اتوار، 29 ستمبر، 2013

الفاظ کی ساخت

اگر بات کریں سکول میں گزارے تعلیی سالوں کی تو؟ اس وقت اردو میں بلاگ لکھنے والوں میں سب سے کم سال میں نے سکول میں گزارے هیں ـ
یه نہیں که میں بڑا ذهین تھا اور ایک ایک سال میں پٹوسیاں مارتا دو دو جماعتیں پاس کرتا گیا تھا۔ اس لئے کم سالوں میں زیادہ جماعتیں پاس کر لیں۔

 حقیقت یہ ہے که تکینک کی ترقی نے مجھے بھی اھل قلم میں شامل کر هی دیا ہے
کمپیوٹر کی تکنیک نے انٹر نیٹ کی تکنیک نے!۔
ورنہ میرے لکھے کو کس نے شائع کرنا تھا؟

اھل قلم جو زمانے کو الفاظ دیتے هیں ، الفاط رائج کرتے هیں
منو بھائی نے اپنے ایک ڈرامےسونا چاندی میں ایک لفظ دیا تھا '' بے فضول '' منو بھائی کا مقصد ایک لطیفه تھا
لطیفه نکلا ہے لطیف سے ، لطیف سی هوا
که نظر نهیں آتا اور دل کو چھو کرگزر جاتا ہے
یا کثیف سمجھ والوں کا نهیں لطیف سمجھ والوں کا کام ہے لطیفے کو سمجھنا
بے فضول جو که فضول ناں هو
اردو میں یه لفظ هی نهیں بنتا
لیکن بعد میں کسی انٹرویو میں منو بھائی نے اس تاسف کا اظہار کیا تھا که انہوں نے تو ایک لطیف سا مذاق کیاتھا لیکن معاشرے میں یه لفظ رائج هو گیا ہے
اردو مين بلاگ لکھنے والے یا وکی پیڈیا پر علمی کام کرنے والے لوگ بھی اب اس پوزیشن میں هیں که الفاظ کو رائج کرسکیں
لیکن سب سے پہلے تو ان لکھنے والوں کو احساس هونا چاھیے که یه کر کیا رہے هیں
ایک بلاگ لکھنے والے کا مقصد کومنٹ کا انتظار نهیں هونا چاھیے
بلکه یه سوج هونی چاھیے که انے والے زمانوں کے لوگ اپ کی تحریر پڑھ کر کیا سوچیں گے
جیسے که یه لوگ کیا کھاتے تھے کیا پہنتے تھے
ان کے عمرانی رویے کیا ھے
کن چیزوں پر ھنستےتھے اور کن پر مذمت یا پھر کڑتے تھے
وغیرھ وغیرھ
اگر کومنٹ کا حصول هی هو تو متنازعه موضوعات پر لکھيں
بدنام جو هوں گے تو کیا نام ناں هو گا
بد بن کے نام پیدا کرنا اسانی پسند لوگوںکا کام ہے اور مزے کی بات ہے که ان کو جب اس بات کا احساس هوتا ہے که یه راھ تو کانٹوں بھری ہے تو اس وقت تک پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا هوتا ہے
میںاس دفعه جب دوبارھ جاپان ایا هوں تو دیکھا که لوگوں نے اکروں کو سکریپ کرنے کے کارخانے لگا لیے هیں جس کو سب لوگ کھائیتائی کہتے هیں کیونکه جاپانی میں یه لفظ رائج هے
اور یا پھر یارڈ کا لفظ رائج ہے
اور جو لوگ صرف گاڑیوں کی خرید فروخت کرتے هیں وه اپنی جگه کے لیے لفظ استعمال کرتے هیں پارکنگ
جاپان میں پاکستانی لوگ امیر تو هیں لیکن اھل علم نهیں هیں
لیکن زیادھ تر خود کو عقل کل سمجھتے هیں
سمجھیں بھی کیوں ناں جی که ایک بندھ ڈکریاں لے کر سالهاسال سکول جا کر ایم بی اے کرکے بزنس میں آتاهے اور یہان جاپان میں میری طرح کا ایک بندھ انڈر میٹرک گاڑیوں کے کام میں آتا ہے
نوے کی دھائی میں گاڑی مفت مل جاتی تھی جو که افریقه یا لاطینی امریکه جا کر دس هزار ڈالر کی هوتی تھی
هر مہنیے پندرھ بیس گاڑیاں ایکسپوٹ کرنے والا
اور کچھ هی سالوں میں انٹرنیشنل لیول کا بزنس میں بن جاتا هے تو جی
ایسا بندھ هوا ناں جی عقل کل ؟
اب ایسا بندھ ایم بی اے کیے هوئے ڈگری هولڈر کو ملازم رکھ سکتا ہے
تو ایسے عقل کل لوگوں کو ڈیل کرنا بھی بڑا مشکل ہے
خاص طور پر اگر آپ امیر نهیں هیں تو
پچھلے سال میں نے بھی کوئی ادھا ایکڑ زمین کرائے پر لے کر اس میں ورکشاپ سی بنائی اور جس نے بھی پوچھا که کیا کررهے هیں تو میں نے بتایا که ورکشاپ بنا رهاهوں
تو ایک دفعه تو اس نے چونک کر دیکھا اور بہت سے نے دھرایا
ورک شاپ
ان دنوں میں کتنے هی لوگوں سے اپنی اپنی جگه کھائی تائی هو که یارڈ کو ورکشاپ کہنے کا سن رها هوں
بارپی کیو کو هماری بولی میں تکه پارٹی کہا کرتے تھي لیکن میرو جاپان کے پچھلے زمانے میں کیونکه همیں بھی انگریزی کا شوق تھا اس لیے تکه پارٹی کو باربی کیو هی کہا اور یه لفظ کیونکه جاپانی زبان میں بھی رائیج تھا اس لیے سب نے اس کو باربی کیو هی کها
اس دفعه جاپان انے کے بعد بہت سے لوگوں کو تکه پارٹی کرتے دیکھا
اور میں نے تکه پارٹی کا لفظ بولا تو پہلے پہلے تو لوگوں کو اجنبی لگا لیکن اب کچھ دوست باربیکیو کو تکه پارٹی کہنے لگے هیں
جاپان زبان میں بھی کئی الفاط هیں که ان کو پنجابی میں مثال دے کر لوکوں کو اکر بتایا تو وهی ان کی زبان پر چڑھ گیا
میں ان الفاظ کی تفصیل نهیں لکھوں گا کیوں که جاپانی ناں جاننے والوں کے لیے ایسی بات بے مقصد سی هو جائے گي
اس تحریر کا مقصد یه نہیں ہے که میں بہت سیانا هوں بلکه اس کا مقصد یه بتانا ہے که هماری قوم کا اپنی زبانوں کا زخیرھ الفاظ بھی کم هوتا جارها ہے
اکر کوئی شخص خوش قسمتی سے ایسے ماحول میں پلا بڑھا ہے که جہاں پشتو پنجابی ،سندھی سرائیکی یا بلوچی کے الفاظکو سمجھنے کا موقع ملا ہے تو ایسے بندے کو باھر نکل کر احساس هوتا ہے که پاکستان کے لوگوں کا زخیرھ الفاظ گھٹتا جارها هے

ہفتہ، 28 ستمبر، 2013

میرے ہم جنس


کند ہم جنس باہم جنس پرواز ۔ چڑی بہ چڑی باز بہ باز۔
فارسی کے اس مقولہ کا سوا ستیاناس کیا ہے جی
ورنہ دوسرا حصہ ہے
کبوتر بہ کبوتر ، باز بہ باز
جنس " کا لفظ میں نے پہلی بار اپنے بچپن میں ، اپنے دادا جی کے منہ سے سنا تھا۔"
انہوں نے یہ لفظ گندم کی جنس کے متعلق کہا تھا۔
وڈانک نام کی گندم کی زندگی کے اخری سالوں کی بات ہے جب امریکی گندم نئی نئی پاکستان میں آئی تھی۔
وڈانک کے پودے اتنے بڑے ہوتے تھے کہ کھڑا ہوا آدمی ان میں نظر نہیں اتا تھا
وڈانک سے بھوسا زیادہ اور دانے کم نکلتے تھے۔
اور امریکی گندم کا بوٹا چھوٹے قد کا ہوتا ہے
یعنی کہ بھوسا کم اور دانے زیادہ۔
بھوسا کم ہو ا تو جانوروں کا کھانا کم ہوا اور انسانوں کا کھانا زیادہ ہوا۔
اگر کوئی لائی مخلوق یا عمارے جانور بولنے کے قابل ہو تا ہم انسانوں کو انسانوں کا ہم جنس کہیں گے
کہ جیسا ہم ان جانوروں کو ان کی جس کی وجہ سے ہم جنس کہتے ہیں ،۔
کبوتر بہ کبوتر باز بہ باز
گندم کی جنسوں کا دادا جی سے بچپن میں سنا ہوا ہے کہ
میں جنس کے لفظ کو کسی چیز کی " قسم" کے طور پر ہی لیتا ہوں۔
جسن کا انگریزی ترجمعہ سیکس ، تو لفظوں  کی معونیت ہی بدل دیتا ہے
ایک لطیفہ
کہ
سکول سے واپس آئی چھ سات سالہ بچی نے ماں سے پوچھا کہ
ماما وٹ از دا سیکس؟
ترقی یافتہ قوم کی ماں نے سوچا کہ بچی سکول جاتی ہے اس کو ان باتوں کا علم ہو ہی جانا ہے اس لئے بچی کو حقیت بتا دینی چاہیے اس لئے ماں نے اس کو بتایا کہ
وہ عمل جو میں نے اور تمہارے پاپا نے کیا تھا تو تمہاری ولادت ہوئی تھی!!!۔
بچی کا منہ بن گیا اور روہنسائی سی ہو کر اس نے ایک فارم ماں کو دیکھایا کہ تیچر نے یہ فل کرکے لانے کا کہا تھا
اس میں ایک چھوٹا سا خانہ سیکس کا بھی ہے
اب اتنی لمبی بات میں اس چھوٹے سے خانے میں کیسے لکھوں گی؟
اس لئے
جسن کے لفظ کو اگر جنس کے ہی معنوں میں لیا جائے تو جی ہو چیز کی کوئی جنس ہوتی ہے
انسان انسان کے ہم جنس ہوتے ہیں تو کبوتر کبوتر کے ہم جنس!!۔
میں جو کہ اردو کا ایک بلاگر ہوں !!!۔
میرے ہم عصر دوسرے اردو بلاگر میرے م جنس بھی ہوئے
اور میں ان سب کو پسند بھی کرتا ہوں ۔
لیکن اس کا مطلب وہ والی ہم جنس پرستی نہیں ہو گا۔
جس کو انگریزی سے ترجمعہ کرتے ہیں ۔
قارئین اگر اپ میرے ہم جنسی کی ڈیفینیشنز کو قبول کر لیں تو؟
خاور بھی ایک ہم جنس پسند بندہ ہے جو کہ اپنے ہم جنسوں کے ساتھ مل جل کر رہتا  ہے
اردو کی بلاگنک کیا ہے ؟
کیا اپ کو علم ہے کہ اردو کی انٹر نیٹ کی دنیا میں بہت سے لوگ ایک نیا ادب لکھ رہے ہیں ۔
اور بغیر کسی لالچ کے لکھ رہے ہیں ۔
ان کے لکھے کو اپ اخباروں میں لکھنے والے پیشہ وروں میں سے کسی بھی تقابل کر کے دیکھ لیں
کوئی فرق نظر نہیں ائے گا
اگر کوئی فرق نظر بھی ائے گا تو یہ
کہ
ایک بندہ پیسے لے کر لکھتا ہے اور پیسے کی گرمی سے پر اعتماد ہے اور دوسرا بندہ ( بلاگر) بے لاگ لکھ رہا ہے
اس لئے بلاگر کے لکھے میں ہمکار نہیں ہے
 مندجہ ذیل لنک پر کلک کر کے دیکھیں کہ
http://urdu.gmkhawar.net/
اردو میں بلاگ لکھنے والے کیسا لکھ رہے ہیں ؟
میں فرداً فرداً سب کے نام لکھ کر اپ کا وقت برباد نہیں کروں گا لیکن خود سے دیکھیں کہ اردو کی ایک عجب دنیا بسائی ہوئے ہے انہون نے!!۔
کیا اپ اس دنیا سے واقف ہیں ؟
تو پھر اپ میڈیا کے ذہنی غلام بنتے چلے جائیں گے۔
میڈیا کی ذہنی غلامی سے بچنا ہے تو
ان ازاد لکھنے والوں کو بھی پڑھیں
اپ اردو کے سب رنگ کی لسٹ پر نظر روڑاہیں
اور پھر ساتھ میں اجاگر تحاریر کو پڑہیں ۔
اپ کو ایکٹو بلاگر اور سست بلاگر نظر آئیں گے۔
اپ نے خود اس بات کا اندازہ کرنا ہے کہ کس کے علم سے اپ کیا فائدہ اٹھا سکتے ہیں ؟
اردو کے سب رنگ کوئی ایک سائیٹ نہیں ہے بلکہ ڈیڑھ سو بلاگروں کے ڈیڑہ سو سائیٹوں کا مجموعہ ہے، جہاں سے اپ ان سب کی سائٹوں ایکسس کرتے ہیں ۔
یہاں اپ کو بلاگ بنانے کی مدد کرنے والے بھی مل جائیں گے اور ان بلاگروں کی محفلیں جمانے والے بھی مل جائیں گے
آئیں
اگر اپ اس بلاگ تک پہنچ ہی گئے ہیں تو
اج سے
اردو کے بلاگورں سے تعارف حاصل کریں ۔
کہ انتر نیٹ صرف چند اخباروں کی سائیٹوں کا ہی نام نہیں ہے
بلکہ
سوشل میڈیا تو ہیں ہی یہ بلاگر!!۔
http://khawarking.blogspot.jp/2012/10/blog-post_21.html
یہ ہے سوشل میڈیا۔

جمعہ، 27 ستمبر، 2013

ہم جنس لوگ اور مذاہب

قدیم یونانیوں میں سے کسی نے لکھا تھا کہ
انسانی جسم کی ساحت اس طرح نہیں تھی جیسی کہ اج ہے
بلکہ انسان ایک گول بیضوی شکل کی کوئی چیز تھے ۔
جو کہ اپنی جگہ  مکمل جنس تھے
دیوتاؤں نے ان کو علیحدہ کر دیا ، جو کی وجہ سے یہ دو جسم  ، عورت اور مرد  بن گئے ۔
لیکن کچھ جسم ایسے بھی تھے جو دو ہو کر بھی جنس مخالف نہیں بلکہ  اپنی ہی جنس میں رہے ۔
کہ  مرد سے مرد اور عورت سے عورت۔
انسان کو جو جنس کی اشتہا ہوتی ہے یہ چیز اصل میں اپنے جسم کے دوسرے حصے کی تلاش ہوتی ہے ۔
کہ وصل کے دوران انسان بار بار اپنی اسی ساخت کی تکرار کرتا ہے جس میں دیوتاؤں  کے علیحدہ کرنے سے پہلے تھا ۔
دوسری قسم کے لوگوں میں بہت زیادہ ذہانت اور فن کاری بھی ذکر ملتا ہے ۔
دنیا کی کسی بھی معاشرت میں ہم جنس پرستی موجود ہوتی ہے جو کہ قدیم یونانیون کی اس  ناقابل ہضم فلسفے سے میل کھاتی ہے۔
لیکن دوسری طرف ،دنیا کے سبھی مذاہب ہم جنس پرستی کی مخالفت کرتے ہیں ۔
کیوں؟
کیونکہ مذاہب ، معاشرت میں سدہار اور استوار چاہتے ہیں ،
موجود انتشار کو جائز طریقے سے استوار کی شکل دیتے ہیں ۔
نسل انسانی کی بقا کی ہم سب کی بقا ہے اور اس بقا کا کوڈ اس بات میں ہے کہ انسان اپنے جیسے انسان پیدا کریں ۔
جو کہ جس مخالف کے ملاپ سے ہی ممکن ہے۔
قدیم مذاہب میں ترک دینا کا رواج پایا جاتا ہے
جو کہ جدید مزہب میں بھی سرایت کرتا چلا گیا
لیکن مجموعی طور پر معاشروں نے ایسے لوگوں جس بھی روپ میں عزت دی اس کے پیچھے جذبہ ترحم ضرور رہا ۔
لیکن ہم جنس پرستی کی کسی بھی مذہب نے تائد نہیں کی۔
لیکن کیا مذاہب کی مخالفت سے یا کہ پاکستان کے زیادہ ہی مذہبی معاشرے میں ہم جنس پرستی نہیں پائی جاتی؟
میرے خیال میں پاکستان میں تعلیم کی ضرورت ہے، تعلیم کی ، نہ کہ تعلیم کے نام پر مغالطوں اور مبالغوں کی!!۔
میں اپنی ایک پرانی پوسٹ کا لنک دیتا ہوں کہ
http://khawarking.blogspot.jp/2009/10/blog-post_05.html
یہاں دیکھیں  کہ چار سال پہلے لکھی اس پوسٹ میں میرا لہجہ کچھ زیادہ ہی تلخ اور اجڈ ہے لیکن امید ہے اپ لوگ پرداشت کرئیں گے

اور سات سال پہلے لکھی گئی یہ تحریر
http://khawarking.blogspot.jp/2006/12/blog-post_15.html

پیر، 23 ستمبر، 2013

دانش علم اور عقل

جاپان میں ایک سیاسی جماعت کے عہدے دار ہیں جی اعجاز رفیق صاحب ۔
ایک دن انہوں نے سوال جڑ دیا کہ
خاور صاحب دانش ور ، اور ادیب میں کیا فرق ہے؟
اعجاز رفیق کو تو میں نے اس جواب پر ٹرخا دیا کہ
دانش ور وہ ہوتا ہے  ، جس کے پاس دانش ہو
اور ادیب وہ ہوتا ہے ہے جو ادب لکھے۔
لیکن اج بات کرتے ہیں کچھ
دانش پر ، عقل پر اور علم پر
کہ
عقل مند وہ ہوتا ہے جو
موجود اور رائج کی سمجھ رکھتا ہو اور اس علم سمجھ سے فائدے اٹھاتا ہو ۔
 عقل مند اپنی زندگی کو مطمعن بناتا ہے ، موجود اور رائج  کاروباری معاملات معاشرتی معاملات کو اپنی ضرورت کے مطابق استعمال کرکے۔

دانش ور وہ ہوتا ہے 
جو موجود اور رائج کی کی سمجھ بھی رکھتا ہو اور اس موجود اور رائج سے مطعمن بھی نہ ہو۔
دانش ور کی سوچ میں ایک اضطراب ہوتا ہے ۔
دانش ور کا یہ اضطراب اس کو مسلسل ، موجود اور رائج چیزوں میں بہتری لانے پر مضطرب رکھتا ہے!۔
حتی کہ دانش مند ایک عقل مند کی عقل کو بھی بدلنا چاہتا ہے۔
عالم علم رکھتا ہے
اس کی مثال اس طرح دیتے ہیں کہ
عالم علم رکھتا ہے کہ
سچ ، معاشرے کی ترقی اور بہتری کے لئے ایک ضروری چیز ہے
اور جھوٹ ، معاشرے کے لئے زہر ہے۔
عالم صرف اس چیز کا علم رکھتا ہے
لیکن عقل مند اس چیز کو سمجھتا ہے اور سچ کو اپنا لیتا ہے
اور جھوٹ کو چھوڑ دیتا ہے
لیکن دانش ور
اس بات کا بھی ادراک رکھتا ہے کہ  سچ اور جھوٹ کی سرحدیں کہاں ملتی ہیں ۔
سچ کہاں تک سچ ہے اور اس سچ اس سے بھی زیادہ کیسے خالص کیا جائے کہ سچ کا  امرت معاشرے کی جڑوں تک اتر جائے کہ سچ کا ثمر نسلوں تک جائے
اور جھوٹ کے زہر کو کیا کیا جائے کہ جھوٹ کو کونے میں لگا دیا جائے۔
جھوٹ سے نفرت پیدا کی جائے کہ جھوٹ کے نقصانات سے اگاہی ؟
اسی اضطراب کا نام ہے دانش!!۔
زندگی کی حقیقتوں اور صداقتوں کے ساتھ ساتھ زندگی کی قباحتوں اور کراہتوں کی سمجھ رکھنا ہی عقل مندی  نہیں ، بلکہ ان چیزوں کو اور اپنی ضرورتوں کو سمجھ کر، مفید کو اپنانا اور مضر کو چھوڑنا عقل مندی ہے۔
لیکن دانش ان سے بھی اوپر کی چیز ہے کہ مضر سے اجتناب تو کرتی ہی ہے لیکن مفید سے بھی اضطراب مں مبتلا ہوتی ہے کہ ، مفید کو مفید تر کیسے بنایا جائے ۔
عقل اور آگاہی زندگانی کے بند دروازے کھولتی ہے
اور عقل ؟
مال بنانے اور املاک پر قبضہ کرنے کو تنہائی کا علاج بتاتی ہے یا پھر دوسروں سے تعلق کو !۔
لیکن لوگوں کی صحبت ایک حد کے بعد ناقابل اعتبار ہو جاتی ہے اس لئے لوگ مال اور جائیداتوں کی صحبت میں جا بیٹھتے ہیں ،
یا پھر کتابوں کی دوستی میں غرق ہو جاتے ہیں
اور کچھ ناقص عقل والے میکدے کا رخ کرتے ہیں  ۔
لیکن دانش
زندگانی کے وہ راگ بھی سناتی ہے کہ جو عقل کی پرواز سے بہت وراء ہوتے ہیں ۔
دھوپ کی تپش میں سورج کا دیپک راگ، محسوس کرتے ہیں توپھولوں کی مہک اور رنگوں میں درختوں کو ملہار گاتے دیکھتے ہیں ۔
چٹانوں کے چٹکنے اور بجنے میں تلنک راگ اور جھیل کی لہروں میں کیدار کو سنتے بھی ہیں ، پہاڑوں کا پہاڑی راگ سننے دیکھنے اور محسوس کرنےکو دانش درکار ہوتی ہے
اور دانش ، آتی ہے اضطراب سے!!!۔
کہ
خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کر دے
کہ ترے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں

جمعہ، 13 ستمبر، 2013

فیس بک اور خاور کھوکھر

میں فیس بک پر کیوں ہوں ؟؟
اس لئے کہ فیس بک نے میرا اکاؤنٹ بنا کر مجھے میل کرنا شروع کر دیا تھا!!!۔
جب فیس بک نئی نئی آئی تو ، میں اس کو جوائین کرنے سے ہچکچتا رہا
لیکن پھر میلیں انی شروع ہو گئیں کہ فلاں بندہ اپ کا فیس بک پر انتظار کر رہا ہے
فلاں بندہ یہ کر رہا ہے فلاں وہ کر رہا ہے
حالنکہ میں نے فیس بک کا اکاؤنٹ بنایا ہی نہی تھا
اس لئے میں ایسی میلوں کو "سپام" میلیں سمجھتا رہا ۔
اس لئے میں  نے ان میلوں کو اگنور کرتے ہوئے اپنا اکاؤنٹ بنانا چاہا تو؟
فیس بک نے بتایا کہ اپ کے اس ای میل ایڈریس پر اکاؤنٹ بن چکا ہے ۔
"لوسٹ پاسورڈ" پر جا کر  پاسورڈ منگوایا
تو
علم ہوا کہ ای میل سے ملتا جلتا کسی فی میل کا اکاؤنٹ بن چکا ہے
جس کی انفارمیشن کا  کو اپ ڈیٹ کرتے ہوئے میرا نام " مصطفٰے خاور" بن گیا۔
جس کو بدلنے کی کئی کوششیں کی لیکن میں اپنی سی کوشش کے باوجود بھی اس نام کو خاور کھوکھر نہیں کر سکا۔
قصہ مختصر کہ فیس بک کے اکاؤنٹ بنا بنا کر بانٹنے  کی اس ادا نے فیس بک کو گھر گھر پہنچا دیا ہے
ورنہ فیس بک سے پہلے کی کسی بھی سائٹ پر اکاؤنٹ بنانا  ، ایک پروجیکٹ ہوا کرتا تھا، اسان یا مشکل ، لیکن یہ کام خود ہی کرنا پڑتا تھا ۔
اب جب اکاؤنٹ بن ہی گیا تو میں نے بھی پہلے پہلے کچھ ہچکچاہٹ کے ساتھ اور اب کھل کر فیس بک  کی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کردیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب بات یہان تک پہنچ چکی ہے کہ
دھڑا دھڑ پیج بن رہے ہیں ، جس بندے کو تھوڑی سی بھی سمجھ بوجھ ہے وہ ایک نیا پیج بنا دیا ہے
لیکن
اس بات کی سمجھ بوجھ والے لوگ کم ہی ہیں کہ
جس پیج کے ممبر ہیں اس پیج پر دوسروں کے ساتھ مل کر چل سکیں ۔
پاکستانی قوم کی سب سے بڑی خامی جو کہ میری نظر میں ہے
وہ ہے
اجتماعی زندگی کا شعور نہ ہونا۔
ہمیں تعلیم ہی یہ دی گئی ہے ، میں اور تو، میرا اور تیرا، میں اور میرے دشمن، اونچ اور نیچ۔
 عمل کے ردعمل کی تعلیم ہے
اور عمل  ہم نہیں دوسرے کرتے ہیں
ہم صرف ردعمل کرتے ہیں ۔
اور پھر ہم اس پیج کو چھوڑ دیتے ہیں اور اسی وقت دوسرار پیج بنا کر اس کے ایڈمن بن جاتے ہیں ۔
لیکن
جس طرح مجھے اجتماعی زندگی کا شعور نہیں ہے اسی طرح میرے اردگرد کے لوگوں کو بھی اجتماعی زندگی کا شعور نہیں
تو
جب میں کسی کے ساتھ مل کر نہیں چل سکا تو " کوئی " میرے ساتھ کیسے چلے گا؟
یہاں جاپان میں ، راشد صمد خان نے  ایک پیج بنایا ہے جس کا نام ہے ۔
Pakistani in Japan.
راشد نے اس پیج میں مجھے بھی شامل کیا۔
میں جو کہ اپنی ہی وال پر لکھتا ہوں ، کمیونٹی میں اپنی پہچان کے لئے اس پیج کی وال پر بھی اپنی لکھی ہوئی چیزوں کو " شئیر" کرنے لگا۔
اپنے بڑے محترم دوست ہیں شاہد رضا چوہدری صاحب !جو کہ ہمارے پریس کلب کے صدر بھی ہیں ، انہوں نے گروپ کو جوائین کیا
اور بقول شخصے اس کو پوسٹوں کے جلاب لگ گئے ۔
راشد نے اس کو گروپ سے بین کر دیا
چوہدری صاحب نے اسی دن دوسرا گروپ بنا  لیا
اور گروپ کا نام بھی وہی رکھ لیا۔
یہ ایک مثال ہے
اسی طرح کے کام دوسرے بھی کریں گے
اور کچھ لوگوں نے سٹارٹ بھی  لے لیا ہے ۔
جہاں تک میرا تعلق ہے
میں اس گروپ کے ساتھ اس وقت تک چلوں گا
جب تک کہ اس گروپ میرے علاوہ کوئی بھی دیگر افراد شامل ہیں ۔
نہ تو مجھے کوئی اور گروپ بنانے کی ضرورت ہے
اور نہ ہی ایسا کرنا ضروری ہے۔
میں نے کمیونٹی کے لئے مثالیں قائم کرنی ہیں ۔
جیسے کہ روز نامہ اخبار جاپان کا قیام ۔
http://gmkhawar.net/
یہاں میں  بغیر اشتہاروں کے لالچ کے ایک مثال قائم کی ہے کہ
اس وقت جاپان سے متعلق خبروں کی اردو زبان میں اس سائٹ سے بڑی سائٹ انٹرنیٹ کی دنیا میں نہیں ہے ۔
دوسری مثال  پاکستانی ان جاپان میں رواداری اور برد باری ، اور غیر جانبداری کے ساتھ باہمی دلچسپی کی باتوں کو اجاگر کرنے کی کوشش ۔
اس گروپ میں شامل دوست لوگوں کو میں کہوں گا
کہ
اجتماعی زندگی کا شعور حاصل کریں ، ہم جاپان میں ہیں اور جاپانی قوم میں اجتماعی زندگی کا شعور دنیا کی کی بھی قوم سے زیادہ ہے۔
تو کیوں نہ اس قوم سے یہ چیز بھی حاصل کر لیں ، جہاں ہم نے اس قوم سے دولت اور مال حاصل کیا ہے ۔
یاد رکھیں کہ اگر اپ ایک گرپ کو ، انجمن کو ، محفل کو چھوڑکر چلے جاتے ہیں
تو یہ اپ کی ہار ہے
کہ اب آپ " اِن" کے لئے مر چکے ہیں ۔
باقی  جہاں تک بات ہے خود نمائی کرنے والوں کی!۔
تو سر جی اس کا ایک ہی حل ہے
کیا
نرگیست کے ماروں کو نظر انداز کرنا ان کی سب سے بڑی سزا ہوتی ہے۔
ایک لطیفہ سناؤں آپ کو ؟؟
۔
۔
۔
 وال پر نظر رکھیں !۔
لطیفے بہت ، بلکہ میں تو شعر بھی لکھوں  گا۔

Popular Posts