خود کلامی
آج 18 آگست ہے
مجھے گھر سے نکلے چوبیس سال ہو گئے
تئیس سال کی عمر تھی
اج میں سنتالیس کا ہوں
کچھ پیسے کما کر واپس اپنے وطن میں کام کروں گا
یہ خواب لے کر نکلا تھا
پھر
ہم زمانے میں کچھ ایسے بھٹکے کہ
ان کی بھی گلی یاد نہیں والی حالت ہے
پنجابی کا شعر
بھلدے بھلدے فریاداں دی عادت اوڑک پنچھی بھل جاندے نیں
سہندے سہندے ہر سختی اخر لوکی سہ جاندے نیں
مونہوں پاویں گل ناں نکلے ہونٹ پھڑک کے رہ جاندے نیں
اینج وی اپنے دل دیاں گلاں ، کہنے والے کہ جاندے نیں
کیا سوچ کر گھر سے نکلے تھے
کہ کس کے لیئے کیا کریں گے ، کس کو کیا دیں گے
اور کس کو کیا کر کے دیکھائیں گے
لیکن ہوا کیا
کہ
وہ خواب و خیال کی کھیتیاں سب زمین کے شور سے جل گئیں
بھیڑیں پالنے کا پروگرام تھا
کہ بیٹریاں بنانے کا کارخانہ
کچھ زمین خریدنے کی خواہش تھی کہ آئیس کریم کی فیکٹری
ماں کو سونے کے کنگن لے کے دینے تھے کہ دادا جی کو حج کروانا تھا
خواہش وہ خواہش ہے جو مرنے تک بھی پوری ہو
جو دل ہی دل میں رہ جائے اسے ارمان کہتے ہیں
کچھ خواہشیں تھی کہ پوری ہوئیں
اور کچھ خواہشیں کہ
بس دل میں ارمان بن کے رہ گئیں ہیں
ایک کسک سی اٹھتی ہے ، سینے میں
ایک لہر سی اٹھتی ہے خیالوں کی پھر یہ لہر سونامی بن کے صبر کے بندہن توڑ کر انسوؤں کی شکل میں نکلتا ہے
اب تو عمر کے ساتھ انسو پی جانے کے فن میں تاک ہوگیا ہوں
لاگوں کے سامنے اس فن کی فنکاری میں تاک
لیکن تنہائی میں
میں ہوتا ہوں اور میرا رب
میرا رب کہ جو مجھے شرمندگیوں سے بچاتا ہے
ایک پرانا گانا ہوا کرتا تھا
جیدہا دل ٹٹ جائے
جدہی گل مک جائے
جنہوں چوٹ لگے
او جانے
دکھی دل حال کی جانن لوک بے گانے!!
بے وطنی کا احساس ، اجنبیت نے تو ہم زاد کی جگہ لی ہے
تئیس سال کی عمر میں وطن چھوڑا
بے وطنی کے چوبیس سال ، وطن سے زیادہ بے وطنی کی زندگی کہ پھر بھی بے وطنی کا احساس!
وہ گیت کانے کے لئے کہ جس گیت کو انسان روز اوّل سے گاتا چلا ایا ہے کہ جس کے گانے سے آدم کو دیس نکالا ملا تھا
گلی گلی دیس بدیس ، کہیں انترہ میں نے اٹھایا اور لے میں لے ملانے کو ساتھی ملے اور کہیں کسی کے انترے میں میں نے لے ملائی اور امرت دھارے کا وہ ازلی گیت گایا!
ایک اجنبیت تھی کہ ہر ساتھی کے ساتھ رہی ، ایک مانوسیت بھری اجنبیت!
بھیڑ میں اکیلا ، بھرے کمرے میں تنہا!
نگری نگری پھرا مسافر گھر کا راستہ بھول گیا
کہ اپنی جنم بھومی میں اجنبی کی طرح کا وہ احساس کہ جو وینس کی آبی گزرگاہوں پر تھا کہ اگر ان کو گلیاں کہ سکیں تو یا کہ روم کی سنگی راہیں کہ پیرس کی گلیاں !
لندن ہو کہ زمین کی پشت پر واقع ملک کے شہر ، ہر جگہ جس اجنیت نے دل میں کسک پیدا کی
وہ کسک ایک دن مجھے اپنے گاؤں میں بھی پیدا ہوئی
کہ میں ناں ناں یہاں کا رہا ناں وہاں کا
مجھے گھر سے نکلے چوبیس سال ہو گئے
تئیس سال کی عمر تھی
اج میں سنتالیس کا ہوں
کچھ پیسے کما کر واپس اپنے وطن میں کام کروں گا
یہ خواب لے کر نکلا تھا
پھر
ہم زمانے میں کچھ ایسے بھٹکے کہ
ان کی بھی گلی یاد نہیں والی حالت ہے
پنجابی کا شعر
بھلدے بھلدے فریاداں دی عادت اوڑک پنچھی بھل جاندے نیں
سہندے سہندے ہر سختی اخر لوکی سہ جاندے نیں
مونہوں پاویں گل ناں نکلے ہونٹ پھڑک کے رہ جاندے نیں
اینج وی اپنے دل دیاں گلاں ، کہنے والے کہ جاندے نیں
کیا سوچ کر گھر سے نکلے تھے
کہ کس کے لیئے کیا کریں گے ، کس کو کیا دیں گے
اور کس کو کیا کر کے دیکھائیں گے
لیکن ہوا کیا
کہ
وہ خواب و خیال کی کھیتیاں سب زمین کے شور سے جل گئیں
بھیڑیں پالنے کا پروگرام تھا
کہ بیٹریاں بنانے کا کارخانہ
کچھ زمین خریدنے کی خواہش تھی کہ آئیس کریم کی فیکٹری
ماں کو سونے کے کنگن لے کے دینے تھے کہ دادا جی کو حج کروانا تھا
خواہش وہ خواہش ہے جو مرنے تک بھی پوری ہو
جو دل ہی دل میں رہ جائے اسے ارمان کہتے ہیں
کچھ خواہشیں تھی کہ پوری ہوئیں
اور کچھ خواہشیں کہ
بس دل میں ارمان بن کے رہ گئیں ہیں
ایک کسک سی اٹھتی ہے ، سینے میں
ایک لہر سی اٹھتی ہے خیالوں کی پھر یہ لہر سونامی بن کے صبر کے بندہن توڑ کر انسوؤں کی شکل میں نکلتا ہے
اب تو عمر کے ساتھ انسو پی جانے کے فن میں تاک ہوگیا ہوں
لاگوں کے سامنے اس فن کی فنکاری میں تاک
لیکن تنہائی میں
میں ہوتا ہوں اور میرا رب
میرا رب کہ جو مجھے شرمندگیوں سے بچاتا ہے
ایک پرانا گانا ہوا کرتا تھا
جیدہا دل ٹٹ جائے
جدہی گل مک جائے
جنہوں چوٹ لگے
او جانے
دکھی دل حال کی جانن لوک بے گانے!!
بے وطنی کا احساس ، اجنبیت نے تو ہم زاد کی جگہ لی ہے
تئیس سال کی عمر میں وطن چھوڑا
بے وطنی کے چوبیس سال ، وطن سے زیادہ بے وطنی کی زندگی کہ پھر بھی بے وطنی کا احساس!
وہ گیت کانے کے لئے کہ جس گیت کو انسان روز اوّل سے گاتا چلا ایا ہے کہ جس کے گانے سے آدم کو دیس نکالا ملا تھا
گلی گلی دیس بدیس ، کہیں انترہ میں نے اٹھایا اور لے میں لے ملانے کو ساتھی ملے اور کہیں کسی کے انترے میں میں نے لے ملائی اور امرت دھارے کا وہ ازلی گیت گایا!
ایک اجنبیت تھی کہ ہر ساتھی کے ساتھ رہی ، ایک مانوسیت بھری اجنبیت!
بھیڑ میں اکیلا ، بھرے کمرے میں تنہا!
نگری نگری پھرا مسافر گھر کا راستہ بھول گیا
کہ اپنی جنم بھومی میں اجنبی کی طرح کا وہ احساس کہ جو وینس کی آبی گزرگاہوں پر تھا کہ اگر ان کو گلیاں کہ سکیں تو یا کہ روم کی سنگی راہیں کہ پیرس کی گلیاں !
لندن ہو کہ زمین کی پشت پر واقع ملک کے شہر ، ہر جگہ جس اجنیت نے دل میں کسک پیدا کی
وہ کسک ایک دن مجھے اپنے گاؤں میں بھی پیدا ہوئی
کہ میں ناں ناں یہاں کا رہا ناں وہاں کا