جمعرات، 7 مارچ، 2019

رب کی چکی ، دوسری کہانی


چیمے جاٹوں کے گاؤں دیہات میںجوگیلوگ بھی ہوتے ہیں ،۔
پرانی کتابوں میں لکھا ہے کہ جب چیمے مسلمان نہیں ہوئے تھے یا کہ جو مسلمان نہیں ہیں ، انکی شادی کی رسومات جوگی لوگ کیا کرتے ہیں ،۔
جوگی لوگ  عام دنوں میں سارنگی لے کر نکلا کرتے تھے  ، سارنگی پر مخصوص دھنیں بجاتے اور لوک گیت گاتے  جوگی لوگوں کو برصغیر کی رسم کے مطابق اناج دانے ، آٹا دیا کرتے تھے ،۔
وہ بھی چیمے جاٹوں کا ایک گاؤں تھا ،۔
اس گاؤں کے جوگیوں نے بھیک مانگنی چھوڑ دی تھی اور سائکلوں کی مرمت یا کہ دیگر کام کر کے کمانے لگے تھے ،۔
وہ   بھیک چھوڑ کر  کام کمانے والے جوگیوں کی دوسری نسل سے تھا ،۔
اسنے بس پر کلینڈری اختیار کی تھی ، وہ بس ان کے اپنے گاؤں سے بھی گزرتی تھی ،۔
ایک دن ایسا ہوا کہ اسکے والی بس سے پہلی بس کو سٹوڈنٹ لوگوں نے اسکے گاؤں میں روک کر ڈرائیور کلینڈر سے جھگڑا شروع کر دیا ، جھگڑا لمبا ہو گیا کہ اسکے والی بس بھی وہاں پہنچ گئی ، ۔
ڈرائیور کلینڈر اور سٹوڈنٹوں کے جھگڑے میں جاٹ چیموں کا ایک جوان  پہلے ہی بیچ بچاؤ کروانے لگا ہوا تھا کہ 
وہ بھی بڑے مان سے جاٹ چیمے کو اپنے گاؤں کا اور اپنا سمجھ کر پاء جی پاء جی کہتا ہوا بیچ بچاؤ کروانے میں شامل ہو گیا ،۔
چیمے جوان کو پتہ نہیں کیا بات ناگوار گزری کہ اس نے جوگی منڈے کے منہ پر تھپڑ جڑ دیا ،۔
جوگی منڈے کو اپنے حلقہ احباب میں بڑی سبکی محسوس ہوئی ، جوگی پاؤں پٹختا ہوا وہاں سے اپنے گھر کی طرف چل دیا ،۔ 
اس کو مان تھا کہ 
چیمہ اس سے معافی مانگے گا ،۔
کچھ لوگوں نے چیمہ جوان کا منہ دیکھا کہ ، وہ اپنے گھر سے مدد لینے گیا ہے ، اب تم کیا کرو گے ؟
مجھے یاد ہے ، چیمے جوان نے کہا کہ لے آئے جو کلاشن کوف لانی ہے اس نے گھر سے ،۔
کچھ دیر بعد وہ جوگی منڈا اپنی ماں کے ساتھ آتا ہے ،۔
اسکی ماں بڑے مان سے چیمے جوان کا منہ دیکھ کر پوچھتی ہے ،۔
چوہدری صاحب ، میرے منڈے کو کیوں مارا ہے ؟
چیمہ صاحب ، بڑے ہتک امیز لہجے میں جوگی کی ماں کو دھتکار دیتے ہیں ۔
جوگی منڈا اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے ہیں ،۔
جوگی منڈا اپنی ساری شرمنگی کے ساتھ بس پر چڑھ کر چلا جاتا ہے ،۔
اور اسکی ماں  بے جان سی ٹانگوں پر چلتی اپنے گھر کو چلی جاتی ہے ،۔
مجھے جب بھی یہ واقعہ یاد آتا ہے ،۔
بڑا افسوس ہوتا ہے کہ 
کاش میں اس پوزیشن میں ہوتا کہ چیمہ صاحب سے معافی منگوا سکتا ،۔
وہ جوگی منڈا پھر کبھی گاؤں میں نظر نہیں آیا ، اس نے گاؤں چھوڑ دیا ،۔
آج اس واقعے کے چالیس سال بعد مجھے یاد آیا کہ 
ان چیمہ صاحب کی شادی ہو چکی ہے ، اولاد میں ایک ہی بیٹا ،اور وہ بیٹا اپنی جوانی میں قتل ہو چکا ہے م،۔
اور  چیمہ صاحب کو میں نے سڑک پر بلکل اسی طرح جس طرح کہ جوگی منڈے کی ماں کو دیکھا تھا ، بے جان ٹانگوں سے چلتا دیکھ سوچ رہا تھا ،۔

یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا 

یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں 

کوئی تبصرے نہیں:

Popular Posts