عزت دے کر ازمائیش
بندے کی کوالٹی کا معلوم کرنے کے لیے میں اس طرح کیا کرتا هوں که
هر کسی کو بہت زیادھ عزت دیتا هوں
اتنی زیادھ کی اس بندے کے گاؤں کے چوھڑے نے بھی اس کوکبھی جی جناب کہـ کر نہيں بلایا هوگا که میں اس کو جی جناب کہـ کر پکارتا هوں ـ
سارا گاؤں جس کو حسینا مراثی کہـ کر پکارتا هو میں اس کو بھی حسین بھائی حسین بھائی کہـ کہـ کر بڑی عزت دیتا هوں
اچھو نے ایک دن کہا
خاور صاحب آپ بھی کافی سے زیادھ کھسکے هوئے هو
مج کی موتری جیسا منه بنا کر کھسیانی هنسی والے حسینے کو اپ بھائی بھائی کہـ کر پکارتے هو
کیوں اس کا دماغ خراب کرنا ہے
تو میں نے کہا اشرف صاحب آپ کو بھی تو سارا گاؤں اچھو کہتا ہے میں آپ کو بھی تو اشرف صاحب کہتا هوں ناں ؟
او جی هم بھی آپ کی عزت کرتے هیں ناں ؟
تعلیم نهيں هے تو کیا جی همیں بندے کی پہچان ہے
میں یه سمجھتا هوں که اگر اپ نے کسی کو اس کی اصلیت میں دیکھنا ہے تو اس کو بے جا عزت دے کر دیکھو اگر تو اس بندے کی اصلیت اچھی هو گي تو وه آپ کا مشکور هو گا اور اپ کی بھی عزت کرے گا
لیکن کم ظرف بندھ تھوڑے هی دنوں میں آپ کی شاستگی کو اپ کی کمزوری سمجھ کر سوار هونے کی کوشش کرے گا
یہاں پوائینٹ کی بات ہے که جیسے هی بندھ آپ کو توں تکار پر ائے اپنا شاستگی کا لبادھ اتار دیهاتی بن جاؤ اور اس بندے کی ماں بہن کے ڈنگروں کے ساتھ تعلقات جوڑنے شروع کروں اور گالیوں کی بھر مار کردو
تو ایسا بندھ پھر آپ کو معتبر سمجھنے لگے گا
بندوں کو آپ ائینه لگتے هیں اور اپ میں وه خود کو دیکھتے هیں
اگر وه ادمی جھوٹا هو گا تو اپ اس کو عزت دیں گے تو وه اپ کو جھوٹا کہے گا
اور اگر سچا هوگا تو آپ سچا سمجھے گا
اگر عزت والا هوگا تو آپ کی عزت کرے گا اور اگر بے عزتا هے تو جی آپ کو بے عزت کرکے هی چھوڑے گا ـ
باقی جی یه میرا فارمولا هے
هوسکتا ہے که آپ اس سے متفق ناں هوں
6 تبصرے:
ہاہاہاہا
بہت اچھا طریقہ بتایا خاور صاحب
اب میں بھی لوگوں پہ اس کے تجربات کر کے دیکھتا ہوں
پھر آپکو نتایج سے آگاہ کروں گا
"مج کی موتری جیسا منه" اس میں "مج کی موتری" کس کو کہتے ہیں؟
مج کی موتری بمعنی بھینس کی پیشاب والی جگه ـ
مجھے لگا کہ میں اپنی کہانی پڑھ رہا ہوں تھوٹی سے تبدیلی سے!
میرے فیکڑی مالکان کو ہمیشہ مجھ سے یہ شکایت رہی ہے کہ میں صفائی کرنے والوں کو بھی "صاحب" کہہ کر پکارتا ہوں اور انکی ماں بہن ایک نہیں کرتا سو ایک "اچھا" مینیجر نہیں ہوں!
بات آپ نے درست لکھی ہے میں نے جان بوجھ کر تو ایسا نہیں کیا بلکہ عادت کے طور پر ہر ایک کے ساتھ کیا ۔ اب میں محسوس کرتا ہوں کہ اس کا مجھے بہت فائدہ ہوا ۔ کئی دکاندار اگر سستا نہیں تو کم از کم اُسی قیمت میں بہتر سودا مجھے دیتے ہیں ۔
Buhat acha
ایسی آزماءش صرف آپ ہی نہیں کرتے۔ اللہ تعالی کسی کو دے کر اور کسی کو نہ دے کر آزماتا ہے۔ کچھ لوگ ہر حال میں شکر گزار ہوتے ہیں، کچھ کبھی بھی نہیں ہوتے۔ آزماءش کے وقت شور مچاتے ہیں اور آسانی کیوقت کہتے ہیں کہ یہ تو ہمارا اپنا کمال ہے۔
ایک تبصرہ شائع کریں