منگل، 7 جولائی، 2015

فیس بک اسٹیٹس مئی جون دوہزار پندرہ


اصول اوارگی
جب ایک جسم کو عشق کا روگ ہوتا ہے تو یہ عمل اس وقت تک جاری رہتاہے جب تک کہ ایک تمانچہ یا کہ سینڈل  ،چٹاخ کر کے نہ لگے ۔
سینڈل یا تھپڑ سے نو اعشاریہ  زیرو آٹھ سیکن پر سیکنڈ کی ولاسٹی  عاشق پیچھے ہٹتا ہے  ۔
اس عامل سے بے عزتی  ہوتی ہے جو کہ فوراً ہی شرمندگی میں بدل جاتی ہے ۔
لیکن قانون بقائے مادہ کے اصول کے تحت   لچر پن  بن کر مادہ قائم رہتا ہے  ۔

اپنے پیر ہاؤس والے پیر صاحب ، گامے کو بتا رہے تھے کہ کل کاروبار سے چھٹی کروں گا اور  میں کتّوں کی ریس میں جاؤں گا
گاما بھی ایک ہی ستم ظریف ہے کہنے لگا
ڈنگیاں لتاں تے پلس مقابلے ! سید صاحب ، صحیح طرح چلا تو اپ سے جاتا نہیں  ریس میں اپ کیا خاک کارگردگی دیکھائیں گے ؟

فیس بک پر پوسٹ کردو کہ
یارو کسی اچھے سے کارنر پلاٹ کا تو بتائیں ۔
جو دو سے تین کروڑ روپے میں مل جائے
اور کچھ ہو ناں ہو
۔
۔
۔
۔
۔
کسی ناں کسی
چاچی یا ماسی کو دل کا دورہ پر جائے گا
اگر یہ نہ ہوا تو
کوئی قرضہ مانگنے آ جائے گا
اگر یہ بھی نہ ہوا تو
کسی نہ کسی رشتے دار کی طرف سے لڑائی تو مسٹ ہے ۔


 ایک مراثی نے چوھدریوں سے بھینس مانگی ، تو چوھدری نے اس کو ایک بھینس عنایت کردی

که یہ بھینس بس '' لگی ہوئی '' ہے اب اس کی ٹہل سیوا کرو کہ جیسے ہی بچہ دے گی تو دودہ پینا ـ

کچھ دن گزرے کہ بھینس پھر ''بول '' پڑی ـ

مراثی اس کو پھر “لگوا” کر لایا

که ایک مہینے کے اندر پھر '' بول '' پڑی

اسی طرح جب تین چار دفعه هوا
کہ بھینس  “ بول “ پڑتی تھی اور مراثی کو سانڈ والوں کے ترلے کر کے پھر “ لگوانی “ پڑتی تھی ۔

کہ
ایک دن چوھدری نے پوچھا

اوئے مراثیا

سناؤ بھینس کا؟؟

تو مراثی ہاتھ جوڑے  اور  کہنے لگا!!۔
 جی چوھدری صاحب ! ۔
اس کو بھینس نہ کہیں ، بھینسیں تو جی هوئیں آپ کی والی ۔
 ہماری والی تو جی گشتی ہے گشتی ـ
#‎BOLkoBolnayDo #‏بول_کو_بولنے_دو


طاقتیں صرف دو ہیں دنیا میں
جن سے سارا نظام جاری ہے
اِک خُدا کا وجود بر حق ہے
ایک عورت کی ذاِتِ باری ہے


سنا ہے وہاں پاک ملک میں پاک لوگوں کے
رمضان میں “ درجات “ بلند کرنے کے لئے
واپڈا والے بہت کوشش کر رہے ہیں ۔


مسجد کی افطاری میں گامے نے شاھ جی سے پوچھا
اوئے شاھ جی
روزہ تو تم رکھتے نہیں ہو ، اور افطاری میں اگے اگے ہوتے ہو؟
شاھ جی نے کڑک کر جواب دیا
چلو جی ، روزہ نہیں رکھتے
تو کیا افطاری بھی نہ کریں ؟
کیا بلکل ہی کافر ہو جائیں !!!۔


وہ جن کے بیٹے ورکشاپ میں “چھوٹے “ ہوتے ہیں ۔
وہ جن کے بچے بھٹے پر اینٹیں تھوپ رہے ہوتے ہیں ۔
جو جن کے بچوں کے نصیب میں سکول جانا نہیں ہوتا ۔
وہ جن کے بچے سکول جانے کی عمر میں گدھے ریڑھے بنا لیتے ہیں ۔
وہ جو فارن کی کمائی اڑاتے ہیں ، اور داڑہی رکھ کر مذہبی کتاب کھول کر فوٹو بنوا بنوا کر بیٹوں کو بھیجتے ہیں ۔
وہ جن کے بچے تاریک راہوں میں مارے گئے ۔
وہ جن کے بچے کبھی بھی پلٹ کر گھر نہ آنے کے لئے فارن چلے گئے ،۔
ان سب باپوں کو بھی
اج “ فادر ڈے “ مبارک ہو !!!۔


اس نے بچپن سے جوانی تک “ ابا جی “ کے پیدا کئے مسائل سے جس طرح نپٹا؟
یہ ایک لمبی اور درد ناک کہانی ہے۔
جب کوئی “اس “ کو یہ کہتا کہ تم اباجی کی خدمت کیا کرو
تو ؟
ٹرخ کر کہا کرتا تھا۔
میں دس ہزار روپیا ماہانہ اپ کو ادا کیا کروں گا
اپ میرے اباجی کو اپنے گھر لے جاؤ۔
اج کل سنا ہے اس نے بڑہتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے ، وہ رقم  پندرہ ہزار کر دی ہے ۔


اٹھارہ سو ستاون ، جی ہاں اٹھارہ سو ستاون !!۔
وہی سال ہے جس سال ہم انگریزوں کو قابض ہونے کو روکنے کی اخری کوشش کر رہے تھے ۔
اسی سال کی بات ہے کہ جاپان نے بچوں پر چھ سال کی سکول کی تعلیم فرض کردی تھی۔( جو بعد میں نو سال کر دی گئی) ۔
اور جاپانی اس فرض کو مسلسل ڈیڑھ صدی سے نبھاتے چلے آ رہے ہیں ۔
ہمارا یہ حال ہے کہ ہم پر مردے راج کر رہے ہیں
کہیں ضیاع اور کہیں بھٹو مر کے بھی زندہ ہیں
یاد رکھو
اگر ان مردوں کو مارنا ہے تو ؟
اپنے بچوں کو تعلیم دینی ہو گی !،۔
لیکن مجھے نہایت افسوس سے کہنا پڑے گا کہ
میرے اپنے لوگوں کو اس بات کی بھی تعلیم کی ضرورت ہے کہ تعلیم ہوتی کیا ہے ۔

جمعے کی نماز کے بعد مسجد کے دروازے پر بھکاری کی للکار
اللہ کے نام کچھ دے دے بابا
سن کر اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا
تو بھکاری کا چہرہ کچھ دیکھا ہوا لگا۔
بے ساختہ اس کے منہ سے نکل گیا
میں نے تمہیں کہیں دیکھا ہوا ہے
جی ہاں جی
میں اپ کا فیس بک کا فرینڈ ہوں جی !!۔
بھکاری نے جواب دیا ۔


    •   
    •    کتابیں ، ایک مقدس چیز ہوتی ہیں ، اس لئے ان کو ہاتھ نہیں لگانا چاہئے
    •   
    •    پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہوتا ، زمانے میں کریڈٹ کارڈ بھی چلتے ہیں ۔
    •   
    •    پانی کے استعمال میں احتیاط ہونی چاہئے ، پیاس کولا مشروب پی کر بھی بجھائی جا سکتی ہے
    •   
    •    سلاد سبزیاں ، صحت کے لئے مفید ہوتی ہیں ، اس لئے جب صحت خراب ہو گی کھا لیں گے ۔
    •   
    •    خطبے کے دوران شور نہیں مچانا چاہئے ، پچھلی صفحوں میں سونے والوں کی نیند خراب ہوتی ہے ۔
    •   
    •    پڑوس میں رہنے والوں سے محبت ہونی چاہئے ، لیکن احتیاط سے کہ زمانے کو پتہ نہ چل جائے ۔
    •   
    •    سخت محنت کرنے سے کبھی کوئی مر نہیں گیا ، لیکن پھر بھی رسک لینے کی ضروت ہی کیا ہے ۔
    •   
    •    ہر کام آج ہی کرنے کی کیا ضرورت ہے ، ہو سکتا ہے کہ کل کو کوئی اور ہی کر کے دے دے ۔
    •   
    •    ہر مرد کو زندگی میں شادی بھی ضرور کرنی چاہئے کہ زندگی میں خوشیاں ہی ہر چیز نہیں ہوتی ہیں ۔

مردوں کے اخلاق کے اعلی ہونے کے لئے یہ ہی دلیل کافی ہے
کہ
عورتیں دوسری عورتوں کی برائیاں کرتی نہیں تھکتی
لیکن مرد
دوسری عورتوں کی تعریف کرنے میں بخیلی نہیں کرتے ۔
کیا یہ مردوں کی اعلٰی ظرفی نہیں ہے ؟


برطانوی عروج میں  دنیا کو دی گئی تعلیم میں بہت سی چیزوں کو دوام حاصل ہوا ہے
ڈاک ، ٹرین ، ٹریفک ، انشورنس کے علاوہ  بھی!۔  جوانی میں کاما سوترا سے لاعلم بھی ساری مشقیں کر گزرتے ہیں
لیکن ادھیڑ عمری میں صرف “ مشنری پوزیشن “ ہی سب کو بھاتی ہے ۔

بنیادی اخلاقی اصول ہے کہ
کسی کے گھر جاؤ تو اپنی انکھوں کو قابو میں رکھو !!۔
یعنی کہ  “ تاڑنے “ کی عادت بد سے پھیٹی شینٹی بھی لگ سکتی ہے ۔
اس پھیٹی سے اپ کو اپنی  قومی عظمت ، خاندانی وقار اور دیگر عظمتیں یاد آ کر بے عزتی کا واویلا کرواتی ہیں تو ؟
پہلے ہی اپنی انکھیں قابو میں رکھنی تھیں کہ
تمہارے تاڑنے سے کسی اور کی بھی عظمتیں ،وقار خطرے میں پڑ گئے تھے ۔
خود کو اعلی ترین اور پاک ترین سمجھنے کے مغالطے میں مبتلا  “ آپ “ کو اگر بنیادی اخلاقیات کا ہی علم نہیں تو
غیر ممالک میں جا کر اگر اپ کو جیل ہو جاتی ہے تو ؟
قوم کی بیٹی ، قوم کا بیٹا ، قوم کا وقار کا واویلا کرنے سے پہلے اخلاقیات کی تعلیم لے لیں ۔
ویسے ایک سوال
کہ
پاکستان میں قوم کہتے کس کو ہیں
گجر قوم ، جٹ قوم ، تیلی قوم ، مراثی قوم اور دیکر پاک اقوام میں سے “اصل اور وڈی “ قوم کون  سی ہے ؟؟؟
#قوم


دیکھ اوئے سنتری !۔
تو میرا ہو ؟ اتنی چھوٹی سوچ نہیں میری ۔
یا کہ
میں ، تجھ کو مل جاؤں ؟
ناں پتّر ، اتنی بڑی اپروچ نہیں تیری ۔
#آیان۔علی


میں ایک ڈرپوک بندہ ہوں
کسی بندے میں کسی ادارے میں کسی برادری میں یہ کوالٹی ہو کہ وہ اتنا طاقتور ہو جائے کہ
اس کو کوئی روک ہی نہ سکے اس پر کوئی قدغن ہی نہ لگا سکے تو مجھے اس سے بھی ڈر لگتا ہے
پاک فوج بھی ایسا ادارہ ہے جس کی طاقت کی انتہا ہی نہیں ہے ،
نہ کوئی اس کا آڈٹ کر سکتا ہے نہ کوئی اس کو عدالت میں بلا سکتا ہے
اس لئے مجھے اس ادارے سے ڈر لگتا ہے ۔
#پاکفوج

ویسے یار جی اگر کوئی ہم جنس پرست ہے بھی تو
یہ جرم کوئی اتنا بڑا جرم بھی نہیں ہے کہ اس بندے یا بندی کی زندگی حرام کر دی جائے ۔
میرے خیال میں جھوٹا ہونا اس سے بڑا جرم ہے
پاکستانی قوم جتنی سیکس کی کجیوں کے خلاف ہے اس کے صرف ادھا بھی جھوٹ کے خلاف اتر آئے تو
پاکستان جنت نظیر ملک بن جائے ۔
‪#‎queer‬
..........
اس سے معاشرتی ڈھانچہ متاثر ہوتا ہے
جن معاشروں میں اس چیز کو قانونی کیا جا رہا ہے
وہاں پوزیشن اس طرح کی ہے کہ جیسے ان کو کارنر کیا جا رہا ہے
اس طرح ہم جنس معاشرے میں گھل مل کر کیموفلاج کی بجائے سب کو نظر آئیں گے ۔
اس سے لوگوں کو ان سے تعلقات رکھنے میں اسانی ہو گی کہ جو ان کو ناپسند کرتا ہے ان سے دور رہے اور پسند کرتے ہیں ، وہ اپنی مرضی کریں ۔
پاکستان میں جہاں جھوٹ کا چلن عام ہے وہاں ہم جنس پرست لوگوں کی بات ہی نہیں ہوتی
اور عورتوں کے تعلقات کا تو ہمارے معاشرے کے مردوں کو علم ہی نہیں ہے ۔
ایک کمرے میں دو لڑکیاں ، گھنٹوں کھیلتی رہیں ،کوئی ان کو دیکھنے بھی نہیں جاتا کہ
دو بچیاں اکیلے میں ہیں ان کو کوئی خطرہ نہیں ہے
بس!!۔


کیہڑا کٹّا سو پیا اے ! اوئے ؟( کون سا بھینسے نے بچہ جنم دے دیا ہے ) ۔
جے کر عمران کے پانجیاں نوں تھوڑی جہی کٹ لگ گئی تے ؟
ایتھے ہر روز لوکی کٹے جاندے نئیں ، غائب کر دتّے جاندے نئیں ، سڑکاں تے ٹانگیاں والے ، چاند گاڑیاں والے ذلیل کیتے جاندے نیں
سارے پاکستان دے لوکاں دی گل کرو جی سارے لوکاں دی
صرف عمران دی بہن دے منڈیاں دی نئیں ۔
منڈے وی تے مامے دے ناں نال اکڑ ویکھاندے ہون گے ناں ؟
انج، اک گل تے دسو ؟
اینہاں منڈیا دا پیئو کوئی نئیں ؟
کوئی اینہاں دے پیو ناں وی لو ۔
سارے لوک مامے دیاں ای گلاں کردے او پئے ۔
#عمران


مغالطے اور مبالغے!!۔
وہاں ایک مولوی بیان کر رہا تھا کہ 
جنت کے کیلے مسجد کے مینار کے سائیز کے ہوں گے ۔
تو ؟
گامے کا تراھ نکل گیا یہ سن کر ، اچھو پوچھنے لگا 
اوئے گامیا ِ توں کیون حیران ہو گیا ایں ؟
میں سوچنا واں پیا کہ او کیلے ، کھان والے منہ کڈے وڈے ہون گے ؟؟


رمضان میں پکوڑے🍤 سموسے 🍟،کوئی سنت نہیں ہیں 
لیکن پاکستان ☪ میں یار لوگ ان کو فرض بناتے جا رہے ہیں 
سینے کی جلن کا کیا حال ہے مومنو !!!۔
🍗 🍖 🍤


قدیم ہندی ادب میں لکھا ہے کہ 
اک عورت اپنے خاوند اور بھائی کے ساتھ سفر کر رہی تھی کہ جنگل میں راکھسش نے حملہ کر کے اس کے بھائی اور خاوند کے سر تن سے جدا کر دئے 
وہ عورت بہت روئی ، اس کی پراتھناؤں سے بھگوان کو ترس آیا اور آواز آئی کہ ان کے سر ان کے جسموں کے ساتھ رکھ کر کپڑا ڈال کر رام نام کا ورد کرو۔
اس عمل سے دونوں جسم زندہ ہو گئے 
لیکن ہوا یہ کہ عورت کی غلطی سے بھائی کا سر خاوند کے جسم سے اور خاوند کا سر بھائی کے جسم کو لگ گیا 
اب اس عورت کو پریشانی ہوئی کہ 
اس کے سہاگ کا کیا ہو گا
اس کا خاوند کون ہو گا ؟
جس کے لئے اس نے سنیاسیوں سے رابطہ کیا 
اس سوال کا جواب کیا تھا ؟
اپ کے خیال میں کیا ہونا چاہئے ؟

جواب: Ghulam Abbas Mirza
جس جسم پر خاوند کا سر ہے اسے بطور خاوند قبول کر لینا چاہیے کیونکہ انسانی شخصیت ذہن سے پہچانی جاتی ہے جسم سے نہیں۔


پنجابی کا ایک محاور ہے
کہ
جو گڑ دے کا مارا جا سکتا ہے اس کو زہر دینے کی کیا ضرورت ہے
اگر خاندان میں کچھ بھائیوں میں انا کی جنگ چل رہے ہے تو؟
بجائے بھائی کو تنگ کرنے کے بھائی پر احسان کر کے “ تھلے “ لگا لو!!۔
انا کی تسکین بھی ہو جائے گی ، بھائی بھی خوش ہو جائے گا ۔

کوئی تبصرے نہیں:

Popular Posts