چاچا چاپلوس
نام تو اس کا کچھ اور ہی ہے لیکن اپ اس نام "چاچا" سمجھ لیں ۔چاچے کی عمر اڑتالیس سال ہو چکے ہے اور صحت کی حالت کچھ زیادہ ہے "ماڑی " ہے ۔
چاچے کو دنیا سے بڑا ہی سخت شکوہ ہے کہ دنیا نے اس کی صلاحیتوں کی قدر ہی نہیں ۔
چاچا ایک شاعر بھی ہے اور نثر نگار بھی ،گلوکار بھی ہے اور ماہر تعلیم بھی بلکہ چاچے کا تعلیم کےساتھ تو کئی نسلوں سے ناطہ ہے ۔
چاچا انجنئر بھی ہے بلکہ بچپن سے ہی سڑکوں کی تعمیر کا سپر وائزر لگ کیا تھا۔
چاچا ڈاکٹر بھی ہےکیونکہ اس کی کئی کمپوڈروں سے دوستی ہے۔
چاچا جب بھی شعر لکھتا ہے تو پھر کسی کو سنانے کے لئے بے تاب ہو جاتا ہے،
ایک دن اس نے راقم کو شعر سنایا
میں تمہیں پیار کرتا ہوں ، چھوٹے سن سے
کیا تم بھی مجھے پیار کرتی ہو ، کن سن میں ۔
راقم نے سنتے ہی اھ بھر کر کہا کہ اس شعر میں تین بنیادی خامیاں ہیں ۔
یہ بات سنتے ہین چاچا گرم ہو گیا
کہ کیا
ردیف قافیہ اور وزن ہی شاعری کا نام ہے؟؟
راقم نے کہا
نہیں !!!۔
ایک چیز ربط بھی ہوتی ہے۔
چاچے نے گھور کر کر راقم کرکو دیکھا اور کہا
یہ نئی بدعت نکل ائی ہے کیا ؟ یہ کیا ہوتا ہے؟
چاچا بہت کچھ بننا چاہتا تھا
لیکن کچھ بھی ناں بن سکا
چاچے نے شاعری کی کتاب لکھی ۔
خود ہی لکھی خود ہی چپوائی اور خود ہی لوگوں مفت تقسیم کی، بلکہ مبالغہ کرنے والے توکہتے ہیں کہ کسی اور نے پڑہی بھی نہیں ہو گی پڑہی بھی چاچانے صرف خود ہی ہے۔
یہی حال چاچے کی نثر کی کتاب کا بھی ہوا تھا ۔
اور اپنی ناکامی کی کی وجوہات چاچا یہ بتاتا ہے کہ
میں نے اج تک کسی کی چاپلوسی نہیں کی اس لئے ترقی نہیں کر سکا
لیکن حقیقت اس کے بلکل الٹ ہے
کہ
جھوٹ ایسا بولتا ہے کہ جوتوں سمیت انکھوں میں اتر جانے والا۔
کسی "بندے" کو کسی ملک کی مسلم لیگ کا سربراھ بھی لکھ سکتا ہے
حالنکہ وہ بندہ "اس ملک" میں لوٹا مشہور ہوتا ہے۔
چاپلوسی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے لیکن چاچا کی چیزیں لامحدود ہوتی ہیں۔
چاچا بڑا ٹیکلنیکل قسم کا ڈھیٹھ ہے ۔ "رج" کے کام چور کہ کام کرنے سے جان جاتی ہے
لیکن نوکری اس قسم کی چاہتا ہے کہ جہاں تنخواہ جاپان جیسی ہو
اور کام کوئی دوسرا ہی کرتا رہے۔
لیکن تخیل کی پرواز ہے کہ ہر کام کو اپنے بائیں ہاتھ کا کھیل قرار دیتا ہے۔
چاچا خود کو ماہر تعلم اس لئے کہتا ہے کہ اس کا ابا جی سکول ماسٹر تھا۔
اب جب بھی کسی پرائویٹ سکول کے مالک کو دیکھتا ہے تو دل میں کڑتا ہے اور گالیان دیتا ہے ۔
چاچا خود کو بڑا سیاح بنا کر بھی پیش کرتا ہے
اصل میں چاچے کو ایک ایجنٹ نے کچھ لوگوں کو "باہر" کی انٹری دلانے کے لئے ساتھ بھیج دیا کرتا تھا۔
جس سے چاچے کو ہر اس بندے پر بھی بہت غصہ اتا ہے جو خود سے "باہر" پہنچ گیا ہو ۔
اور محفلوں میں اس بات کا ذکر کچھ اس انداز میں کرتا ہے کہ
جیسے وہ بندہ بغیر اجازت چاچے کے ملک میں "کھس بیٹھیا " ہو ۔
چاچا سب کامیاب لوگوں کو گالیان دیتا ہے اور ان کو جاہل فراڈئے اور خوشامدی کہتا ہے۔
اور کہتا ہے کہ بس میرے بھائی ( وہی ایجنٹجس نے دینا کی سیاحت کروائی ہے) کی طبیعت بن جائے ، جس دن اس نے ساتھ دیا میں ان سب لوگوں سے اگے نکل جاؤں گا ۔
اج کل چاچا انٹر نیٹ کا ماہر اور سوشل میڈیا بنا ہوا ہے۔
اس کے متعلق پھر کبھی سہی!!!۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں