بقا کی جبلت
جس طرح جانوروں میں اپنی بقا کی جبلت پائی جاتی ہے اسی طرح آدمیوں میں بھی پائی جاتی ہے
اور آدمیوں میں بھی
سب سے زیادہ مضبوط جبلت مراثیوں کی ہے ۔
یہ واحد لوگ ہیں جو کسی بھی قسم کے حالات میں ڈھلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ،
پبلک کے جذبات کو کیش کروانے کا فن ان کو آتا ہے ۔
ہند میں اسلام کی آمد کے ساتھ ہی انہون نے ہندو موسیقی کو مسلمان کر کے اپنا اپ قائم رکھا اسیطرح
آج کے پاکستان میں یہ لوگ سید بن چکے ہیں ۔
اور جس چیز کی قوم میں ڈیمانڈ ہے ،اسی کی سپلائی کر رہے ہیں ۔
جب گانوں کی دیمانڈ ہے ،گانے جب نعتوں کی ڈیمانڈ ہو گی نعتیں ۔
ایک بے تکلف دوست تھا
کہا کرتا تھا
خاور یار ، تم ناں چاہے فرانس کے بہترین ڈیزائینروں کے ڈیزائین کئے ہو سوٹ پہن لو
رب نے تمہیں پرسنیلٹی بھی انتہا کی دی ہوئی ہے ۔
ساری دنیا دھوکا کھا سکتی ہے
لیکن
جب بھی تم کسی گدھے کے پاس سے گزرو کے ، اس گدھے کی ڈر سے پیٹھ جھک جائے کہ کہیں کونی مار کر پسلیاں ناں سینک دے ۔
کیونکہ
کسی اور کو پتہ چلے ناں چلے گدھے کو پتہ چل جائے گا
کہ سوٹ کے اندر ایک کمہار ہے ۔
مجھے کوئی شک نہیں کہ
ہند کے سبھی قبائل میں سے سب سے بڑھ کر خوش ذوق ، زیرک ، اہل علم اور نفیس ترین لوگ جو ہیں وہ مراثی ہیں ۔
اس لئے کسی بھی قبیلے کے فرد کا قبیلہ بدلنے پر بھانڈا پھوٹ سکتا ہے
کہ
سوٹ کے اندر کمہار ہی ہو گا
لیکن
جب ایک مراثی کوئی بہروپ بھرے کا تو؟
وہ ایک بہترین بھروپ ہو گا
چاہے گانے والے کا ہو یا قوالی کا
چاہے مرثیہ گو کا ہو یا پاپ گانے والے کا
یا فیر اقوال بزرگاں سنا سنا کر مسلمانوں کا برہمن بننے کا
مراثی ایک استاد قبیلہ ہے ، میری یہ مجال کہ میں ان کی انسلٹ کا سوچوں
میں تو صرف ایک بات کا ذکر کر رہا ہوں کہ
جانوروں کی بقا کی جبلت کی ایک بہترین مثال کیا ہو سکتی ہے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں