ہفتہ، 7 جولائی، 2007

ذہنی بد کاری

پنجابی میں کہتے هیں ذات دی کوڑھ کرلی تے چهتیراں نوں جپھےـ
کچھ کم عقل یه بات کسی غریب گهرانے کے کسی فرد کے کسی بات میں ترقی کرجانے پر طنزیه بهی کہتے هیں ـ
لیکن اصل میں بات اپنی طاقت کے مغالطے میں مبتلا کسی کے متعلق کہا جاتا ہے ـ
ایسے سماج جو افلاس اور جہالت کے دردناک عذاب میں مبتلا هوں ان کے اپنی ترقی کے ڈهنڈورے پیٹنے کو بهی کہتے هیں ـ
ہم پاکستانی یه نہیں سوچتے که تعمیر ترقی کی باتیں اس قوم کو زیب دیتی هیں جو تعلیمی ترقی کے ایک خاص نقطے تک پہنچ چکی هو ـ
هم قومی حثیت سے افلاس اور جہالت کے جس نقطے پر کهڑے هیں
وہاں سے تعمیر ترقی کی باتیں دماغی عیاشی اور ذہنی بدکاری کے علاوه کچھ نهیں ـ
پهر پنجابی کا ایک محاوره
بُنڈ وچ گهوں نہیں تے کاواں نوں سینتراں ـ
هم اپنی اس پسماندگی کے سلسلے میں قابل ملامت بهی هیں اور قابل رحم بهی
لیکن قابل معافی بلکل بهی نہیں ـ
کچھ عقلمند دوست جن کو میں واقعی عقلمند سمجهتا هوں
آپنی قوم کے قابل معافی هونے کا کہتے هیں اور اس کے لیے دلیل ان کی هوتی هے ـ
که
ہماری تعلیمی پسماندگی اور جہالت کے پس منظر ميں صرف غلامی کی هی ایک صدی نہیں سماجی ، اخلاقی، معاشی اور تعلیمی انحطاط کی بهی کئی صدیاں شامل هیں
اور ہمں ماضی کے اس زبردست نقصان کی تلافی کے لیے جو مہلت ملی ہے وه بڑی مختصر ہے اور اس مختصر مہلت میں ہم صدیوں کے قرضے چکانے میں قاصر هیں ـ
لیکن
اس معقول عذر کے باوجود میں اپنی قوم کو قابل معافی نہیں سمجهتا
میرے خیال میں کم ظررف بندے کو معافی اس کو اور بهی کمینه بنادیتی هے
اور ہم اپنی تعلیمی پسماندگی میں اخلاقی طور پر دیوالیه هو چکے هیں ـ
اب ہمیں معافی نہیں تلافی کرنی هو گی ـ
جی ہاں تلافی !!ـ
تلافی کیسے کریں ؟؟
کہاں سے شروع کریں ؟
یارو میں بهی اسی ذہنی پسماندگی کے شکار معاشرے کا ایک فرد هوں میری سوچ کی پرواز بهی محدود ہے
کیا کریں کہاں جائیں ؟
ضیاء صاحب جب جاپان آئے تهے تو انہوں نے جاپانی قوم سے نقد خیرات کی بجائے تکنیک کی بهیک مانگي تهی
تو
معاشی ،اخلاقی ، تکنیکی ، تعلیمی اور معاشرتی طور پر امیر تر اس جاپانی قوم نے پوچهاتها که پاکستان کے پاس ہماری تکنیک وصول کر ''جوگے '' هاتھ کتنے هیں ؟؟
اور ضیاء صاحب کا منه بند هو گیاتها
پهر ضیاع صاحب نے اس کی کیا تلافی کی؟؟

اُجڑیاں مسیتاں دے گالڑ امام
انہیاں وچ کانے راجے
ضیاع صاحب بهی تو اس قوم کے تعلیمی انحطاط کے ذمه داروں میں سے ایک تهے
صدیوں سے ہمیں تعلیم سے دور رکها گیا ہے ـ
ایک کرب ہے که سونے نہیں دیتا
علاج کیا هو ؟
پهر بات وهیں آ جاتی ہے
که میری اوقات کیا ہے اور حثیت کیا ہے اور باتیں کیا کررها هوں
شائد اسی کو کہتے هیں ذات دی کوڑھ کرلی تے چهتیراں نوں جپھےـ
لیکن ایک نسخه ہے اس بیماری کے علاج کو شروع کرنے کا میں نہیں کہتا که یه علاج ہے
هاں علاج کی شروعات کا یقین ہے مجهے اس نسخے سے ـ
چهوٹا منه تے بڑي بات
یارو آؤ قرآن کے ترجمعے کو عام کریں
لوگوں کو دعوت دیں که قران کا ترجمعه پڑها کریں ـ
تفسیر کو بهی بعد میں پڑھ لیں گے
ابهی صرف ترجمعه اور اس پر غور ـ

انداز بیاں گر چه که میرا شوخ نہیں
شائد که تیرے دل میں اُتر جائے میری بات

2 تبصرے:

م بلال م کہا...

بھائی جی کونسی تعلیم اور کس کی تعلیم؟ چھڈو ساری گلاں۔ آپ کو بتا دوں کہ امریکی فوج پیمپر پہنتی ہے۔ چلو امریکیوں کا مذاق بنائیں اور خوش ہو جائیں لیکن ایک آپ ہو کہ ہمیں تعلیم کے چکروں میں پھنسا رہے ہو۔ کچھ خیال کرو بھائی صاحب کیوں ہمارے کھیلنے کے دنوں کی ”واٹ“ لگا رہے ہو۔
آپس کی بات ہے، اگر تحریر میں کچھ الفاظ سنسر کر دیتے تو اچھا تھا۔ یہ میرا مشورہ ہے باقی آپ کی مرضی۔

Abdul Qadoos کہا...

قبلہ صرف تعلیم ہی نہیں بلکہ برابری کی تعلیم۔۔۔
ہمارا ماسٹرز کیا ہوا بچہ امریکن لائسٹف یا بیکن ہاوس کے آٹھویں جماعت کے بچے کا مقابلہ نہیں کر پاتا۔۔۔ ہمیں تعلیم سے پہلے برابری کا معیار قائم کرنا ہوگا وگرنہ وہ تعلیم پھر ڈگرویوں کی حد تک ہی رہ جائے گی

Popular Posts