چینی زبان میں الفاظ کی کمی
چین ! جہاں پچھلی کتنی نسلوں سے ایک بچہ پیدا کرنے کی پابندی تھی ، شائد اب بھی ہے ۔
وہاں ، کئی دوسرے مسائل کے ساتھ ساتھ ایک مسئلہ زبان میں زخیرہ الفاظ کی کمی کا واقع ہوا ہے ۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ ابادی کی کمی سے زخیرہ الفاظ کی کمی کیا تعلق ؟
معاملہ اس طرح ہوا ہے کہ
ایک بچہ پیدا کرنے کی پابندی کی وجہ سے شہر کے شہر گانؤں کے گانؤں ایسے بن گئے کہ ہر گھر میں ایک ایک بچی یا بچہ تھا ۔
جب یہ بچہ اور بچی جوان ہوئے تو ان کی شادیاں بھی ہو گئیں ،۔
شادی کے بعد عورت کو ملے ایک ساس سسر اور خاوند کو بھی ملے ساس سسر !۔
لیکن بیوی کو ، نند ، دیورانی ،جیٹھانی ، یا جیٹھ ، دیور ، نام کے رشتوں کا علم ہی نہیں ہے کہ اس بیچاری کے ساتھ ساتھ اس کی ساری سہلیاں بھی ان سبھی رشتوں سے محروم ہیں ۔
خاوند کو سانڈو ، نامی رشتے کا تصور ہی نہیں ہے کہ اس کے اردگرد اس کے کسی بھی دوست کا سانڈو ( ہم زلف) ہے ہی نہیں ۔
ان جوڑے کی جو اولاد ہوئی ان کو ، ماموں ، ممانی ، خالہ ، خالو ، چاچا ، چاچی ، تایا ، تائی نامی رشتوں کا ادراک ہی نہیں ہے ۔
بہن بھائی ، بھائی بہن نامی رشتے تو ناپید ہوئے ہی تھی کئی اور رشتے بھی ناپید ہو گئے ۔
چینی زبان جو کہ ایک وسیع زبان ہے رشتوں کے معاملے سکڑتی چلی گئی ۔ کتابوں میں اگر ان رشتوں کا کہانیوں میں قصوں میں کہیں ذکر بھی ہو تو
کیا ان قارین کا تصور ان کو ان رشتوں کے ہونے کا ادراک دے گا ؟
نہیں !!۔
اور انے والے چینی زبان کے ادب میں ان رشتوں کا ذکر بھی نہیں ہو گا کیوں کہ پچھلی جار دہایوں میں پرورش پانے والے چینوں نے یہ رشتے نہ دیکھے ہیں اور نہ محسوس کئے ہیں ۔
اس لئے ان کے لکھنے والے بھی وہی لکھیں گے جو انہوں نے دیکھا ہے ۔
الفاظ کی کمی کا احساس اگر ایک دو صدی بعد پیدا بھی ہوا تو ، ہو سکتا ہے کہ اس زمانے کا چینی یہ سوچے کہ چینی زبان رشتوں کے معاملے میں ایک غریب زبان ہے
اور اس کو ان رشتوں کے نام لینے کے لئے دوسری زبانوں کا محتاج ہونا پڑے ۔
وہاں ، کئی دوسرے مسائل کے ساتھ ساتھ ایک مسئلہ زبان میں زخیرہ الفاظ کی کمی کا واقع ہوا ہے ۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ ابادی کی کمی سے زخیرہ الفاظ کی کمی کیا تعلق ؟
معاملہ اس طرح ہوا ہے کہ
ایک بچہ پیدا کرنے کی پابندی کی وجہ سے شہر کے شہر گانؤں کے گانؤں ایسے بن گئے کہ ہر گھر میں ایک ایک بچی یا بچہ تھا ۔
جب یہ بچہ اور بچی جوان ہوئے تو ان کی شادیاں بھی ہو گئیں ،۔
شادی کے بعد عورت کو ملے ایک ساس سسر اور خاوند کو بھی ملے ساس سسر !۔
لیکن بیوی کو ، نند ، دیورانی ،جیٹھانی ، یا جیٹھ ، دیور ، نام کے رشتوں کا علم ہی نہیں ہے کہ اس بیچاری کے ساتھ ساتھ اس کی ساری سہلیاں بھی ان سبھی رشتوں سے محروم ہیں ۔
خاوند کو سانڈو ، نامی رشتے کا تصور ہی نہیں ہے کہ اس کے اردگرد اس کے کسی بھی دوست کا سانڈو ( ہم زلف) ہے ہی نہیں ۔
ان جوڑے کی جو اولاد ہوئی ان کو ، ماموں ، ممانی ، خالہ ، خالو ، چاچا ، چاچی ، تایا ، تائی نامی رشتوں کا ادراک ہی نہیں ہے ۔
بہن بھائی ، بھائی بہن نامی رشتے تو ناپید ہوئے ہی تھی کئی اور رشتے بھی ناپید ہو گئے ۔
چینی زبان جو کہ ایک وسیع زبان ہے رشتوں کے معاملے سکڑتی چلی گئی ۔ کتابوں میں اگر ان رشتوں کا کہانیوں میں قصوں میں کہیں ذکر بھی ہو تو
کیا ان قارین کا تصور ان کو ان رشتوں کے ہونے کا ادراک دے گا ؟
نہیں !!۔
اور انے والے چینی زبان کے ادب میں ان رشتوں کا ذکر بھی نہیں ہو گا کیوں کہ پچھلی جار دہایوں میں پرورش پانے والے چینوں نے یہ رشتے نہ دیکھے ہیں اور نہ محسوس کئے ہیں ۔
اس لئے ان کے لکھنے والے بھی وہی لکھیں گے جو انہوں نے دیکھا ہے ۔
الفاظ کی کمی کا احساس اگر ایک دو صدی بعد پیدا بھی ہوا تو ، ہو سکتا ہے کہ اس زمانے کا چینی یہ سوچے کہ چینی زبان رشتوں کے معاملے میں ایک غریب زبان ہے
اور اس کو ان رشتوں کے نام لینے کے لئے دوسری زبانوں کا محتاج ہونا پڑے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں