راجه هرش
بُدھ کے زمانے کا آخری بڑا راجہ ہرش ہے۔ یہ 606ء سے 648ء تک ستلج اور جمنا کے درمیان کے ملک پر حکمراں تھا۔ ا سکی راجدھانی تھانیسر تھی، جس کا قدیم نام کرکشیتر ہے۔ اس نے شلادتیہ کا لقب اختیار کیا۔ یہ شمالی ہند کا مہاراجہ ادھراج تھا۔ اس کے بعد ہندو راجائوں میں کوئی ایسا زبردست نہیں ہوا جو اس تمام ملک کا مہاراجہ ادھراج کہلایا ہو۔ پنجاب سے لے کر آسام تک گنگا اور سندھ کی وادیوں کی کل سلطنتوں کے فتح کرنے میں اسے تیس سال لگے تھے۔ اس نے دکن کو فتح کرنے کی بھی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوا۔
اس کے راج کے پورے پورے حالات موجود ہیں۔ اول ایک چینی سیاح ہیوان سانگ کے لکھے ہوئے جو کچھ عرصے تک اس کے دربار میں رہا تھا دوم ایک فاضل برہمن بہ بان کے لکھے ہوئے ایک کتاب کی صورت میں جس کا نام ہرش چرت (ہرش کے حالات) ہے۔ اگرچہ ہرش خود بدھ تھا تاہم برہمنوں اور ہندو دھرم کی ایسی عزت کرتا تھا جیسی اپنے دھرم کی۔ قنوج میں بدھ مت کے سو وہار تھے تو ہندوئوں کے مندر دو سو تھے۔ 634ء میں شلا دتیہ نے ایک بڑی مجلس منعقد کی۔ اس میں 21 راجا شامل تھے جنہوں نے اس کو اپنا مہاراجہ ادھراج تسلیم کیا۔ اس مجلس کے موقع پر راجا کے سامنے برہمن پنڈتوں اور بدھ بھکشوئوں میں مذہبی بحث مباحثے ہوئے۔ پہلے دن مجلس میں بدھ کی مورت نصب کی گئی۔ دوسرے دن سورج کی۔ تیسرے دن شو جی کی۔ 75 دن تک شلا دتیہ نے سب کی دعوت کی۔ پھر اپنا تمام دھن دولت، زیور اور محل کا ساز و سامان بلا امتیاز بدھ مت والوں اور برہمنوں کو بانٹ دیا اس کے بعد شاہی لباس بھی اتار دیا۔ اور فقیرانہ چیتھڑے پہن لیے جیسے کہ بدھ نے باپ کے محل سے رخصت ہونے پر پہنے تھے۔ ہر 5 سال کے بعد شلادتیہ اسی طرح کرتا تھا۔ گیا کے قریب نالند میں ایک بہت بڑا دهم شاله تھا جہاں دس ہزار بھکشو کتب دینی قانون اور طب کے مطالعہ میں اوقات بسر کرتے تھے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں