رب کی چکی کا پیسا ہوا بڑا باریک ہوتا ہے ،۔
مجھے وہ منظر آج بھی یاد ہے ،۔
چوہدری صاحب نے ایک تھپڑ لگایا تھا ، اور “وہ “ ہاتھ لٹکائے کھڑا تھا ، دوسرا تھپڑ بائیں ہاتھ کا تھا ، اور تیسرا پھر دائیں کا ،۔
“وہ” پھر بھی ہاتھ لٹکائے کھڑا تھا ،۔
پھر اسکی بوڑھی ماں وہاں آ گئی ، اسکی ماں نے اپنے بیٹے کا چہرہ دیکھا اور پھر چوہدری صاحب کا چہرہ دیکھا تو چوہدری صاحب نے چوتھا تھپڑ جڑ دیا ، یہ دیکھ کر اسکی ماں غش کھا کر گر گئی تھی ،۔
چوہدری صاحب بہت طاقتور تھے ،بہت ہی طاقتور ، ،۔
“ وہ “ اپنی بےہوش ماں کو بانہوں میں اٹھا کر جب میرے پاس سے گزرا تو ، اپنئ بے ہوش ماں کا منہ چوم کر کہہ رہا تھا میرئے مائیں ، توں نہ مریں نئیں تے میں مرجاؤں گا ۔ْ
مجھے وہ منظر آج بھی یاد ہے ،۔
اور پھر میں نے دیکھا
کہ
اج سالیس سال بعد ، “اس گاؤں “ میں اج چویدریوں کی کوئی زمین کوئی مکان نہیں ہے ان کی اولاد میں سے بھی کوئی نہیں ہے ،۔
میں نے دیکھا ہے
کہ
جو طاقتور ، ہاتھ لٹکائے تھپڑ کھا جانے والے مجبور سے بجائےمعافی مانگنے کے ، دوسرا تھپڑ جڑ دے ۔
وہ بہت برا کر رہا ہوتا ہے ،۔
بلکہ بہت ہی برا ،۔
تھپڑ کھا جانے والے مجبور کے پیچھے وہ طاقت کھڑی ہو جاتی ہے ، جس کو رب کہتے ہیں ،۔
اور بڑے بزرگ بتاتے ہیں
کہ
رب کی چکی بڑا آہستہ پیستی ہے لیکن بڑا باریک پیستی ہے ،۔
ہندی ادب سے ایک شعر
مت ستائے غریب کو بری غریب کی آہ
موئے بکرے کی کھال سے لوہا بھسم ہو جاہ
یہ ایک سچی بات ہے ، کردار کے نام اس لئے نہیں لکھے کہ
اسکی سبکی نہ ہو ،۔
“وہ “ ابھی زندہ ہے اور اس کی اولادیں اُسی گاؤں میں ہی پنپ رہی ہیں ،۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں