دبئی سے
دبئی سے گزر ہوا، دبئی !۔ جو کہ میری عمر کے لوگوں کے لئے ایک زمانے میں خوابوں کی سرزمین ہوا کتی تھی۔
پلاسٹک کی شوخ رنگ دار، خوبصورت نظر انے والی ناپائیدار اور سستی چیزوں سے بھرے سوٹ کیس لے کر پلٹنے والے میرے طبقے کے مزدور لوگ، پاکستان میں رہنے والوں کے دل گرماتے تھے کہ
چلو چلو دبئی چلو۔
لیکن جس طرح کمہاروں کے بنائے ہوئے چینی کے برتن ،سمندروں سے نکالے ہوئے غوطہ خوروں کے موتی اور جولاہوں کے بنے ہوئے اعلی سوتی کپڑے پہننے والے جانتے ہیں کہ
پلاسٹک کی چزیں " چیپ" ہوتی ہیں ۔
اسی طرح جب میں نے دنیا گھوم کر دیکھی تو احساس ہوا کہ دبئی کا حال بھی وہی ہے جو
اصلی چیزوں کے سامنے پلاسٹک کی بنی ہوئی سستی چیزوں کاہوتا ہے۔
عربیوں کے اخلاق کی داستانیں ، عربوں کے اصولوں کی لالچ کی وہ سچی باتیں سنی کہ
ان دنوں کے پاکستان میں بھی جھوٹ لگتی تھیں۔
کفالت کےنام پر پاکستانیوں کو غلام بنا کر رکھنے کی کہانیاں کوئی دوسری دنیا کی باتیں نہیں ہیں ۔
کسی کے بھائی کے ساتھ تو کسی کے مامون کے ساتھ . "ہینڈ ‘ کر گئےکفیل صاحب تو
کوئی خود اجڑ کر آ گیا تو کسی کے باپ یا چاچے کے ساتھ ہاتھ ہو گیا۔
لیکن پاکستان کے حالات تھے کہ خراب ہوتے چلے گئے کہ شریف لوگوں کے لئے رہنا مشکلل ہو گیا
اتنا مشکل کہ
کہ
ایک زمانہ وہ بھی
ایا کہ نام کے شریف، میاں شریف کی اولاد بمع ابا جی نکال باہر کی گئی ۔
حالانکہ پاکستان میں خالص سعودی اسلام لانے کی کوشش میں یہ "شریف " لوگ ہی جرنل ضیاع کے دست ہائے راستگان تھے۔
باہر نکل کر جس قوم کے ساتھ مجھے رہنا ، میرا مقدر بنا، یعنی جاپانی قوم! تو جی میں اپنی خود قسمتی پر اللہ سائیں کا بہت شکر گزار ہوں کہ
اگر جلاوطنی ہی مقدر تھی تو مجھے یہ جلاوطنی دنیا کی بہترین قوم کی پناھ میں ملی۔
اج جب اپنے رب کی مہربانی سے میں بہت سے عربوں سے بہتر مالی حالات کے ساتھ دبئی سے گزرتا ہوں تو
احساس ہوتا پے کہ
پاکستانی لوگ عربی قوم کا نفسیاتی مسئلہ بن کر رہ گئے ہیں ۔
ہر عربی پاکستانیوں کے سامنے ایڑھیاں اٹھا اٹھا کر اپنا قد اونچا کر کر کے اپنے رویئے سے لگ رہا ہوتا ہے کہ
پوچھ رہا ہو
کہ
میں ہوں ناں تم سے بڑا؟؟؟؟
میرا ایک عمارتی مزدور بھائی ، یا کسی بحری جہاز یا کسی ٹرک پر وزن لادھنے والا میرا بھائی !۔
اس عربی کو کیا جواب دے سکتا ہے؟
فلائیٹ کی تبدیلی میں کوئی سولہ گھنٹے کا وقت تھا تو یہان دبئی میں گزارنا تھا،
ائیر پورٹ کے اندر اب اس عمر میں کرسیوں پر بیٹھ بیٹھ کر جسم تھک جاتا ہے۔
اس لئے ایمگریشن سے ٹرانزٹ کا پوچھا!!!۔
ٹرانزٹ ، جو کہ بقول شخصے "کافر" ملکوں میں ایمگریشن افسر کی صوابدید پر دے دیا جاتا ہے
دبئی میں یہی ٹرانزٹ رقم بٹورنے کا بہانہ ہے۔
رویوں کے فرق کی بات ہے کہ
جاپانی قوم بھی بڑی مغرور قوم ہے۔
اور عربی بھی اور میری قوم بھی۔
لیکن
جاپانی کا رویہ کیا ہوتا ہے
جس کسی کو خود سے کمزور یا دست نگر پاتا ہے؟
جاپانی کا رویہ ہوتا ہے
کہ
کیونکہ میں تم سے بڑا ہوں
اس لئے میں تم کو سہارا دوں گا ، تمہاری دکھ بھال کر کے تم کو کھڑا کروں گا
کہ
تم
میرا شکریہ ادا کرنے پر مجبور ہو جاؤ۔
لیکن عربی اور میری قوم کے مغرور کا رویہ ہوتا ہے کہ
کیونکہ
میں ایک اعلی نسلی ، گریٹ بندہ ہوں اس لئے تم سارے کمی(کام کرنے والے) لوگ میری دیکھ بھال کرو!!!!!۔
اور پھر میرے مشکور بھی ہو کہ
تم کو ایک نسلی چیز کو بھیک دینے کا موقع ملا ہے۔
بس اسی طرح دبئی میں دوسو پندرہ ڈالر میں ٹرانزٹ ویزہ لیا۔
سات سو سے اوپر درہم بنتے ہیں ، جو کہ دبئی میں ایک مزدور کی دو ہفتے کی کمائی بنتی ہے۔
لیکن
میں اپنے رب کا شکر گزار ہوں کہ
مجھے اس قابل بنایا کہ
اپنی ضرورتوں کے مطابق " ان" کو خرید سکوں۔
بس جی ثابت ہوا کہ
عربوں میں جس بندے کی کفالت پاکستانی کرتا ہے
وہ کفیل کہلواتا ہے۔
جو ہوٹل ملا۔ اس کا نام تھا سینٹ جارج ہوٹل!!۔ دیرا کے علاقے کا بد نام ہوٹل کہ اس میں ڈسکو وغیرہ بھی ہے
اور مزدوری کرنے کے لئے دبئی ائے لوگوں کی اکثریت یہاں داخلہ افورڈ نہیں کر سکتی۔
اس خیال سے کہ اگر مجھے جاپان جانا نصیب ناں ہوتا تو
شائید میں بھی یہیں کہیں دیرا کے علاقے میں میں اپنا بڑھاپا "رول" رہا ہوتا۔
یہاں پھرنے والے لوگوں میں مجھے اپنا اپ نظر آ رہا تھا
چمکتی زندگی کا تصور رکھنے والے دبئی میں ایک جگہ جہاں عمارتی کچرے کا ڈھیر لگا تھا
ایک دروازے کی تصویر!!۔
ہمارے یہاں ایسے دروازے ہمارے انحطاط کے شروع دنوں میں ہوا کرتے تھے۔
اگر اپ کا سوال ہے کہ
پھر جب ہمارا معاشرہ منظم تھا تو کیسے ہوا کرتے تھے؟؟
تو اس کا جواب ہے کہ
ان دروازں کی تصاویر میں اگلی پوسٹوں میں لگاؤں گا
جب کالے غلاموں کی تجارت کے ٹرانزٹ "زنجبار" کی باتیں لکھوں گا۔
اب یہان سے نیچے جو تصاویر ہیں یہ دیرہ کے علاقے کے ساتھ سمندر کی کھاڑی میں کھڑے ایرانی بیڑوں کی ہیں
لکڑی کے بنے ان بیڑوں کے پس منظر میں دبئی کی عمارتیں ہیں
جن کو بناے میں میری قوم کے مزدوروں کا خون اور پسینہ شامل ہے۔
یہاں سے ایران جانے والے مال میں کھانے کے سامان کی بڑی مقدار پاکستان کے مال کی ہے۔
لیکن
مال پہلے دبئی جاتا ہے ،پھر ایران !!۔
کیوں ؟
کیونکہ
مالکوں کا حکم ہے کہ ایران کو مال نہیں دو۔
یہان ان جہازوں میں ، جہان مزدور مال لادھ رہے ہیں ۔
اپ یہ سمجھ لیں کہ خاور یہ مال لادہ رہا ہے۔
اپنی مجبویوں کی وجہ سے کہ
خاور کے ملک کے حالات صرف پاک فوج کے لئے ، اور پاک فوج کے ہی منظم ہیں ۔
باقی سب تو جی
بقول ظہیر کیانی صاحب کے
تھرڈ پرسن ہیں !!!۔
5 تبصرے:
بہت عمدہ جناب۔۔۔۔
عمدہ لکھا ہے دوبئی کے بارئے میں۔
کیونکہ عربی تو جدی پشتی جنتی ہیں اور ہم پاکستانی جنت کی تلاش میں سرگرداں ہیں،جبکہ جاپانی دنیا میں اپنی جنت تلاش کرتے ہیں
shجب پہلی بار شائع کیا تو بھی پڑھ کر نیویں نیویں ڈال کر کھسک گیا تھا اور اب بھی ویسے ہی کر رہا ہوں۔ میں اپنی عمر سے دو گنا بوڑھا اسی ماحول میں ہوا ہوں جس کا آپ ذکر کر رہے ہیں
shجب پہلی بار شائع کیا تو بھی پڑھ کر نیویں نیویں ڈال کر کھسک گیا تھا اور اب بھی ویسے ہی کر رہا ہوں۔ میں اپنی عمر سے دو گنا بوڑھا اسی ماحول میں ہوا ہوں جس کا آپ ذکر کر رہے ہیں-
بھائی یہ ثابت کرنے کیلئے کہ میں روبوٹ نہیں ہوں کوئی بیس بار ٹیکسٹ لکھنا پڑا۔
ایک تبصرہ شائع کریں