زبانوں كا اختلاف
طوفان فرو ہو جانے کے بعد جب حضرت نوح عليہ السلام کشتی سے نکلے تو دوسرے جانداروں کے علاوہ ان کے ہمراہ تين بيٹے بھی تھے۔ سام، عام اور يافث۔ اس وقت يہ لوگ ايک ہی زبان بولتے تھے۔ توريت ميں لکھا ہے کہ تمام روئے زمين پر ايک ہی زبان اور ايک ہی بولی تھی اور ايسا ہوا کہ مشرق کی طرف سفر کرتے کرتے ان کو ملک سنعار ميں ايک ميدان ملا اور وہ وہاں بس گئے اور انھوں نے آپس ميں کہا۔ او ہم اينٹيں بنائيں اور ان کو آگ ميں خوب پکائيں سو انھوں نے پتهر کی جگہ اينٹ سے اور چونے کی جگہ گارے سے کام ليا۔ پھر وہ کہنے لگے کہ آو ہم اپنے واسطے ايک شہر اور ايک برج جس کی چوٹی آسمان تک پہنچے، بنائيں اور يہاں اپنا نام کريں۔ ايسا نہ ہو کہ ہم تمام روئے زمين پر پراگندہ ہو جائيں ـ اور خداوند اس شہر اور اس برج کو جسے بنی آدم بنانے لگے ديکھنے کو اترا اور خداوند نے کہا۔ ديکھو يہ لوگ سب ايک ہيں اور ان سبھوں کی ايک ہی زبان ہے۔ وہ جو يہ کرنے لگے ہيں تو اب کچھ بھی جس کا وہ ارادہ گے کريں ان سے باقی نہ چھوٹےگا۔ سو آو ہم وہاں جا کر ان کی زبان ميں اختلاف ڈاليں تا کہ وہ ايک دوسرے کی بات سمجھ نہ سکيں۔ پس خداوند نے ان کو وہاں سے تمام روئے زمين پر پراگندہ کيا۔ سو وہ اس شہر کے بنانے سے باز آئے اس لئے اس شەر کا نام بابل ہوا۔ کيونکہ خداوند نے وہاں په ساری زمين کی زبان ميں اختلاف ڈالا اور وہاں سے خداوند نے ان کو تمام روئے زمين پر پراگندہ کيا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں