اتوار، 29 جنوری، 2006

بھائی ننھا کی یادیں


بچپن ميں سنی ہوئی بعض باتيں جن کو بظاہر ادمی بھول چکا ہوتا ہے ـ 
کہيں کسی کی بات سن کر ياد آ جاتی ہيں ـ
ميرا چھوٹا بھائی جس کو ہمارے گاؤں اور اور اردگرد کے ديہات ميں لوگ حاجی ننھا کے نام سے جانتے ہيں ـ
لڑکپن ميں حاجی ننہا نے گدھا ريڑہ بنايا ہوا تھا ـ
 اس لئے حاجی ننہا عموماً اپنے ماموں کے سيلر(رائس ملز) پر بھی بيٹھا کرتا تھا ـ
جہاں لوگوں کاجمگھٹا لگا رہتا ہے ـ حقّہ چھکنے کے عادی بزرگ. فصل کے لین دين کے لئے آئے ہوئے ذميندار، پل دو پل بيٹھ کر جانے والے راہگزر ـ
ايکـ دن ننھا کہنے لگا کہ اج سيلر پر ايکـ مراثی ايا تھا جو لوگوں کو قسمت کا حال بھی بتاتا تھا اور بڑی دلچسپ باتيں کرتا تھا ـ
کسی نے اس مراثی سے پوچھا کہ بھائی کہاں کے رہنے والے ہو ؟
اس مراثی نے جواب ديا ـ
ڈسک پور دے کول گلہوٹ گڑہ جتھے شمسا ندی وگدی اےـ
اس پر حاجی ننھے کا تبصرہ تھا  کہ اس مراثی نے ڈسکے کو ڈسک پور بناديا ہے اور گلوٹياں (يہ وہی قصبہ ہے مشہور گلوکار غلام علی جہان کے پلے بڑہے ہيں) کو گلوٹ گڑہ اور نندی پور والی نہر(گوجرانوالہ سے ڈسکہ جاتے ہوئے راستے ميں اتی ہے جس پر نندی پور پاور اسٹيشن ہے) کو شمسا ندی بنادياہے ـ
يہ بات مجھے اس لئے ياد آ گئی کہ بی بی سی پر کسی صاحب کی کتاب کے متعلق لکھا تھا ـ نيرولا صاحب جو کہ تحصيل ڈسکہ کے ايک گاؤں کندن سياں کے پيدائشی تھے جو تقسيم کے وقت ہندوستان چلے کئے تھے ـ
ميرے بہائی ننھا کے بقول اس ميراثی کے متعلق نيرولا صاحب لکھتے ہيں ـ

نیرولا نے خانہ بدوش سکھوں کے ایک قبیلے کا بھی ذکر کیا جو دنیا بھر میں گھومتے تھے اور سال دو سال بعد کچھ ماہ کے لیے ڈسکہ میں اپنے گاؤں گھولاٹیاں (گلوٹياں) آ جاتے تھے۔

یہ لوگ قسمت کا حال بتاتے تھے۔ ان میں سے کچھ ہاتھ دیکھتے، کچھ ماتھا دیکھتے اور کچھ تاش کے پتوں کی مدد لیتے تھے۔

بھترا سکھوں کے آنے سے ڈسکہ میں رونق ہو جاتی تھی۔ ان میں سے کچھ سخت گرمیوں میں سکاٹ لینڈ سے خریدے گئے گرم سوٹ اور روسی ٹوپیاں پہن کر بازار میں گھومتے تھے۔

یہ لوگ چھ ماہ ڈسکہ میں رہتے اور اِن کے آتے ہی ہر چیز مہنگی ہو جاتی۔دنیا بھر سے کمایا ہوا پیسہ لٹا کر قیمتی سامان بیچ کر ایک بار پھر مختلف بّرِاعظموں کی طرف روانہ ہو جاتے۔

اور اگر کوئی ان کے گھر کے بارے میں پوچھتا تو بڑے پیار سے بتاتے کہ ڈسکپوری اور گھالوٹ گھر کے بیچ ایک چھمکا ندی بہندی ہے، شیر تے بکری اک گھاٹ تے پانی پیندے ہن، ہنس موتیاں دی چوغ چوغدے ہن، اوس نگری دے اسی رہن والے ہین

اس قبیلے کے ایک فرد نے کئی سال بعد لندن میں ماربل آرچ پر نارولا کو روک ان کے مستقبل کا حال بتانے کی کوشش کی۔ نارولا نے کچھ دیر اس کی بات سننے کے بعد اس سے پوچھا کہ وہ ڈسکہ کا رہنے والا تو نہیں۔

وہ سکھ ڈسکہ کا نام سن کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ اس کا کہنا تھا کہ گھر تو وہ پہلے بھی کم ہی رہتے تھے لیکن دِل میں ایک امید اور یاد ضرور ہوتی تھی۔

برصغیر کی تقسیم کے بعد
اب یہ دونوں بھی نہیں رہیں۔

1 تبصرہ:

گمنام کہا...

I can not believe you wrote this. Fantastic!

Popular Posts