بدھ، 8 مئی، 2013

زنجبار کے دروازے


میرے ذہن میں دھندلے سے نقش ہیں کچھ دروازوں کے ، جو کہ میں نے اپنے بچپن میں دیکھے۔
ان میں سے جو سب سے پرشکوہ دروازہ مجھے لگتا تھا وہ بھی کسی عمارت میں نہیں لگا تھا بلکہ اکھاڑ کر رکھا ہواتھا۔
فیروزوالہ نام کا ایک قصبہ جو کہ گوجرانوالہ سے مشرق کی طرف کوئی پانچ کلو میڑ  کے فاصلے پر واقع ہے۔
یہ قصبہ جاٹ بٹر لوگوں کا ہے۔
یہاں کے بٹر لوگوں کی سیاسی بصیرت پر میرا جو ذاتی خیال ہے 
کہ 
یہ لوگ ہمیشہ پاکستان کی حمایت اور بہتری کے لئے ہی کچھ کرئیں گے ورنہ سیاست میں خاموش رہیں گے۔
اروپ کے بھنڈروں سے بلکل مختلف، کہ بھنڈر ہمیشہ گورنمنٹ میں رہنے کی کوشش کریں گے۔
اس قصبے فیروزوالہ میں انیس سو چوہتر میں سکول کی گرمیوں کی چھٹیوں میں میں نے کوئی تین مہینے گزارے تھے۔
یہاں ایک ڈیرہ ہوتا تھا جو کہ ابادی کے درمیان میں ہونے کی وجہ سے مجھے عجیب سا لگتا تھا۔
ایک بڑے برگد کے درخت کے نیچے بہت سی بھینسیں بندہی ہیں ۔
اور ساتھ ہی ڈیرے کے مالک جاٹوں کا بڑا سا حویلی نما گھر ہوا کرتا تھا۔
اس  گھر کے دروازے کے اندر ، میری یادوں کا وہ دروازہ اکھڑا پڑا ہوتا تھا۔
لکڑی پر ابھرے نقش نگار تویاد نہیں لیکن ان دنوں بڑا متاثر کرتے تھے۔
چوکھٹ کے اوپر کواڑ اور کواڑوں کے اوپر بڑی سی چوبی محراب،  کچھ تو دروازہ تھا بھی بھاری بھرکم اور کچھ پر کھدائی کاکم اس کو اور بھی پرشکوہ بنا دیتا تھا۔
اس کے علاوہ کے دروازے مجھے یاد نہیں ۔
لیکن اج جب یہاں مشرقی افریقہ کے ملک تنزانیہ کے جزیرے زنجبار سے گزر ہوا تو یہاں اس قسم کے دروازے دیکھ کر میں اس کی تصاویر لینے سے خود کو باز ناں رکھ سکا۔
زنجبار جو کہ صدیوں سے ایک فری پورٹ ہوا کرتا تھا
اگر انیس سو چونسٹھ کا خونی انقلاب ناں ہوتا تو 
شائد دبئی یا عرب امارات کی بجائے یہ جزیرہ ایشیا افریقہ اور یورپ کی منڈیوں کا ٹرانزٹ ہوتا۔
انیس سو چونسٹھ کے انقلاب سے پہلے یہان عرب بادشاہ تھا 
کالے لوگوں کے حملے میں عربوں کو قتل کردیا گیا۔
اس جزیرے کی تاریخ کوشش کرتا ہوں کہ اگلی پوسٹ میں لکھوں ۔
یہ دروازے دیکھیں کہ 
کتنی محنت کی گئی ہے ان کی تیاری میں ۔
















Popular Posts