اتوار، 7 جون، 2015

جنریشن گیپ


ریٹائیر پروفیسر صاحب ۔ شہر چھوڑ کر جب اپنے گاؤں جانے لگے تو پچھتر سال کی عمر کے اخری دفعہ جامعہ میں گئے
یادیں تازہ کرنے کے لئے ، کچھ منظر یادوں میں بسانے کے لئے ، کچھ خام مال جھاڑے کی اندھیری لمبی راتوں میں لطف لینے کے لئے ۔
انہوں نے دیکھا کہ ایک لڑکا بینچ پر بیٹھا پڑھائی میں مگن ہے ۔
ان کو اپنی جوانی کے دن یاد آ گئے کہ اسی طرح پڑھائی میں مگن ،دنیا سے الگ اپنی ہی دنیا میں ہوتے تھے ۔
پروفیسر صاحب اس لڑکے کے پاس  بنچ پر بیٹھ گئے ۔
لڑکے نے سر اٹھایا اور ایک معمر بندے کو دیکھ کر کچھ اس طرح گویا ہوا

کہ تم پچھلی نسل کے لوگ ! ہماری نسل کی ترقی کا ادراک بھی نہیں کر سکتے
جس دنیا میں اپ لوگ پیدا ہوئے تھے اج کی دنیا اس بلکل مختلف ہے ۔
وقت کو برتنے کا انداز ؟ تم لوگ سوچ بھی نہیں سکتے ۔
لڑکا لیکچر دینے والے انداز میں بات جاری رکھتا ہے ۔
اج کا جوان ٹی وی رکھتا ہے ، ہوائی جہاز ، خلاء کا سفر ، مائیکرو ویو اون استعمال کرتا ہے ۔
میں درجنوں کتابیں ، اج ایک چھوٹی سی چیپ میں لے کر چلتا ہوں ۔
اج کا جوان بجلی ، ہائیٹروجن اور ہائی بریڈ کاریں استعمال کرتا ہے ۔
ہم جو کمپیوٹر استعمال کر رہے ہیں ، اس کی سپیڈ روشنی کی رفتار سے زیادہ ہے ۔
یہاں تک پہنچ کر جوان لڑکا سانس لینے کو رکا ۔
تو پروفیسر صاحب نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور بات کرنے لگے
ہاں بیٹا !! ایسا ہی ہے
جب ہم یعنی میری نسل کے لوگ پیدا ہوئے تھے تو یہ چیزیں نہیں تھیں
اس لئے ہم نے اور ہماری نسل کے لوگون نے ایجاد کر کے اپ کو دیں ۔
بیٹا جی اگر میری نسل کے لوگون کو طعنہ دینا ہی ہے تو
اس بات کا دو کہ تمہاری نسل کے لوگ انے والی نسلوں کے لئے کیا بنا رہے ہو جو چھوڑ کر جاؤ گے ؟؟؟؟؟۔
حاصل مطالعہ
جہاں ڈیگریوں  والوں کی ڈگریاں نقلی اور تعلیم یافتاؤں کی تعلیم نقل سے حاصل کی گئی ہو
اس معاشرے کے سینئیرز نے کیا چھوڑا؟
اور اج کے جوان ،انے والی نسلوں کے لئے کیا چھوڑ کر جائیں گے ؟

کوئی تبصرے نہیں:

Popular Posts