع کرنے کے لئے ساحل کی ریت پر دیر تک ہاتھ ہلاتے رہے ۔
جہاز کوئی دو میل گیا ہو گا کہ جہازیوں کو پیچھے سے کوئی پکارنے کی آوازیں آنے لگیں ۔
سپیدہ سحر میں دور سمندر کے پانی کے چھینٹوں کی دھول سی اڑتی نظر آئی ایسا لگ رہا تھا کوئی چیز جہاز کی طرٖف دوڑتی چلی آ رہی ہے ۔
جہاز کے بادبان کھینچ کر انتظار کیا جانے لگا کہ لمحوں میں وہ نظر انے لگے
وہ دونوں بابے پانی پر دوڑتے چلے آ رہے تھے ۔
ان کی سانس پھولی ہوئی تھی ۔
مولوی ان کو دیکھنے کے لئے جہاز کی دیوار پر جھک آئے ۔
جہاز کے پاس پہنچ کران بابوں نے پھولی ہوئی سانسوں سے کہا
بوڑہی عمر میں سبق یاد نہیں آرہا تھا
سورة الحمد کی ترتیب ایک دفعہ پھر یاد کروا دیں ۔
مہربانی ہو گی!!!۔
مولوی یہ دیکھ کر کہنے لگا
اپ لوگ جس طرح عبادت کیا کرتے تھے اسی طرح کرتے رہو
اور ہمارے لئے بھی دعا کرنا کہ اللہ ہمیں بھی اپ جیسی عبادت نصیب فرمائے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں