جمعہ، 27 ستمبر، 2013

ہم جنس لوگ اور مذاہب

قدیم یونانیوں میں سے کسی نے لکھا تھا کہ
انسانی جسم کی ساحت اس طرح نہیں تھی جیسی کہ اج ہے
بلکہ انسان ایک گول بیضوی شکل کی کوئی چیز تھے ۔
جو کہ اپنی جگہ  مکمل جنس تھے
دیوتاؤں نے ان کو علیحدہ کر دیا ، جو کی وجہ سے یہ دو جسم  ، عورت اور مرد  بن گئے ۔
لیکن کچھ جسم ایسے بھی تھے جو دو ہو کر بھی جنس مخالف نہیں بلکہ  اپنی ہی جنس میں رہے ۔
کہ  مرد سے مرد اور عورت سے عورت۔
انسان کو جو جنس کی اشتہا ہوتی ہے یہ چیز اصل میں اپنے جسم کے دوسرے حصے کی تلاش ہوتی ہے ۔
کہ وصل کے دوران انسان بار بار اپنی اسی ساخت کی تکرار کرتا ہے جس میں دیوتاؤں  کے علیحدہ کرنے سے پہلے تھا ۔
دوسری قسم کے لوگوں میں بہت زیادہ ذہانت اور فن کاری بھی ذکر ملتا ہے ۔
دنیا کی کسی بھی معاشرت میں ہم جنس پرستی موجود ہوتی ہے جو کہ قدیم یونانیون کی اس  ناقابل ہضم فلسفے سے میل کھاتی ہے۔
لیکن دوسری طرف ،دنیا کے سبھی مذاہب ہم جنس پرستی کی مخالفت کرتے ہیں ۔
کیوں؟
کیونکہ مذاہب ، معاشرت میں سدہار اور استوار چاہتے ہیں ،
موجود انتشار کو جائز طریقے سے استوار کی شکل دیتے ہیں ۔
نسل انسانی کی بقا کی ہم سب کی بقا ہے اور اس بقا کا کوڈ اس بات میں ہے کہ انسان اپنے جیسے انسان پیدا کریں ۔
جو کہ جس مخالف کے ملاپ سے ہی ممکن ہے۔
قدیم مذاہب میں ترک دینا کا رواج پایا جاتا ہے
جو کہ جدید مزہب میں بھی سرایت کرتا چلا گیا
لیکن مجموعی طور پر معاشروں نے ایسے لوگوں جس بھی روپ میں عزت دی اس کے پیچھے جذبہ ترحم ضرور رہا ۔
لیکن ہم جنس پرستی کی کسی بھی مذہب نے تائد نہیں کی۔
لیکن کیا مذاہب کی مخالفت سے یا کہ پاکستان کے زیادہ ہی مذہبی معاشرے میں ہم جنس پرستی نہیں پائی جاتی؟
میرے خیال میں پاکستان میں تعلیم کی ضرورت ہے، تعلیم کی ، نہ کہ تعلیم کے نام پر مغالطوں اور مبالغوں کی!!۔
میں اپنی ایک پرانی پوسٹ کا لنک دیتا ہوں کہ
http://khawarking.blogspot.jp/2009/10/blog-post_05.html
یہاں دیکھیں  کہ چار سال پہلے لکھی اس پوسٹ میں میرا لہجہ کچھ زیادہ ہی تلخ اور اجڈ ہے لیکن امید ہے اپ لوگ پرداشت کرئیں گے

اور سات سال پہلے لکھی گئی یہ تحریر
http://khawarking.blogspot.jp/2006/12/blog-post_15.html

کوئی تبصرے نہیں:

Popular Posts