زخیرھ الفاظ
کتنی بد قسمتی ہے که جی هم لوگ اپنی زبان بھی پوری طرح نهیں سمجھ سکتے
بلکه هم میں سے جو جتنا زیادھ پڑھ جائے وه اپنی بولیوں سے اتنا هی دور هو جاتا ہے
جو کالج تک بہنچ جاتا ہے اس کو مقامی بولی سندھی پشتو پنجابی بیک ورڈ سی لگنے لگتی هے اور جواس سے زیادھ پڑھ جائے اس کو تو جی اتنی انگریزی چڑھ جاتی هے که کسی شرابی کو شراب بھی کیا چڑھے گی ـ
یہاں جاپان سے نکلنے والی اک خبروں کی سائٹ پر چوری کی واردات کو ڈکیٹی کی واردات کا ٹائیٹل دے کر چھاپا گیا ہے
ڈاکو ڈکیٹی کرتے هیں اور چور سرقه لٹیرے لوٹ مار کرتے هیں اور ٹھگ ٹھگیاں (یہاں ٹھگ سے مراد لٹیروں کا وه گروھ نهیں هے جس کو انگریزوں کے دور میں ختم کردیا گیا ) ـ
جی صاحب اردو میں سرقے کی واردات کو ڈکیٹی لکھ کر شائد سنسنی پیدا کرنا جاھتے هیں یا پھر هیں هی لاعلم
ان دنوں اپ نے دیکھا هوا گا که پاکستان میں بھی خبروں میں لفظ '' کافی '' بہت استعمال هوتا ہے
ایک بم دھماکے میں کافی لوگ مارے گئے
دهشت کردوں کی فائرنگ سے کافی لوگ هلاک اور زخمی
یارو مارا جانا تو ایک ادمی کا بھی کافی (اینعف) نهیں هوتا
یه بہت سے لوگوں کو کافی کہـ کر کیا کہنا چاھتے هیں که جی خس کم جہاں پاک ، کافی لوگ مرگئے هیں هم بچ گئے یه کافی ہے ـ
4 تبصرے:
سروے کا مطلب تو مجھے بھی نہیں پتا
اور شاید اسی لیے پوسٹ کی بھی کچھ خاص سمجھ نہیں آیی
جناب ڈفر صاحب سروے نهیں سرقه لکھا ہے جس کے معنی هوتے هیں چوری کے
سرقے کی واردات یعنی چوری کی واردات
ہاہاہاہا
سروے نہیں سرقے ہی لکھنا تھا
یقین کریں میں پڑھ تو بالکل ٹھیک لیتا ہوں :D
مجھے اس لفظ کی اصلیت کا پتا ہی آج چلا ہے
چوری میں شاید وہ سنسنی نہیں جیسا آپ نے لکھا ہے۔ ڈکیتی کی مارکیٹ ویلیو زیاد ہے غالباَ اس لیے اخبارات چوری کو بھی ڈکیتی کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ عمومی طور پر تو اردو زبان کے کئی الفاظ کے ساتھ زنا کا سلسہ بڑی شدو مد سے جاری ہے خاص طور پر جاں بحق، ہلاک اور شہید کے استعمال کے لیے اخبارات کی کیا کسوٹی ہے یہ میری سمجھ باہر ہے۔ شاید کسی نے پہلے بھی توجہ دلائی تھی کہ خود خوش حملہ آور جاں بحق اور بے گناہ شہری ہلاک کرنے کا اخبارات کا سلسہ جاری ہے۔
ایک تبصرہ شائع کریں