پھر دوسری دفعہ کا ذکر ہے
دوسری دفعہ کا ذکر
کہ
خان ، مغل اور سید نامی بندوں نے جسم کی فضول چربی سے تنگ جس سے ان کے جسم ڈھلکے ہوئے تھے گامے کو کہا کہ ہم کو بھی کبھی ہائیکنگ پر لے کر چلو ، ہم بھی شائد تمہاری طرح نائس باڈی نظر آنے لگیں ۔
گاما ان سب کو لے کر پہاڑوں پر ہائکنگ کے لئے پہنچ گیا ۔
فارمی مرغیاں کھا کھا کر بیماریوں سے ہلکان ، تینوں صالحین کی سہولت کا خیال کرتے ہوئے گامے نے پہاڑ بھی اسان سا چنا تھا کہ ایک دن میں پہاڑ کر سر کرکے رات گھر پر گزاریں گے ۔
پہاڑ پر چلتے چلتے ایک چھوٹا سا بادل بارش برساتا گزرا تو سب صالحین نے نزدیکی کھوہ میں پناھ لی ۔
لیکن بد قسمتی کہ زلزلے کے جھٹکے بھی اسی وقت انے تھے کہ ایک پتھر لڑھک کر کھوہ کے منہ پر آ ٹکا اور باہر نکلنے کا راستہ بند ہو گیا ۔
خود کو تنگ جگہ پر مقید پا کر صالحین کے رنگ فق ہو گئے ، اور لگے واویلا کرنے ، گاما ان سب کا منہ دیکھ رہا تھا ۔
سید نامی بندے کو حکایت صالحین کی وہ کہانی یاد آ گئی جس میں ان ہی کی طرح کچھ لوگ غار میں پھنس گئے تھے اور انہوں نے اپنی اپنی زندگی کی نیکیاں خدا کو جتلا جتلا کر غار کے منہ پر اٹکا ہوا پتھر سرکا لیا تھا ۔
سب سے پہلے مغل نے اپنی زندگی کی نیکیاں جتلانی شروع کیں
کہ کس طرح اس نے مسجد کی خدمت کر کر کے کیا کیا نیکیاں کی ہیں
لیکن پتھر زرا بھر بھی نہ سرکا !!،۔
اس کے بعد خان نے اپنی نیکیاں جتلانی شروع کیں کہ کس طرح اس نے جرگوں میں مظلوموں کو صبر کی تلقین اور ظالموں کو درگزر کے واعظ کئے تھے ۔
لیکن پتھر پھر بھی ذرا بھر نہ سرکا ۔
اس کے بعد سید صاحب نے اپنے سید ہونے کی مسجد کے متولی ہونی کی اور بھیک مانگ مانگ کر مسجد پر لگانے کی نیکیاں بڑے رقت بھرے انداز میں جتلائیں ۔
لیکن پتھر پھر بھی نہ سرکا ۔
ان سب کی یہ حرکات دیکھتا ہوا گاما ، گویا ہوا
اوئے منافقو !!۔
خود سے بھی جھوٹ بولتے ہو ، اور خدا سے بھی جھوٹ بولتے ہو ،؟
اوئے منافقو ، میں بھی تو تم لوگوں کو دیکھتا رہتا ہوں ۔ بھیک مانگتے ہو ، سود کھاتے ہو ، باعزت لوگوں کی عزت اچھالتے ہو ،۔
اور پھر کہتے ہو کہ کیونکہ جس کا باپ بڑا کاروباری ہے وہ معافی نہیں مانگے گا ۔
بد بختو !۔
جس پر سب صالحین نے یک آواز کہا کہ اچھا تو تم بتاؤ اپنی نیکیاں
کہ ان سے شائد پتھر سرک جائے !!۔
ان کی یہ بات سن کر
گامے نے جیب سے جدید ترین ماڈل کا آئی فون نکالا اور ریکسیو والوں کو فون کیا کہ میرے فون کو ٹریس کر کے میری مدد کو پہنچو
میں یہان کھوہ میں پھنس گیا ہوں ۔
اور تھیلے سے کافی کا ٹین نکالا اور کھول کر دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر چسکیاں لینے لگا اور گنگنانے لگا ۔
ہیر آکھدی جوگیا ، جھوٹ بولیں
وے کون وچھڑے یار مالاوندا ای !!!۔
کہ
خان ، مغل اور سید نامی بندوں نے جسم کی فضول چربی سے تنگ جس سے ان کے جسم ڈھلکے ہوئے تھے گامے کو کہا کہ ہم کو بھی کبھی ہائیکنگ پر لے کر چلو ، ہم بھی شائد تمہاری طرح نائس باڈی نظر آنے لگیں ۔
گاما ان سب کو لے کر پہاڑوں پر ہائکنگ کے لئے پہنچ گیا ۔
فارمی مرغیاں کھا کھا کر بیماریوں سے ہلکان ، تینوں صالحین کی سہولت کا خیال کرتے ہوئے گامے نے پہاڑ بھی اسان سا چنا تھا کہ ایک دن میں پہاڑ کر سر کرکے رات گھر پر گزاریں گے ۔
پہاڑ پر چلتے چلتے ایک چھوٹا سا بادل بارش برساتا گزرا تو سب صالحین نے نزدیکی کھوہ میں پناھ لی ۔
لیکن بد قسمتی کہ زلزلے کے جھٹکے بھی اسی وقت انے تھے کہ ایک پتھر لڑھک کر کھوہ کے منہ پر آ ٹکا اور باہر نکلنے کا راستہ بند ہو گیا ۔
خود کو تنگ جگہ پر مقید پا کر صالحین کے رنگ فق ہو گئے ، اور لگے واویلا کرنے ، گاما ان سب کا منہ دیکھ رہا تھا ۔
سید نامی بندے کو حکایت صالحین کی وہ کہانی یاد آ گئی جس میں ان ہی کی طرح کچھ لوگ غار میں پھنس گئے تھے اور انہوں نے اپنی اپنی زندگی کی نیکیاں خدا کو جتلا جتلا کر غار کے منہ پر اٹکا ہوا پتھر سرکا لیا تھا ۔
سب سے پہلے مغل نے اپنی زندگی کی نیکیاں جتلانی شروع کیں
کہ کس طرح اس نے مسجد کی خدمت کر کر کے کیا کیا نیکیاں کی ہیں
لیکن پتھر زرا بھر بھی نہ سرکا !!،۔
اس کے بعد خان نے اپنی نیکیاں جتلانی شروع کیں کہ کس طرح اس نے جرگوں میں مظلوموں کو صبر کی تلقین اور ظالموں کو درگزر کے واعظ کئے تھے ۔
لیکن پتھر پھر بھی ذرا بھر نہ سرکا ۔
اس کے بعد سید صاحب نے اپنے سید ہونے کی مسجد کے متولی ہونی کی اور بھیک مانگ مانگ کر مسجد پر لگانے کی نیکیاں بڑے رقت بھرے انداز میں جتلائیں ۔
لیکن پتھر پھر بھی نہ سرکا ۔
ان سب کی یہ حرکات دیکھتا ہوا گاما ، گویا ہوا
اوئے منافقو !!۔
خود سے بھی جھوٹ بولتے ہو ، اور خدا سے بھی جھوٹ بولتے ہو ،؟
اوئے منافقو ، میں بھی تو تم لوگوں کو دیکھتا رہتا ہوں ۔ بھیک مانگتے ہو ، سود کھاتے ہو ، باعزت لوگوں کی عزت اچھالتے ہو ،۔
اور پھر کہتے ہو کہ کیونکہ جس کا باپ بڑا کاروباری ہے وہ معافی نہیں مانگے گا ۔
بد بختو !۔
جس پر سب صالحین نے یک آواز کہا کہ اچھا تو تم بتاؤ اپنی نیکیاں
کہ ان سے شائد پتھر سرک جائے !!۔
ان کی یہ بات سن کر
گامے نے جیب سے جدید ترین ماڈل کا آئی فون نکالا اور ریکسیو والوں کو فون کیا کہ میرے فون کو ٹریس کر کے میری مدد کو پہنچو
میں یہان کھوہ میں پھنس گیا ہوں ۔
اور تھیلے سے کافی کا ٹین نکالا اور کھول کر دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر چسکیاں لینے لگا اور گنگنانے لگا ۔
ہیر آکھدی جوگیا ، جھوٹ بولیں
وے کون وچھڑے یار مالاوندا ای !!!۔
2 تبصرے:
آپ نے تو میرے "دل" کا چور پکڑ لیا
خوب اینڈنگ کی بھائی
ایک تبصرہ شائع کریں