ہفتہ، 30 مئی، 2015

اہل دل لوگ


معذور بچوں کے لئے انگریزی ایک لفظ رائج ہے ۔
سپیشل چائلڈ
دو سال پہلے برطانیہ میں اس بات کی مہم چلی تھی کہ
ایسے بچوں کو پالنے والے والدین کو سپیشل پیرینٹس کہاجائے۔
کیونکہ
جس کرب اور مشقت سے ان والدین کاواسطہ ہے
اس کرب کو کوئی دل والا ہی محسوس کر سکتا ہے
یا پھر میرا رب ۔
ایسے والدین خاص طور پر والدہ  کے لئے تو ایسے بچے کی پرورش چوبیس گھنٹے کا کام ہوتا ہے  ۔
ایک معذور بیٹے کی ماں  ، جس کے بیٹے کا جسم مفلوج ہے اور ذہن بھی چند ماھ کے بچے سے زیادہ ترقی نہ کر سکا ،۔
اس کی ماں ایک دن بتا رہی تھی کہ “ حارث “ کی رات کو سوتے سوتے سانس رک جاتی ہے ۔ کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ رال اس کے حلق میں روکاوٹ بن کر سانس کو بند کر دیتی ہے ۔
اگر ایسے میں کوئی حارث کی مدد نہ کرئے تو حارث کی زندگی کا اختتام بھی ہو سکتا ہے  ۔
اس لئے جب بھی  حارث کی سانس رکتی ہے
رات کو جاگ کر میں اس کی گرن سیدہی کر کے ، جگا کے اس کی مدد کرتی ہوں ۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوا کہ
رات کو میٹھی نیند سوئے ہوئے ، کیسے علم ہوتا ہے کہ
معذور بچے کی سانس رک گئی ہے ۔
جب کہ سانس رکنے سے کوئی شور بھی تو پیدا نہیں ہوتا ، معذور بچہ کوئی  پکار بھی نہیں کر سکتا
تو کیسے علم ہوتا ہے ؟
تو حارث کی ماں نے بتایا
ایک ماں کو اس بات کا علم ہو جاتا ہے
اور نامعلوم حس ہوتی ہے جو ایک ماں کو جگا کر دیتی ہے !!۔

جاپان میں ایسے بچوں کی تعلیم کا بھی انتظام ہوتا ہے
کیا تعلیم دیتے ہوں گے ؟
بس یہی کہ اپنے جسم کو کیسے بچانا ہے ۔ جو بچے بات کو سن کر ردعمل دیکھا سکتے ہیں ، ان کو معاشرے کے لئے کارآمد فرد بنانے کے لئے ایسا بنا دیا جاتا ہے کہ فیکٹریوں یا کہ ملوں میں کسی سادہ سے کام پر لگے رہیں اور کوئی چیز بنا بنا کر  کام کرتے رہیں ۔
دن رات معذور بچوں کی پرورش  ایسے والدین کی  زندگی کو انجوائے کرنے کی حس ہی مر  جاتی ہو گی  ۔
ان کو گیت سنگیت کا کیا لطف آتا ہو گا ؟
ان کو محفلوں میں بیٹھنے کا کیا موقع ملتا ہو گا ؟
ان کو کمائی کے کیا مواقع ہوں گے ؟
لیکن میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ اسے والدین  مفلس کم ہی ہوتے ہیں ۔
اور ان کے دل بھی بڑے ہوتے ہیں ۔ صرف اپنے بچے کے لئے ہی نہیں بلکہ سب کے لئے  ۔
اپنے گھر میں اگائی ہوئی سبزیاں ، یا کہ فصل اٹھنے پر
معذور بچوں کے والدین کو ، میں عام لوگوں کی نسبت زیادہ فراخ دل پایا پے  ۔
پھر بھی اخر انسان ہیں  ، انسانی برداشت کی ایک حد ہوتی ہے  ، بچوں پر غصہ بھی آتا ہو گا
اپنی قسمت پر شکوے بھی پیدا ہوتے ہوں گے  ۔
 زندہ معاشروں میں جیسے کہ
جاپان میں ایسے والدین کا بوجھ بٹانے کے لیے کچھ تنظیمیں کام کرتی ہیں ۔
جو کہ چھٹی کے دن ایسے بچوں کو  ، ان کے والدین کی بجائے  پارکوں میں ، کھیل کے میدانوں میں
سمندر کی سیر یا کہ جھولے جھولنے کے لئے لے کر جاتے ہیں ۔
تاکہ سپیشل پیرینٹس  ، جو کہ چوبیس گھنٹے ان بچوں کے لئے ہلکان ہو  چکے ہوتے ہیں ان کو بھی ایک دن چھٹی مل جائے اور کہیں جا سکیں یا کہ ناں
کم از کم گھر میں کچھ گھنٹے بے فکر ہو کر سو تو سکیں  ۔
مزے کی بات یہ کہ ان تنظموں  کو بھی اس سے کوئی کمائی نہیں ہے  ۔
یہاں کام کرنے والے لوگ  وہ ہیں جو ریٹائر ہو چکے ہیں یا پھر اتنے دولت مند کہ کمائی سے زیادہ کچھ کرنے کے جذبے سے سرشار ہیں ۔
میں ایسے لوگوں کو اہل دل کہوں گا
کہ جو اپنے اپ ( خود غرضی) سے بہت اوپر اٹھ چکے ہوتے ہیں اور اب دوسروں  کی مدد کر کے لطف لیتے ہیں ۔

میں یہاں اپنے بچوں کے ساتھ پارک میں ہوں
جہاں معذور بچوں کو لے کر کچھ “دل والے” لوگ بھی ان کو سیر کروانے آئے ہوئے ہیں ۔
ایک ایک بچے کے ساتھ ایک نفر ہے
ایک سیکنڈ بھی نظر ہٹانے کی مہلت نہیں ہے۔
کچھ بچے اب بچے نہیں رہے ، ایک اٹھارہ سال کا لڑکا ، جو کہ ذہنی طور پر تو ایک بچہ ہے لیکن جسمانی طور پر ایک بھر پور مرد ، اگر یہ بچہ ضد کر جائے تو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا اس لئے ایسے بچے کے ساتھ تین یا چار لوگ تھے اور ایسے چوکنا ہو کر چل رہے تھے
 جیسے کسی وی آئی پی  کے ساتھ چوکنا گارڈ چلتے ہیں ۔
 وی آئی پی کے گارڈ تو اس خطرے سے چوکنا  چلتے ہیں کہ کوئی وی آئی ہی پر حملہ نہ کر دے
لیکن یہ لوگ اس لئے ایکٹو ہو کر چل رہے تھے کہ یہ بچہ کسی پر حملہ نہ کر دے ۔
لیکن دل ہے کہ اس بچے کو بھی انجوائے کروانا چاہتا ہے
اور اس کو پارک کی سیر پر لے کر آئے ہوئے ہیں  ۔

ایسے میں ایک دس سالہ معذور بچہ اپنے پچاس سالہ اٹینڈینٹ کے منہ پر تھپڑ رسید کر دیتا ہے ۔
میں دیکھ رہا تھا
اس اٹنڈنٹ نے بچے کو پکڑ کر اس کی انکھوں میں انکھیں ڈال کر کئی دفعہ یہ کہا
مارنے سے درد ہوتا ہے ، کیا میں مار کر دیکھاؤں ؟
اور بچہ ہے کہ انکھوں میں انکھیں ڈال کر  دیکھ رہا ہے ۔
اٹینڈنٹ پھر کہتا ہے ، مارنے سے درد ہوتا ہے ، کیا میں مار کر دیکھاؤں ؟
اس فقرے کی تکرار نے بچے کو سر جھکانے پر مجبور کر دیا ۔
جاپانی ایک عظیم قوم ہیں ، ان کی اس عظمت کی بنیاد ان کا اخلاق اور اصول ہیں ۔
کیا اپ کے ارد گرد کوئی اسپیشل پیرینٹس ہیں ؟
کیا اپ نے کبھی ان کے کسی کام آنے کا سوچا ہے ، احساس کیا ہے ۔
یاد رہے کسی کے کام آنا اس کو پیسے دینا نہیں ہوتا ۔
خود دار لوگ بھیک نہیں لیا کرتے ، لیکن درد بھرے دل سے ان کے بچے کو کبھی کبھی اپنا بچہ سمجھ کر ،اس بچے کے ساتھ کھیل لینے سے  والدین کے دل ضرور کھل اٹھیں گے ۔

Popular Posts