هندو دهرم اور مذهب اسلام
عہد مغليہ ميں اکبر کے دور حکومت سے مسلم سماج کی ترتيب و تشکيل کا ايک نيا دور شروع ہوا۔ ملک کی اقتصادی حالت کو بہتر بنانے اور ملک ميں سياسی استحکام اور سرکاری کارخانوں ميں ہر فن کے صنعت کاروں کو ملازم رکھا۔ اس کا نتيجہ يہ نکلا کہ ہندوستان کے ان قديم باشندوں کو جنھيں مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد مسلم سماج ميں مناسب جگہ نہ ملی تھی، اب مل گئی۔ ليکن اس کا يہ بھی نتيجہ برآمد ہوا کہ مسلم سماج پيشہ ورانہ طبقوں ميں تقسيم ہوگيا۔ ہندووں کی قديم طبقاتی تقسيم نے مسلم سماج کے لئے ايک نمونہ پيش کيا اور اسی طرز پر مسلم سماج ميں پيشہ ور طبقے نماياں نظر آنے لگے۔ نسلی امتياز کی وجہ سے مسلم سماج کی تنظيم رفتہ رفتہ ہندووں کے ذات پات کے نظام ميں رنگنے لگی۔ رفتہ رفتہ ہر پيشہ ور طبقے نے اپنے پيشے کو موروثی بنا ليا، اپنی مخصوص رسميں قائم کرليں اور شادی بياہ کے تعلقات ہم پيشہ لوگوں کے دائرے ميں محدود کرلئے۔ يہ تقسيم ہمارے زمانے تک موجود ہے۔ منير مير حسن نے لکھا تھا کہ لکھنوئ کے سيد خاندانوں ميں ايسا بھی ہوتا تھا کہ محدود دائرے ميں مناسب رشتہ نہ ملنے کی وجہ سے بعض لڑکياں اپنی زندگی ناکت خدائی کی حالت ميں گزارتی تھيں۔
ہندوستان کے مسلمان بيٹے اور بيٹی کی شادی ميں چند رسموں کو چھوڑ کر جيسے آگ کے گرد چکر لگانا، باقی سب رسميں ہندووں کی طرح کرتے ہيں جيسے لڑکے اور لڑکی کو زرد کپڑے پہنانا اور کلائی ميں ريشمی کلاوا باندھنا عقہ سے فارغ ہونے تک دولھا کا ہاتھ ميں لوہے کا ہتھيار رکھنا اور عورتوں کی سٹھنی لگانا، آرايش کے ساتھ دولھا کو دلھن کے گھر لے جانا خالص ہند سے مخصوص ہے۔دور حاضر ميں بھی قصبات اور ديہات کے رہنے والے زراعت پيشہ مسلمانوں ميں بچپنے کی شادی ہندووں سے اخذ کی گئی رسم کی نشان دہی کرتی ہے۔ شادی بياہ کے رسوم مسلم سماج ميں اس حد تک سيرايت کر گئے تھے کہ مسلمانوں کو اس بات کا احساس بھی نہ رہا تھا کہ يہ رسميں غير اسلامی تھيں۔ سودا نے حضرت قاسم کی شادی کی رسوم کے ذکر ميں
ہندوستانی رسموں کو اس اندازے سے بيان کيا ہے۔ گويا يہ رسميں عربوں ميں پائی جاتی تھيں مثلاََ ساچق منہدی، برات، رقص و سورود، دھنگانا، رخصتی کے وقت رنگ کھيلنا وغيرہ۔ مسلمانوں ميں جہيز کا سامان بھی بهت حد تک ويسا ہی ہوتا تھا جيسا کہ ہندووں ميں رائج تھا۔
اٹاوہ ميں مسلمانوں کا ايک قبيلہ تھا جو شب بازی کے فن ميں بڑی مہارت رکھتا تھا۔ البيرونی نے ہندووں کے نٹوں کے فرقے کا ذکر کيا ہے۔ مسلمانوں ميں بھی نٹوں کا فرقہ موجود تھا۔ اس فن ميں دلچسپی اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ مسلمان عورتيں اس فن کی تعليم حاصل کيا کرتی تھيں۔ شہنائی بائی نامی ايک عورت نے اس فن ميں خاصی مہارت حاصل کرلی تھی۔ مسلمانوں ميں بہروپيوں کا فرقہ بھی ہندووں کی دين ہے۔ قديم ہندوستان ميں بازی گروں کا فرقہ پايا جاتا تھا۔ مسلمانوں ميں بھی بازی گروں کی ايک جماعت پائی جاتی تھی۔بھگت بازی : ہندووں کے اس فن و پيشے کو مسلمانوں نے اپنا ليا تھا۔ اور اس کے ذريعے بسر اوقات کرتے تھے۔ دہلی ميں بھگت مسلمانوں کا ايک قبيلہ تھا اور تقی نامی ايک شخص اس قبيلے کا سردار تھا۔ لکھنوئ ميں اس فن نے بہت ترقی پائی۔ واجد علی شاہ کو رہس سے خاص دلچسپی تھی يہاں امانت لکھنوی نے اندر سبھا لکھی۔ اسی طرح کٹھ پتلی کا کھيل مسلمانوں نے اپنا ليا اور اس کا نام شب بازی رکھا۔ عہد مغليہ ميں شب بازی ايک اہم مشغلہ تھا۔ اٹاوہ ميں مسلمانوں کا ايک قبيلہ تھا جو شب بازی کے فن ميں بڑی مہارت رکھتا تھا۔ البيرونی نے ہندووں کے نٹوں کے فرقے کا ذکر کيا ہے۔ مسلمانوں
ميں بھی نٹوں کا فرقہ موجود تھا۔ بابر نے مداريوں کا ذکر کيا ہے، اس فرقہ کے لوگ خود کو مسلمان صرف اس وجہ سے کہتے تھے کہ ان کے يہاں ختنے کی رسم اداہوتی تھی۔ان کی شادی کی رسميں ملّا اور قاضی ادا کرتے تھے۔ بس اسلام سے ان کا اتنا ہی واسطہ تھا۔ ان کی بقيہ رسميں وہی تھيں جن پر وہ مشرف بہ اسلام ہونے سےپہلے عمل کرتے تھے۔
بچے کی ولادت سے موت کے موقع تک عمل ميں آنے والی بعض رسميں ايسی ہيں
جو خالص ہندوستان کی زمين سے ہيں۔ عورت کی حاملہ ہونے اورپهر بچے کی ولادت کے بعد کی
جتنی بھی رسميں ہندوستانی مسلمانوں ميں مروج ہيں وہ سب کی سب ہندوستانی ہيں۔
جنھيں مسلمانوں نے جوں کا توں اپنا ليا ہے۔ ان ميں بعض کے نام تو وہی ہندوستانی ہيں
مگر طريقے بدل گئے ہيں اور بعض ميں برائے نام فرق کرديا گيا ہے۔ مثلاََ تيجا ہندووں ميں، فاتحہ
كے پھول مسلمانوں ميں اگرچہ پھول کا لفظ يہاں بھی مشترک ہے کيوں کہ ہندووں ميں پھول مردے کی جلی ہڈيوں کو کہتے ہيں۔ جو تيسرے دن چن کر مرگھٹ سے جمع کی جاتی
مہاجر مسلمان بعض تفريحی مشاغل اپنے ساتھ لائے تھے ليکن رفتہ رفتہ انھوں نے خالص ہندوستانی کھيل تماشے اپنی تفريحی طبع کے لئے اپنا لئے۔ ان کو عربى يا فارسی کے نام دے کر اور بعض ضمنی تبديلياں کرکے انھيں اسلامی بناليا۔ مثلاََ پتنگ بازی، عہد مغليہ ميں مسلمانوں ميں پتنگ بازی کا عام رواج تھا۔ اٹھارويں صدی کے خواص و عوام مسلمان دونوں پتنگ بازی سے خاص طور پر دلچسپی رکھتے تھے۔ انند رام مخلص نے دہلی ميں پتنگ بازی کے عام رواج کا ذکر کيا ہے، دہلی ميں آج بھی پتنگ بازی کا رواج عام ہے۔ نہ صرف دہلی بلکہ شمالی ہندستان کے تقريباََ سارے بڑے شہروں کے مسلمان پتنگ بازی ميں خاصى دلچسپی ليتےتھے۔ ميسز مير حسن علی نے لکھنوئ کے مسلمانوں ميں پتنگ بازی سے خالص دلچسپی کا ذکر کيا ہے۔ آگرہ ميں بھی پتنگ بازی کے مقابلے ہوا کرتے تھے۔ نظير اکبر آبادی نے ان مقابلوں کا تفصيلی ذکر کيا ہے۔ نوابين و امرائے بنگال اودھ پتنگ بازی ميں دلچسپی ليتے تھے۔ نواب آصف الدولہ کو پتنگ بازی کا بڑا چسکا تھا۔
گھريلو کھيلوں ميں شطرنج، چوسر، چوپڑ خالص ہندوستانی کھيل
تھے۔ عہد مغليہ کے بادشاہ امرا اور عوام ان کھيلوں سے بڑی دلچسپی لےتے تھے۔ اکبر نے فتح
پور سيکری ميں فرش پر شطرنج کی بساط بنوائی تھی اور مہروں کی جگہ غلام عورتوں
کو کھڑا کرکے وہ شطرنج کھيلا کرتا تھا۔ شاہی حرم کی مستورات شطرنج کھيلا کرتی تھيں۔ زيب
النساء کو چوسر کھيلنے سے بڑی دلچسپی تھی۔ ان کھيلوں کے علاوہ چندل مندل اور گنجفہ کا
کھيل مسلمانوں نے ہندوستان سے اخذ کيا تھا۔0پرندوں اور جانوروں کی لڑائياں :مختلف قسم کے پرندوں کو آپس ميں لڑانے کا شوق ہر طبقے کے مسلمانوں ميں پايا جاتا تھا۔
ان ميں مرغ بازی، بٹير بازی، تيتر بازی، گلدم بازی، لوا بازی، طوطے بازی اور درندوں ميں ہاتھی، شير، ہرن چيتے، سور تيندوے، سانڈ، مينڈھے اور دوسرے جانوروں کو آپس ميں لڑا کر اس منظر سے مسلمان محفوظ ہوا کرتے تھے۔ اسپير نے لکھا ہے کہ شام کے چار بجے محل کے سامنے کئی آمراء جمع ہوجاتے اور اپنے مرغ لڑا کر بہادر شاہ ظفر کا دل بہلاتے تھے اور غالباََ يہ روزانہ کا شعل تھا۔ لکھنوئ کے عوام و خواص اپنی فارغ البالی کی وجہ سے اپنا يشتر وقت پرندوں کو لڑانے اور محفوظ ہونے ميں صرف کرتے تھے۔ دوسرے تفريحی مشاغل ميں غبارے بازی، ہنڈولا، بيل گاڑيوں کی دوڑ کے مقابلے اور درياوں ميں چراغاں کرنا شامل تھے۔ اسی طرح بچوں اور لڑکوں کے بہت سے کھيل خالص ہندوستانی تھے اور ان کے نام بھی ہندی ميں تھے۔ انشاء الّلۃ نے ان کھيلوں کا تفصيلی ذکر کيا ہےـ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں