گپت خاندان
بُدھ کے زمانے کے اختتام پر مگدھ میں اس خاندان کی حکومت ہوئی جو گپت کے نام سے مشہور ہے 300 سے 600 عیسوی تک تین سو برس کے قریب اس کا دور دورہ رہا۔ اس خاندان کے دو راجا بہت مشہور ہوئے ہیں: ایک سمدر گپت اور دوسرا چندرگپت بکرماجیت۔ اس چندر گپت کے ساتھ بکرماجیت کا لقب اس لیے شامل کیا گیا تھا کہ اس میں اور چندر گپت موریا میں فرق ہو سکے۔ جو اس سے سات سو برس پیشتر مگدھ میں راج کرتا تھا۔
سمدر گپت326ء سے 375ء تک بڑا طاقتور راجہ ہوا ہے۔ یہ ایک بڑی بھاری فوج لے کر تمام وسط ہند میں ہوتا دکن میں پہنچا۔ اور جن راجائوں کے ملک سے گزرا ان سب کو مطیع کیا۔ اس نے ان ملکوں کو اپنی قلمرو میں تو نہ ملایا مگر وہاں سے لوٹ کا مال بہت لایا۔ بڑا طاقتور راجہ ہونے کے علاوہ شاعر بھی تھا اور بین باجا بڑا عمدہ بجاتا تھا۔ الہ آباد کی لاٹھ پر جو اشوک کا کتبہ موجود ہے اس کے نیچے ایک کتبہ اس کا بھی ہے۔ یہ اشوک کے کتبے کے بہت بعد کا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سمدر گپت کل شمالی ہند کا راجہ تھا اور دکن کے راجا اس کو اپنا مہاراجہ ادھراج مانتے تھے۔
گپت خاندان کے راجائوں کا سمت ہی جدا ہے۔ یہ 319 سے شروع ہوتا ہے۔ گپت راجا بدھ مت کے پیرو نہ تھے۔ وہ وشنو جی کی پرستش کرتے تھے۔ انہوں نے قدیم ہندو دھرم کو فروغ دینے کی بڑی کوشش کی۔ مدت تک گپت خاندان کے راجائوں نے ستھین کا مقابلہ کیا جو جوق جوق ہند میں چلے آرہے تھے اور ان کو گنگا کی وادی میں نہ آنے دیا۔
چندر گپت ثانی 375ء سے 413ء عیسوی تک سمدر گپت سے بھی زیادہ طاقتور ہوا۔ اس نے بکرماجیت کا لقب اختیار کیا جس کے معنی ہیں سورج کی طاقت والا۔ ہندو مصنفوں کی کتابوں میں یہ اس نام کا سب سے مشہور راجہ پایا جاتاہے۔ یہ بڑی بھاری فوج لے کر شمال مغرب کی طرف دریائے سندھ کی وادی پنجاب، سندھ، گجرات اور مالوے میں جہاں صدیوں سے سکا مغربی حاکموں کی عملداری چلی آتی تھی پہنچا اور ان کے ملک فتح کر کے اپنی قلمرو میں ملا لئے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ یہ وہی بکرماجیت ہے جو ہند دھرم کا بڑا حامی اور علوم و فنون کا قدر دان مشہور ہے۔ اس کو بکرم اور بکرم اعظم بھی کہا جاتا ہے۔ یہ تمام ہندو راجائوں سے زیادہ مشہور ومعروف ہے۔ جیسا بہادر تھا ویسا ہی عالم بھی تھا۔ اس کے دربار میں 9 صاحب کمال تھے جو اپنے زمانے کے نورتن کہلاتے تھے۔ ان میں اول نمبر پر کالی داس شاعر تھا جس کی نہایت مشہور نظمیں یہ ہیں۔ سکنتلا، رگھوونش، میگھ دوت، کمار سنبھو، ایک رتن امر سنگھ تھا جس کی سنسکرت کی منظوم لغات ہند کے ہر مدرسے میں مشہور و معروف ہے۔ چوتھا اھنونتری بید تھا۔ پانچواں در رچی تھا جس نے پراکرت یعنی اپنے وقت کی عام مروجہ سنسکرت کی جو قدیم کتابی سنسکرت سے بہت مختلف ہےكى صرف و نحو لکھی ہے۔ چھٹا رتن مشہور منجم دارا مہر تھا۔ پنج تنتر کی حکایتیں بکرم ہی کے عہد میں تصنیف ہوئی تھیں۔ بعد میں ان کا ترجمہ عربی فارسی میں ہوا اور پھر بہت سی مغربی زبانوں میں۔ بکرم اور اس کے عہد کی اور بھی بہت سی حکایتیں ہیں جو آج تک ہند کے گاؤں گاؤں میں بیان کی جاتی ہیں۔
بکرم کے عہد میں بدھ مت آہستہ آہستہ صفحہ ہند سے مٹتا جاتا تھا۔ کالی داس کی تصنیفوں سے معلوم ہوتا ہے کہ شوالوں اور ٹھاکر دواروں کو بہت مانا جاتا تھا۔ اور ان میں ہندوئوں کے دیوتائوں کی پوجا ہوتی تھی۔ راجہ شوجی کو پوجتا تھا مگر بدھ مت والوں کے ساتھ بھی مہربانی سے پیش آتا تھا۔ اس کے دربار کے نورتنوں میں سے ایک بدھ تھا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں