جمعرات، 28 مارچ، 2019

جاپان کا کینگو



جاپان میں 1989ء سے ہے سے نام کا گینگو (شہنشاھ سے منصوب دور کا نام) چل رہا تھا جوکہ 2019ء سے تبدیل ہو جائے گا ،۔
نئے دور کے نام کے لئے اعلی سرکاری لوگوں کیا ایک کمیٹی کام کر رہی ہے ، جن کے فون بند ہیں اور نئے دور کے نام کو جب تک کہ سرکاری طور پر اعلان نہ ہو جائے لیک ہونے سے روکا جارہا ہے ،۔
یکم اپریل کو نیا گینگو اعلان ہونا متوقع ہے ۔

جاپان میں ، شہنشاھ سے منسوب دور کا نام ماھ سال کی گنتی کے علاوہ بھی بہت گہرے مفہوم رکھتا ہے ،۔
کسی بھی دور کا نام قوم  کے ذہنوں پر حاوی ہوتا ہے ،۔
انگریزی کلینڈر سے ماھ سال تو گنے جا سکتے ہیں لیکن  گینگو (شہنشاھ سے منصوب دور کا نام) سے ہسٹری  بنتی ہے سوچی جاتی ہے ،۔
انگریزی میں اس کی مثال اسطرح دی جا سکتی ہے جیسا کہ انگریز لوگ ویکٹورین دور یا کہایڈورڈیندور کے عدالتی فیصلوں جنگوں یا کہ معاشرتی تبدیلوں کے لئے استعمال کرتے ہیں اسی طرح 
جاپان میں  ہے سے کے دور کو  اکنامک کے ببل  اور ببل کے پھوٹ جانے سے یاد کیا جائے گا ،۔
 جس میں ملک کی اکنامک میں غفلت اور استحکام  کا اداراک ہوا ،۔
ہے سے کے دور میں ہی  بینالقوامی اکنامک میں جاپان نے اپنا سکہ منوایا ،۔

مشرقی ایشا میں ساؤتھ کوریا اور چین کی ترقی  اور ان اقوام کا جاپان کے مدمقابل ہونا ،۔
اندورونی طور پر 1995ء کا کوبے والا زلالہ اور 2011ء والی فوکوشیما والی تسونامی اور اس کی وجہ سے ہونے والی ایٹمی تابکاری والی افات کی وجہ سے بھی  ہے سے  کے دور کو یاد رکھا جائے گا ،۔
ہے سے کے تیس سال کے دور میں  جاپان نے امن دیکھا ہے ،۔
مکمل امن اندرونی اور بیرونی طور پر یہ دور امن کے دور کے طور پر مثالی دور گزرا ہے ،۔
ہے سے کے دور میں ہی جاپان نے جنگ میں مقابل اقوام چین اور انڈیا سے اقتصادی تعاون بڑھا کر جنگ کی تلخیوں سے مبرا ماحول بنایا ہے ۔

ہے سے ، سے پہلے کا دور جس کو شووا ہو دور کہا جاتا ہے ،۔

64 سالہ شوا دور، جو 1989 تک جاری رہا،  دو عالمی جنگوں کے بعد دہائیوں میں جاپان کے بحالی اور عالمی طور پر جاپان کی حثیت کے استحکام کا نام ہے .

جاپان کے بڑے بزرگ جنہون نے جنگ دیکھی ہے ، وہ  بزرگ امن کے اس دور کی طرح انے والے گینگو میں بھی امن کی امید سے ہیں ،۔

جاپان میں سرکاری فائلوں میں گیگوری کلینڈر  کا استعمال نہیں کیا جاتا ہے 
بلکہ 
گینگو یعنی شہنشاھ کے دور کا نام ستعمال کیا جاتا ہے ،۔
اس وقت جاپان  کی کمپنیوں اور سرکاری دفاتر کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ گینگو کا اعلان ہوتے ہیں کیسے اور کتنی جلدی کمپیوٹر کے سسٹم اور پروگرامز اور اپلیکیشن میں گیگو تبدیل کرنا ہے ،۔
نیا دور یکم مئی 2019ء کے دن سے شروع ہو گا ،۔
گینگو کا اعلان یکم اپریل کو متوقع ہے ،۔
امید کی جا رہی ہے کہ ایک مہینے کا عرصہ  گینگو کی تبدیلی کے لئے کافی ہے ،۔
راقم کا مشاہدہ ہے کہ بادشاہوں کے بدلنے سے زمین پر تبدیلیاں آتی ہیں ،۔
ماحال کے رنگ اور ڈیزائین کی تبدیلی  سے لے کر اقوام کی عادات تک میں تبدیلی آتی ہے ،۔
جاپان میں مقیم وہ غیر ملکی جو شوا کے دور سے جاپان میں ، اگر ان کا مشاہدہ ہے تو 
ان کو احساس ہو گا کہ  شوا کے دور میں سائین بورڈ  افقی ہوا کرتے تھے جو کہ ہے سے کے دور میں عمودی ہو گئے ،۔
یہ ایک صرف مثال ہے ،۔
مشاہدھ رکھنے والوں کو ہزاروں تبدیلیاں نظر آتی ہے ،۔
تحریر خاور کھوکھر

منگل، 19 مارچ، 2019

پٹھان کی گنتی اور کاسٹک سوڈا


مجھے یاد ہے انیس سو اناسی میں  ہمارے ہائی سکول میں  لیبارٹرئیر  رانا ادریس تھا اور سائینس ٹیچر ماسٹر منور صاحب ،۔
ماسٹر صاحب اردو  میں بات کیا کرتے تھے ،۔
ایک دن  لیبارٹری کے پاس سے گزرتے ہوئے انہوں نے مجھے کھڑا کر لیا اور 
پوچھنے لگے 
کہ
کیا کاسٹک سوڈا پانی میں حل پذیر ہوتا ہے ؟
میں نے جواب دیا ، جی ہاں  ، بلکل حل پذیر ہوتا ہے ،۔
انہوں نے کہا کہ اپ کا لیبارٹرئیر کہہ رہا ہے کہ کاسٹک سوڈا پانی میں حل پذیر نہیں ہوتا ،۔
اور ادریس کو آواز لگائی ، ادریس صاحب ذرا یہاں تشریف لائیں ،۔
 اور اس بچے کو بھی  بتائیں کہ کاسٹک سوڈا پانی میں حل پذیر ہوتا ہے کہ نہیں؟
ادریس صاحب کہنے لگہ کہ کاسٹک سوڈا پانی میں حل پذیر نہیں ہوتا ،۔
میں نے ادریس صاحب سے پوچھا
کہ
صابن بنانے والا کاسٹک جس کو پنجابی میں کاسٹر کہتے ہیں کیا وہ پانی میں ڈالیں تو پگلتا ہے کہ نہیں ؟
ادریس صاحب کا جواب تھا پگل جاتا ہے ،۔
تو اسی کو کاسٹک سوڈا کہتے ہیں ،۔
ماسٹر جی اردو میں پوچھ رہے تھے 
اور میں نے پنجابی میں پوچھا تھا ،۔
یہ ہوتا ہے فرق مادری زبان میں تعلیم کا ،۔

دوسرا واقعہ ہے 
یہاں میرے پاس ایک پٹھان کام کرتا تھا
جو کبھی کبھی سیکنڈ  ہینڈ پُلر لے آتا تھا 
جو کہ کنٹینر کی لوڈنگ میں کام آتے ہیں ،۔
ایک پلر ایک ہزار کا ہوتا تھا ،۔
وہ تعداد بتا دیتا تھا اور میں ناگرہ کو اس کی ادائیگی کا کہہ دیتا تھا ،۔
ناگرہ ہر دفعہ  پُلر گِن کر پیسے دیتا تھا ،۔
کئی دفعہ پٹھان کی بتائی ہوئی تعداد ٹھیک نہیں ہوتی تھی ،۔
ایک دفعہ پٹھان نے  ساٹھ پُلر بتائے تھے لیکن ناگرہ کے گنتی کرنے پر اٹھاون نکلے تھے ،۔
میں نے پٹھان کو کہا کہ وہ پلر کم ہیں ،۔
ناگرہ گن کر گیا ہے ،۔
پٹھان نے مجھے پاس کھڑا کیا اور میرے سامنے گننے لگا ،۔
پٹھان اردو میں گن رہا تھا ، پُلر ساٹھ بن رہے تھے 
لیکن مجھے پتہ چل گیا کہ بات کہاں غلط ہے ،۔
میں نے اس کو کہا کہ میرے سمجھنے ناں سمجھے کو چھوڑو 
ایک دفعہ پشتو میں گنتی کر کے دیکھو 
پشتو میں گنتی کرتے ہی وہ خود کہتا ہے ہاں یہ تو اٹھاون ہی ہیں ،۔
کیونکہ 
اردو میں گنتی کرتے ہوئے اسکے منہ سے چھبیس کے بعد اٹھائیس نکل جاتا تھا اور چھتیس کے بعد اٹھتیس ،۔
یہ ہوتاہے فرق مادری بولی اور غیر بولی کا !!،۔

تحریر خاور کھوکھر

پیر، 11 مارچ، 2019

MH370کی گمشدگی کے پانچ سال بعد


ہمارے دنوں کی ہماری عمر کی  دور کی ہسٹری ، جو ہم دیھ رہے ہیں جو ہم سن رہے ہیں جو ہم بھگت رہے ہیں ،۔
یہ سب انے والے زمانوں کے لئے ہسٹری ہو گا ،۔
ہمارا لکھا ہوا معتبر ہو کہ نہ ہو ،لیکن ہو گا یہی ہسٹری ،۔
کہ ہمارے دیکھتے دیکھتے ملائیشیا کا ایک ہوائی جہاز کہیں فضاؤں میں گم ہو گیا ،۔
آٹھ مارچ 2014ء کے روز ، کُل عالم پور کےائیر پورٹ سے اڑنے والے اس جہاز کی گمشدکی کے متعلق طرح طرح کی قیاس آرائیاں  کی گئیں ، کچھ معتبر اور کچھ غیر معتبر ،۔
لیکن سوال اب تک وہیں ہے کہ طیارہ گیا کہا؟
ایوایشن کی دنیا کا بہت بڑا اسرار ، کہ کبھی حل ہو گا کہ نہیں ،۔ْ
کل عالم پور سے بیجنگ جانے والے اس طیارے کی پراسرار گمشدگی کے متعلق ہمارے زمانے میں پانچ بڑی تھیوریز تھیں جن کا چرچا رہا کہ
پہلی تھیوری تھی
کہ
یہ طیارہ مکینیکل فیلر یعنی پرزوں کی خرابی کی وجہ سے کچھ ایسا ہوا کہ جہاز میں دھواں پھیلنے یا کہ کسی وجہ سے سارے مسافر اور پائلٹ بے ہوش ہو گئے تھے ، جہاز آٹو پائئلٹ پر چلتا رہا اور کہیں بہرالکاہل کی مہیب اور خاموش گہیرائیوں میں گم ہو گیا ،۔

دوسری تھوری تھی کہ 

جہاز کا پائیلٹ ذہنی بیمار تھا ، اس نے خود کشی کر لی یعنی کہ جہاز سمیت کہیں بہرالکاہل میں  جہاز کی ڈبکی لگوا دی 
کہ پھر جہاز کبھی سطح سمند پر آ ہی نہیں سکا ،۔

اس تھیوری کے متعلق  پائلٹ کے کچھ ویڈیو بھی سرکولیٹ کرتے رہے کہ پائلٹ اپنی پرایئویٹ زندگی میں کچھ ابنارمل کرتا رہا تھا ،۔

تیسری تھیوری تھی کہ 
جہاز کو دہشت گردوں نے اغوا کر کے پاکستان میں کہیں چھپا دیا ہے ،۔
اوساما بن لادن جو کہ 2011ء میں پاکستان میں مارا گیا تھا اس کے گروھ کے لوگوں نے جہاز کو ہائی جیک کر کے کہیں پاکستان میں چھپا دیا ہے اور دہشت گرد لوگ اس جہاز کو ایک اڑتے بم کی طرح استعمال کر سکتے ہیں جیسا کہ انہوں نے 2001 ء میں نیو یارک میں کیا تھا ،۔

چوتھی تھیوری یہ تھی کہ 
جہاز کو ریمورٹ کنٹرول کے ذریعے ہائی جیک کر کے کہیں چھپا دیا گیا ہے ،۔
استھیوری کے پیچھے  آئیڈیا یہ تھا کہ جہاز بنانے والی کمپنی بوئینگ نے 2006ء میں ایک تکنیک پینٹ کروای تھی جس کے ذریعے کسی بھی اڑتے ہوئے جہاز کو پائلٹ اور کریو کے کنٹرول سے نکال کر جہاز کا کنٹرول سنبھالا جا سکتا ہے ،۔
ملائیشیا کے مہاتیر محمد نے انتخابات سے پہلے اسٹریلیا کے ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ 
ایسی ٹکنالوجی کے ہوتے ہوئے اس کو استعمال کرنے کے امکان کو بھی رد نہیں کیا سکتا ،۔

پانچویں تھیوری تھی کہ
جو کہ کمزور ترین تھیوری ہے 
نیویارک کے ایک میگزین میں ایویایشن کے ایک ماہر  جیف وائزنے لکھا تھا کہ
اس  کے خیال میں ایم ایچ تین سو ستر کو روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے اغوا کروا کر قازکستان میں رکھا ہے ،۔
روسی صدر مغربی طاقتوں  سے یوکراین کے متعلق کچھ شرائط منوانے کے لئے 
اس جہاز میں لوڈ کسی چیز یا کہ کسی شخصیت کو استعمال کرنے کی کوشش کریں گے م،۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ ساری باتیں اپنی جگہ 
لیکن سوال وہیں ہے کہ طیارہ گیا کہاں ،۔
شائد ہماری زندگی میں اس سوال کا جواب مل جائے ، یا کہ ہو سکتا ہے ہمارے مرنے کے بعد اس سوال کا جواب ملے ؟
یا کہ 
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ 
اس طیارے کی کمشدگی کا معلمہ کبھی بھی حل نہ ہو ،۔
اور اس میں سوار سینکڑوں لوگون کی زندگی اور موت  کے متعلق نہ جان سکنے والے لواحقین پر انتظار کا کر کرب کبھی بھی ختم نہ ہو م،۔

جمعرات، 7 مارچ، 2019

رب کی چکی ، دوسری کہانی


چیمے جاٹوں کے گاؤں دیہات میںجوگیلوگ بھی ہوتے ہیں ،۔
پرانی کتابوں میں لکھا ہے کہ جب چیمے مسلمان نہیں ہوئے تھے یا کہ جو مسلمان نہیں ہیں ، انکی شادی کی رسومات جوگی لوگ کیا کرتے ہیں ،۔
جوگی لوگ  عام دنوں میں سارنگی لے کر نکلا کرتے تھے  ، سارنگی پر مخصوص دھنیں بجاتے اور لوک گیت گاتے  جوگی لوگوں کو برصغیر کی رسم کے مطابق اناج دانے ، آٹا دیا کرتے تھے ،۔
وہ بھی چیمے جاٹوں کا ایک گاؤں تھا ،۔
اس گاؤں کے جوگیوں نے بھیک مانگنی چھوڑ دی تھی اور سائکلوں کی مرمت یا کہ دیگر کام کر کے کمانے لگے تھے ،۔
وہ   بھیک چھوڑ کر  کام کمانے والے جوگیوں کی دوسری نسل سے تھا ،۔
اسنے بس پر کلینڈری اختیار کی تھی ، وہ بس ان کے اپنے گاؤں سے بھی گزرتی تھی ،۔
ایک دن ایسا ہوا کہ اسکے والی بس سے پہلی بس کو سٹوڈنٹ لوگوں نے اسکے گاؤں میں روک کر ڈرائیور کلینڈر سے جھگڑا شروع کر دیا ، جھگڑا لمبا ہو گیا کہ اسکے والی بس بھی وہاں پہنچ گئی ، ۔
ڈرائیور کلینڈر اور سٹوڈنٹوں کے جھگڑے میں جاٹ چیموں کا ایک جوان  پہلے ہی بیچ بچاؤ کروانے لگا ہوا تھا کہ 
وہ بھی بڑے مان سے جاٹ چیمے کو اپنے گاؤں کا اور اپنا سمجھ کر پاء جی پاء جی کہتا ہوا بیچ بچاؤ کروانے میں شامل ہو گیا ،۔
چیمے جوان کو پتہ نہیں کیا بات ناگوار گزری کہ اس نے جوگی منڈے کے منہ پر تھپڑ جڑ دیا ،۔
جوگی منڈے کو اپنے حلقہ احباب میں بڑی سبکی محسوس ہوئی ، جوگی پاؤں پٹختا ہوا وہاں سے اپنے گھر کی طرف چل دیا ،۔ 
اس کو مان تھا کہ 
چیمہ اس سے معافی مانگے گا ،۔
کچھ لوگوں نے چیمہ جوان کا منہ دیکھا کہ ، وہ اپنے گھر سے مدد لینے گیا ہے ، اب تم کیا کرو گے ؟
مجھے یاد ہے ، چیمے جوان نے کہا کہ لے آئے جو کلاشن کوف لانی ہے اس نے گھر سے ،۔
کچھ دیر بعد وہ جوگی منڈا اپنی ماں کے ساتھ آتا ہے ،۔
اسکی ماں بڑے مان سے چیمے جوان کا منہ دیکھ کر پوچھتی ہے ،۔
چوہدری صاحب ، میرے منڈے کو کیوں مارا ہے ؟
چیمہ صاحب ، بڑے ہتک امیز لہجے میں جوگی کی ماں کو دھتکار دیتے ہیں ۔
جوگی منڈا اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے ہیں ،۔
جوگی منڈا اپنی ساری شرمنگی کے ساتھ بس پر چڑھ کر چلا جاتا ہے ،۔
اور اسکی ماں  بے جان سی ٹانگوں پر چلتی اپنے گھر کو چلی جاتی ہے ،۔
مجھے جب بھی یہ واقعہ یاد آتا ہے ،۔
بڑا افسوس ہوتا ہے کہ 
کاش میں اس پوزیشن میں ہوتا کہ چیمہ صاحب سے معافی منگوا سکتا ،۔
وہ جوگی منڈا پھر کبھی گاؤں میں نظر نہیں آیا ، اس نے گاؤں چھوڑ دیا ،۔
آج اس واقعے کے چالیس سال بعد مجھے یاد آیا کہ 
ان چیمہ صاحب کی شادی ہو چکی ہے ، اولاد میں ایک ہی بیٹا ،اور وہ بیٹا اپنی جوانی میں قتل ہو چکا ہے م،۔
اور  چیمہ صاحب کو میں نے سڑک پر بلکل اسی طرح جس طرح کہ جوگی منڈے کی ماں کو دیکھا تھا ، بے جان ٹانگوں سے چلتا دیکھ سوچ رہا تھا ،۔

یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا 

یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں 

رب کی چکی کا پیسا ہوا بڑا باریک ہوتا ہے ،۔


 مجھے وہ منظر آج بھی یاد ہے ،۔
چوہدری صاحب  نے ایک تھپڑ لگایا تھا ، اور وہ ہاتھ لٹکائے کھڑا تھا ، دوسرا تھپڑ بائیں ہاتھ کا تھا ، اور تیسرا پھر دائیں کا ،۔
وہ پھر بھی ہاتھ لٹکائے کھڑا تھا ،۔
پھر اسکی بوڑھی ماں وہاں آ گئی ، اسکی ماں نے اپنے بیٹے کا چہرہ دیکھا اور پھر چوہدری صاحب کا  چہرہ دیکھا تو چوہدری صاحب نے چوتھا تھپڑ جڑ دیا ، یہ دیکھ کر اسکی ماں غش کھا کر گر گئی تھی ،۔
چوہدری صاحب بہت طاقتور تھے ،بہت ہی طاقتور ، ،۔
وہ اپنی  بےہوش ماں کو بانہوں میں اٹھا کر جب میرے پاس سے گزرا تو ، اپنئ بے ہوش ماں کا منہ چوم کر کہہ رہا تھا میرئے مائیں ، توں نہ مریں نئیں تے میں مرجاؤں گا ۔ْ
مجھے وہ منظر آج بھی یاد ہے ،۔
اور پھر میں نے دیکھا
کہ
اج سالیس سال بعد  ، اس گاؤں میں   اج چویدریوں کی کوئی زمین کوئی مکان نہیں ہے ان کی اولاد میں سے بھی کوئی نہیں ہے ،۔
میں نے دیکھا ہے 
کہ
جو طاقتور ، ہاتھ لٹکائے تھپڑ کھا جانے والے مجبور سے بجائےمعافی مانگنے کے ، دوسرا تھپڑ جڑ دے ۔
وہ بہت برا کر رہا ہوتا ہے ،۔
بلکہ بہت ہی برا ،۔
تھپڑ کھا جانے والے مجبور کے پیچھے  وہ طاقت کھڑی ہو جاتی ہے ، جس کو رب کہتے ہیں ،۔
اور بڑے بزرگ بتاتے ہیں 
کہ
رب کی چکی بڑا آہستہ پیستی ہے لیکن بڑا باریک پیستی ہے ،۔

ہندی ادب سے ایک شعر
مت ستائے غریب کو بری غریب کی آہ 
موئے بکرے کی کھال سے لوہا بھسم ہو جاہ

یہ ایک سچی بات ہے ، کردار کے نام اس لئے نہیں لکھے کہ
اسکی سبکی نہ ہو ،۔
وہ ابھی زندہ ہے اور اس کی اولادیں اُسی گاؤں میں ہی پنپ رہی ہیں ،۔

Popular Posts