اتوار، 2 جون، 2013

ڈونر اور ڈونیشن

وہ گوری اپنی بیٹی کے دکھوں کا بتانے لگی کہ
ایک کالے سے شادی کی ہے
لیکن  اس کالے کی ایک اور بھی بیوی ہے
چلو جی مسلمان ملکوں میں دوسری بیویوں کو تو اب برداشت کرنا ہی پڑتا ہے
کہ
میری بیٹی کے دوست بھی کبھی کبھی انگلینڈ سے ملنے آ جاتے ہیں ۔
لیکن
میرا نکما جنوائی  میری بیٹی کو تین بچے تو دے گیا ہے لیکن کمائی بلکل بھی نہیں دیتا ہے۔
اب تو بچوں کو بھی احساس ہو گیا ہے کہ یہ نکما بندہ ان کا باپ تو ہے لیکن باپ کے فرایض سے بلکل بھی فارغ ہے
اس لئے اب بچوں نے اس کو باپ کہنا ہی چھوڑ دیا ہے
اس نکمے کے بچے اب اس کو ڈونر کہ کر بلاتے ہیں ڈونر!!۔
ڈونر سمجھتے ہو  ناں ڈونر؟؟
میں بھی بس ہنکارے ہے بھرتے رہا کہ اب اس کو کیا جواب دوں ۔
ڈونر کی ڈیفینیشنز کچھ اس طرح سمجھ لیں کہ
گاؤں دیہات میں  جب گائے بھینس کو "لگوانا" ہوتا ہے تو جس بیل کے پاس لے کر جاتے ہیں اس کو ڈونر کہ لیں ۔
کہ اج کل انگریزی میں یہ لفظ کچھ اسی معنوں میں رائج ہے۔
انسانی معاشرے میں یہ ڈونر کا  کام پچھلی کئی دہایوں سے چل رہا ہے۔
اس کی وجہ سے بننے والے مسائل بھی سر اٹھا رہے ہیں اور ان کے حل کا بھی سوچا جا رہا ہے۔
عورت یا مرد  ، جس  کسی ساتھی کی حصیاں کمزور ہوں  اس کے لئے کسی سے ڈونیشن میں خصیاں لے لی جاتی ہیں ۔
عام طور پر ڈونر کوئی مرد ہی ہوتا ہے۔
میڈیکل سائینس کے ایک   ڈاکٹر کو ایک دن کیا سوجھا کہ اس نے اپنے والدین کے ڈی این اے سے اپنے ڈی این اے کا تقابل کرنے کے لئے ٹیسٹ کر لیا۔
ڈی این اے کے گراف میں ماں کے کوڈ میں کئی دفعہ 40 کا ہندسہ اتا تھا جو کہ اس ڈاکٹر کے ڈی این اے کوڈ میں بھی موجود تھا ۔
لیکن باپ والے کوڈ گراف میں جہاں 40 کا یا 41 کا ہندسہ ہونا چاہئے تھا وہاں 10 اور 11 کا ہندسہ تھا ۔
39 سالہ ڈاکٹر کے اعتماد اور فخر کی بنیادیں ہی ہل گئیں
کہ یہ کیا ہوا ہے؟
ڈاکٹر اپنے والدیں سے ملنے کے لئے اپنے گاؤں واپس گیا اور والدیں سے بات کہ کہ یہ کیا ہے؟
تو تب جا کر اس کے والدین نے اس راز سے پردہ اٹھایا کہ
معاملہ اس طرح ہے۔
ایک شخص جس نے ایک بچے کی پرورش اس طرح کی کہ وہ پڑھ لکھ کر میڈیکل سائینس میں ماہر بن کر معاشرے کا ایک مفید فرد بن کر زندگی گزار سکے ، اس کی عظمت کو بھی سلام کہ
اس کو علم بھی تھا کہ یہ میرا بچہ نہیں ہے
میری بیوی کا بچہ ہے۔
لیکن  اپنی زندگی کی چالیس بہاریں دیکھنے کے بعد اس بات کا افشاں ہونا کہ جس بندے کو باپ سمجھنے کا یقین تھا ، اس بندے کے ساتھ خون کا کوئی رشتہ ہی نہیں ہے۔
ذہنی اذیت ، نفسیاتی مسائل کیا کیا نہیں ہوں گے کہ
عورت اور مرد کے جسمانی تعلق کا تجربہ رکھنے والا ایک تعلیم یافتہ اور ذہین شخص کے دل میں ذہن میں کیا کیا خیالات اتے ہوں گے؟
پاکستان مین اس قسم کے مسئلے پر سوچنا ، لکھنا یا بات کرنا تو دور کی بات ہے
اس قسم کے مسئلے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
لیکن ڈونر کے مسائل اس وقت  دنیا میں موجود ہیں ۔
ان مسائل کا حل یا ہمارے معاشرے میں ہونا یا ناں ہونا سے قطع نظر صرف ایک علم کی بات کے لئے یہ بات تحریر کر رہا ہوں ۔
پنجابی کی مشہور شاعرہ امرتا پریتم کا ایک بیٹا بلکل ساحر لدہانوی کی شکل کا تھا
جون ہونے کے بعد اس نے ایک دن اپنی ماں سے پوچھ ہی لیا تھا کہ
ماں اگر میں ساحر انکل کا ہی بیٹا ہوں تو بھی مجھے سچ بتا دو کہ میں شک کی اذیت سے نکل سکوں۔
تو امرتاپریتم نے بڑا شاعرانہ جواب دے کر  بیٹے کو مطمعن کر دیا تھا
کہ
بیٹا ۔ یہ میرا عشق تھا ساحر سے کہ میں اس کے ہی تصور میں ڈوبی رہتی تھی
لیکن میرا اس کے ساتھ جسمانی تعلق کبھی بھی نہیں ہوا
تم میرے تصور کی انتہا ہو کہ  تمہاری شکل ساحر سے ملتی ہے۔

Popular Posts