نسلیں گزر رہی ہیں میرے غم سے بے خبر
ایک دوست نے ذکر کیا تھا که ایک دفعه سندھ کے کسی علاقے میں ٹرین میں ایک وڈیرے
کے ساتھ کچھ مزارعے سفر کررهے تھے اور مزارعے سب کے سب نیچے بیٹھے تھے
اور زمین دار صاحب سیٹ پر پرجمان تھے
میں نے کہا که جی ساری سیٹیں خالی هیں ان کو بھی اوپر بٹھائیں
تو ان امیر ادمی صاحب کا جواب تھا که
کیسی بات کرتے هیں ؟
اپ نے قران نہیں پڑھا؟
عزت اور ذلت الله کے ہاتھ ہے
اور ان کو رب نے بے زمین بنا کرذلت دی هوئی هے اس لیے میں کون هوتا هوں ان کو عزت دینے والا؟
پاکستان بنے باسٹھ سال هو گئے ؟
نئیں جی
قائد اعظم نے فرمایا تھا که جس دن ہند کے پہلے ہندو نے اسلام قبول کیا تھا
اسی دن پاکستان بن گیا تھا
پہلے حکمران آئے
اور پھر ؟؟
او سر جی افغان لوگ تین هی پیشے رکھتے تھے
ایک
جو چار بندے اور تلواریں اکھٹے کرلیتا تھا ہند ميں جهاد کرنے اور مال غنیمت اور غلام لینے
آجاتا تھا
دوسرا
جو چار کتابیں پڑھ جاتا تھا
اسلام پھلانے آجاتا تھا
لیکن جهادیوں کی مدد کرتا تھا اور داء لگے تو غلاموں کی تجارت بھی فرمالیا کرتے تھے
جی اسلام کے ڈسٹری بیوٹر صاحب
تیسرا
جس کو کوئی کام نهیں آتا تھا، ایک بیچه لے کر آجاتا تھا
گارے کی دیواریں بنا کر پیسۓ لیتا تھا ، بھیک مانگ کر کھانا کھاتا تھا
افغانوں کی ان تین قسمیں نے بہت اسلام دیا جی هم کو
اور همارے بڑوں کے کتنے بھائی اور بہنیں غزنی اور بخارا بدخشاں کی منڈیوں میں بکے
ایک سرمے والی سرکار تھے جی اپنے جرنل ضیاع صاحب ان کی حکمرانی میں ، افغانوں نے هم کو کلانشکوف اور ہیرؤین دی
اور بقول قائد اعظم کے ان لوگوں نے ہند ميں پاکستان کی بنیادیں رکھیں
جتنے لوگ بھی جهاں جهاں سے اسلام لے کر آئے انہوں نے ایک کام بڑی ذمہ داری سے اور تسلسل سے کیا
که
ہند کے لوگوں کو مسلمان تو کردو لیکن اسلام نہیں دو
اسلام پڑھو (اقراء ) سے شروع هوتا ہے
اس لیے ان کو پڑھنے کے قابل نهیں هونے دینا
اسلام علم کو مومن کی میراث کہتا ہے اس لیے ان کو علم سے دور رکھنا ہے
اور پھر تاریخ نے لکھا ہے که بڑے بڑے بہادر حکمران گزرے انہوں نے محل بنائے ، باغات لگائے شراب پی ، افیم کھائی ، حرم بنائے
لیکن سکول نهیں بنائے که لوگ پڑھ ناں جائیں
اور هم نے دیکھا که انپڑھ ماں نے بچوں کی کیسی تربیت کی که
اج کا پاکستان بے علم هے اور اس کو حکمران ، عوام ،سب بھکاری بنے هوئے هیں
پڑھی لکھی قوموں کے
اور کسی کو میرے اس دکھ کا احساس نهیں هے که میری قوم جاہل هے
خاور کا یه دکھ نیا نهیں هے
احساس رکھنے والے پہلے بھی اس کو محسوس کرتے رهے هیں
جون ایلیا نے کہا تھا
نسلیں گزر رہی ہیں میرے غم سے بے خبر
صدیوں کی شاہراہ پہ تنہا کھڑا ہوں میں
اس غم میں که میری قوم جاہل هے اور اس کو احساس بھی نهیں هے که
جاہل هے